تفسیر سوہ آل عمران آیت ۱۳۔ قَدْ کَانَ لَکُمْ اٰیَۃٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا فِئَۃٌ تُقٰتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوْنَہُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گستاخوں کے قتل کادن بدرشریف

{قَدْ کَانَ لَکُمْ اٰیَۃٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا فِئَۃٌ تُقٰتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوْنَہُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ وَاللہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ یَّشَآء ُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصٰرِ}(۱۳)
ترجمہ کنزالایمان:بے شک تمہارے لئے نشانی تھی دو گروہوں میں جو آپس میں بھڑ پڑے ایک جتھا اللہ کی راہ میں لڑتا اور دوسرا کافر کہ انہیں آنکھوں دیکھا اپنے سے دونا سمجھیں اور اللہ اپنی مدد سے زور دیتا ہے جسے چاہتا ہے ،بے شک اس میں عقلمندوں کے لئے ضرور دیکھ کر سیکھنا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان: بیشک تمہارے لئے ان دوجماعتوں میں بڑی نشانی ہے جنہوں نے آپس میں جنگ کی۔ (اُن میں )ایک گروہ تو اللہ تعالی کی راہ میں لڑرہی تھی اور دوسری جماعت کافروں کی تھی جو اپنے آپ کو کھلی آنکھوں سے مسلمانوں کو دگنا دیکھ رہے تھے اور اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے تائیدفرماتا ہے۔ بیشک اس میں عقلمندوں کے لئے بڑی عبرت ہے ۔
ایک سوال اوراس کاجواب
اس آیت کریمہ میں ایک عجیب بات بیان کی گئی ہے ایک جماعت اللہ تعالی کے لئے لڑرہی تھی اوردوسری جماعت کافرتھی ، یہ جملہ بظاہربڑاعجیب سالگتاہے یایوں کہاجاتاکہ ایک جماعت مسلمان تھی اوردوسری کافرتھی یایوں کہاجاتاکہ ایک جماعت اللہ تعالی کے لئے لڑرہی تھی اوردوسری جماعت کفراورشیطان کے لئے لڑ رہی تھی ۔ اس کاجواب امام ابوحیان الاندلسی رحمہ اللہ تعالی دیتے ہیں کہ
فَذَکَرَ فِی الْأُولَی لَازِمَ الْإِیمَانِ، وَہُوَ الْقِتَالُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَذَکَرَ فِی الثَّانِیَۃِ مَلْزُومَ الْقِتَالِ فِی سَبِیلِ الشَّیْطَانِ، وَہُوَ الْکُفْرُ.
ترجمہ
اس میں وہ چیز ذکرکی گئی ہے جو ایمان کے لوازمات میں سے ہے یعنی قتال فی سبیل اللہ اوردوسرے فریق کے لئے وہ چیز ذکرکی گئی ہے جو قتال فی سبیل الشیطان کاملزوم ہے یعنی کفر۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی (۳:۴۵)

دوجماعتوں سے کون کون مراد ہیں؟

فِئَتین میں بااتفاق مفسرین مشرکین اور مسلمانوں کی جماعت مراد ہے، انہیں کی مڈ بھیڑ بدر میں ہوئی تھی{ فئۃً تقاتل فی سبیل اللہ} سے مومنوں کی جماعت مراد ہے۔ فئۃٌ کی صفت موئمنۃٌ محذوف ہے اور أُخریٰ کافرۃٌ میں فئۃٌ محذوف ہے۔ مومنوں کے متعلق بتادیاان کی جنگ اللہ کی راہ میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہوتی ہے، لیکن کافروں کے متعلق صراحت نہیں ہے کہ ان کی جنگ کس کے لیے ہوتی ہے؟ مومنوں کی جنگ کا مقصد بتانے کے بعد کافروں کی جنگ کامقصد خودبخود واضح ہوجاتا ہے کہ وہ طاغوت کے لیے لڑتے ہیں، اس لیے تصریح کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ یہ ایجاز کا نمونہ اور بلاغت کا حسن ہے۔مومنوں کے حق میں قتال فی سبیل اللہ اچھی صفت ہے اور کافروں کے حق میں قتال فی سبیل الطاغوت مذموم صفت ہے، اس لیے مسلمانوں کی اس عمدہ صفت کو بیان کرکے کافروں کی مذموم صفت کو نظرانداز کردیاگیا۔

فریقین میں کون کس کو کتنا دیکھ رہا تھا؟

{یَرَوْنَھُمْ مِثْلَیْھِمْ رَأی الْعَیْن}اس آیت میں فاعل، مفعول بہ اور مثلیھم کی ضمیر کے مراجع میں اختلاف کی وجہ سے اس کی تفسیر میں کئی طرح کے اقوال منقول ہیں۔ یہاں سیاق وسباق کی مناسبت سے پیدا ہونے والے قوی احتمال کوذکرکردیتے ہیں۔
پہلا احتمال
یَرَونَھُمْ میں ضمیر فاعل کا مرجع مشرکین ہیں اور مفعول بہ کی ضمیر کا مرجع مسلمان ہیں، یعنی مشرکین میدان جنگ میں مسلمانوں کے لشکر کو دگنا دیکھ رہے تھے، حالاں کہ مسلمانوں کا لشکرمشرکین کے لشکرکے مقابلے میں ایک حصے پرمشتمل تھا۔اس قدر قلیل ہونے کے باوجود دگنا دکھائی دینا محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل تھا، جسے دیکھ کر مشرکین کے حوصلے پست ہوگئے۔ نفسیاتی طور پر مرعوب ہونے کے بعد عین لڑائی کے وقت مارکھاگئے اور فتح مسلمانوں کا نصیب ٹھہری۔
مثلیھم:اپنے سے دگنے میں دواحتمال ہیں۔ ایک احتمال یہ ہے مثلیھم میں ضمیر کامرجع مشرکین ہیں ،یعنی مشرکین نے مسلمانوں کو اپنے لشکر سے دگنا دیکھا، یعنی دو ہزار کی تعداد میں ، کیوں کہ مشرکین کا لشکر کم و بیش ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ مثلیھم میں ضمیر کا مرجع مسلمان ہیں، یعنی مشرکین نے مسلمانوں کو ان کے حقیقی لشکر سے دگنا دیکھا۔ مسلمانوں کا حقیقی لشکر تین سو سے زائد نظر آیا۔اگر مثلین کا اطلاق حقیقی تعداد سے زائد پر ہوتو نوسو بن جاتے ہیں۔
لیکن یہ دوسرا احتمال کمزورمعلوم ہوتا ہے، کیوں کہ کوئی بھی لشکر اپنے سے زائد لشکر کو دیکھ کر مرعوب ہوتا ہے، نہ کہ اپنے سے کم یا اپنے برابرکو دیکھ کر۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اسے اٰیۃٌ بڑی نشانی قراردیا ہے۔ بڑی نشانی تب بنے گی جب قریش نے مسلمانوں کو اپنے لشکر سے دگنا یعنی دوہزار میں دیکھا ہو۔

دوسرا احتمال
یَرَوْنَھُم میں ضمیر فاعل کا مرجع مسلمان ہیں اور ضمیر مفعول کا مرجع مشرکین ہیں، یعنی مسلمان کفار کو اپنے سے دگنا دیکھ رہے تھے، یعنی چھ سو کے لگ بھگ، حالاں کہ مشرکین کا لشکر سہ چند تھا، لیکن صحابہ کرام کو اپنے سے دوچند نظر آئے ،جس پر صحابہ کرام کو اپنی فتح کا یقین ہوگیا ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے:{إنَّ یَکُن مائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُوا مِئَتَیْن}
اس پر اعتماد کرکے فتح کا یقین کیے ہوئے تھے۔ ممکن ہے لشکر کی حقیقی تعداد منکشف ہو جاتی تو خوف طبعی کا غلبہ ہوجاتا، اس لیے عین وقت پر نصرت فرمائی اور ہمتیں بندھی رہیں، چنانچہ
وأخرج ابْن جریر عَن ابْن مَسْعُود فِی قَوْلہ (قد کَانَ لکم آیَۃ فِی فئتین)الْآیَۃقَالَ:ہَذَا یَوْم بدر فَنَظَرْنَا إِلَی الْمُشْرکین فرأیناہم یضعفون علینا ثمَّ نَظرنَا إِلَیْہِم فَمَا رأیناہم یزِیدُونَ علینا رجلا وَاحِدًاوذَلِک قَول اللہ (وَإِذ یریکموہم إِذْ التقیتم فِی أعینکُم قَلِیلا ویقللکم فِی أَعینہم۔
حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں نقل کیاہے کہ یہ بدراس روزظاہرہواہم نے مشرکوں کو دیکھاوہ ہم سے دگنادکھائی دیتے تھے ، پھرہم نے ان کو دیکھاتووہ ہمیں ہماری تعدادسے صرف ایک آدمی زائد محسوس ہوئے ۔ اللہ تعالی کے فرمان شریف {وَإِذ یریکموہم إِذْ التقیتم فِی أعینکُم قَلِیلا ویقللکم فِی أَعینہم}میں یہی مراد ہے ۔
حضر ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ہم نے مشرکین پرنظر دوڑائی تو وہ ہمیں اپنے برابر دکھائی دینے لگے۔ ایک روایت میں ہے وہ ہمیں اتنے قلیل دکھائی دینے لگے کہ میں نے اپنے قریبی ساتھی سے پوچھا ان کی تعداد ستر تک ہوگی؟ اس نے جواب میں کہا سو تک ہوگی۔
مذکورہ دو احتمال پر شبہات وارد ہوتے ہیں۔ پہلے احتمال پر شبہ وارد ہوتا ہے کہ مشرکین نے قتال سے پہلے عمر بن وہب کو مسلمانوں کی عددی قوت جاننے کے لیے بھیجا تھا، جس نے مشرکین کو آکر بتلایا، ان کی تعداد تین سو دس افراد کے لگ بھگ ہے۔پھرمشرکین کو مسلمان اپنے لشکر سے دگنا کیسے دکھائی دیے جانے لگے؟
دوسرے احتمال پر یہ شبہ وارد ہوتا ہے کہ حضرت عروۃ بن زبیررضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے بنی حجاج کے حبشی غلام سے کفار کے لشکر کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا:لشکری بہت ہیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا: روز کتنے اونٹ ذبح کرتے ہو؟ اس نے جواب میں کہا کہ کسی دن نو، کسی دن دس۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:یہ لشکر نوسوسے ایک ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ کیوں کہ ایک اونٹ سو آدمیوں کو کافی ہوتا ہے، یہ معلوم ہونے کے بعد مسلمانو ں کو کفار کا لشکر اپنے سے دگناکیسے دکھائی دینے لگا؟
دونوں شبہات کا جواب
پہلے شبہے کا جواب یہ ہے کہ کفار نے تحقیق حال کے لیے اپنے ایک جاسوس کی خبر پر اعتماد کیا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کے مشاہدے کو ان کی خبر کے بالعکس کردیا۔ ظاہر ہے خبر، مشاہد ے کے برابر نہیں ہوسکتی، چناں چہ گرفتار ہونے والے مشرکین نے صحابہ کرام سے پوچھا تھا، تمہاری تعداد کتنی تھی؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب میں بتایا تین سو تیرہ، مشرکین نے حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا! ہم تو تمہیں اپنی تعداد سے دگنا سمجھ رہے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ذلت و رسوائی ان کے حق میں مقدر فرمادی۔
دوسرے شبہات کا جواب
اسی طرح دوسری طرف مسلمانوں نے مشرکین کے گرفتارجاسوس سے ان کی تعداد کا تخمینی اندازہ لگایاتھا ،لیکن اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ مسلمانوں کے مشاہدے کو ان کے تخمینے سے بالعکس کردیا اور کفار کی تعداد کم نظر آنے لگی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت تھی، جو حوصلوں کی بلندی کے لیے کام آگئی اور صحابہ کرام دشمنوں کو ستر اور سو کے درمیان سمجھنے لگے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے واقعہ میں مذکور ہے۔
بدرکے وقوع کے اسباب

(۱)قریش کی اسلام دشمنی

اسلام نے مکہ کی سرزمین میں اعلان حق کیا تو معاشرے کے مخلص ترین افراد ایک ایک کرکے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ وہ لوگ جن کے مفادات پرانے نظام سے وابستہ تھے تشدد پر اتر آئے نتیجہ ہجرت تھا۔ لیکن تصادم اس کے باوجود بھی ختم نہ ہوا۔ اسلام مدینہ منورہ میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور یہ بات قریش مکہ کے لیے بہت تکلیف دہ تھی اور وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور مسلمان ہر وقت مدینہ منورہ پر حملے کا خدشہ رکھتے تھے۔ اس صورت حال کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ صحابہ ہتھیار لگا کر سوتے تھے اور خود حضورتاجدارختم نبوت ﷺ بھی اسی طرح کی حفاظتی تدابیر اختیار فرماتے تھے۔

(۲)تجارتی شاہراہ کا مسلمانوں کی زد میں ہونا

قریش مکہ نے مدینہ منورہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ وہ شاہراہ جو مکہ سے شام کی طرف جاتی تھی مسلمانوں کی زد میں تھی۔ اس شاہراہ کی تجارت سے اہل مکہ لاکھوں اشرفیاں سالانہ حاصل کرتے تھے۔ اس کا اندازہ ہمیں اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ بنو اوس کے مشہور سردارحضرت سیدنا سعد بن معاذرضی اللہ عنہ جب طواف کعبہ کے لیے گئے تو ابوجہل نے خانہ کعبہ کے دروازے پر انہیں روکا اور کہا تم ہمارے دین سے پھرے ہوئے لوگوں کو پناہ دو اور ہم تمہیں اطمینان کے ساتھ مکے میں طواف کرنے دیں؟ اگر تم امیہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہیں جاسکتے تھے۔ یہ سن کرحضرت سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔خدا کی قسم! اگر تم نے مجھے اس سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے اہم تر ہے یعنی مدینہ کے پاس سے تمہارا راستہ۔

(۳)اشاعت دین میں رکاوٹ

حضورتاجدارختم نبوت ﷺ اور آپﷺکے ساتھیوں کو مدینہ میں تبلیغ کرنے کی پوری آزادی تھی اور اسلام کے اثرات دور دراز علاقوں میں پہنچ رہے تھے۔ جنوب کے یمنی قبائل میں سے بھی بعض سلیم الفطرت لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے اور ان کی کوششوں سے بحرین کا ایک سردار عبدالقیس مدینہ کی طرف آ رہا تھا کہ قریش مکہ نے راستے میں اسے روک دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جب تک خدا پرستی اور شرک میں ایک چیز ختم نہیں ہو جائے گی، کشمکش ختم نہیں ہوسکتی۔

(۴)عمر بن الحضرمی کا قتل

رجب ۲ھ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حضرت سیدناعبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس غرض سے بھیجا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے۔ اتفاق سے ایک قریشی قافلہ مل گیا اور دونوں گروہوں کے درمیان میں جھڑپ ہو گئی جس میں قریش مکہ کا ایک شخص عمر بن الحضرمی مقتول ہوا اور دو گرفتار ہوئے۔ جب حضرت سیدناعبد اللہ رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس پہنچے تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس واقعہ پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ جنگی قیدی رہا کر دیے گئے اور مقتول کے لیے خون بہا ادا کیا۔ اس واقعہ کی حیثیت سرحدی جھڑپ سے زیادہ نہ تھی چونکہ یہ جھڑپ ایک ایسے مہینے میں ہوئی جس میں جنگ و جدال حرام تھا۔ اس لیے قریش مکہ نے اس کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا اور قبائل عرب کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ عمرو کے ورثا نے بھی مقتول کا انتقام لینے کے لیے اہل مکہ کو مدینہ پر حملہ کرنے پر اکسایا۔

(۵)مدینہ کی چراگاہ پر حملہ

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان میں کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی اس سلسلے میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ ایک مکی سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کے باہر مسلمانوں کی ایک چراگاہ پر حملہ کرکے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے مویشی لوٹ لیے۔ یہ ڈاکہ مسلمانوں کے لیے کھلا چیلنج تھا۔ چند مسلمانوں نے کرز کا تعاقب کیا لیکن وہ بچ نکلا۔

(۶)اسلامی ریاست کے خاتمہ کا منصوبہ

قریش مکہ نے اسلامی ریاست کو ختم کرنے کا فیصلہ کرکے جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کر دیں۔ افرادی قوت کو مضبوط بنانے کے لیے انہوں نے مکہ مکرمہ کے گردونواح کے قبائل سے معاہدات کیے اور معاشی وسائل کو مضبوط تر کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو تجارتی قافلہ شام بھیجا جائے اس کا تمام منافع اسی غرض کے لیے وقف ہو۔ چنانچہ ابوسفیان کو اس قافلے کا قائد مقرر کیا گیا اور مکہ مکرمہ کی عورتوں نے اپنے زیور تک کاروبار میں لگائے۔ اسلامی ریاست کے خاتمے کے اس منصوبے نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان کشیدگی میں بہت اضافہ کر دیا۔

(۷)ابو سفیان کا قافلہ

جب ابوسفیان کا مذکورہ بالا قافلہ واپس آ رہا تھا تو ابوسفیان کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ قافلہ راستے ہی میں نہ لوٹ لیا جائے چنانچہ اس نے ایک ایلچی کو بھیج کر مکہ سے امداد منگوائی۔ قاصد نے عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیر دی اور رنگ دار رومال ہلا کر واویلا کیا اور اعلان کیا کہ ابوسفیان کے قافلے پرحملہ کرنے کے لیے حضورتاجدارختم نبوت ﷺآرہے ہیں۔ اس لیے فوراً امداد کے لیے پہنچو۔ اہل مکہ سمجھے کہ قریش کا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے۔ سب لوگ انتقام کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں معلوم ہوا کہ یہ قافلہ صحیح سلامت واپس آ رہا ہے۔ لیکن قریش کے مکار سرداروں نے فیصلہ کیا کہ اب مسلمانوں کا ہمیشہ کے لیے کام ختم کرکے ہی واپس جائیں گے۔ نیز حضرمی کے ورثاء نے حضرمی کا انتقام لینے پر اصرار کیا۔ چنانچہ قریشی لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا چلا گیا اور بدر میں خیمہ زن ہو گیا۔

غزوہ بدرمیں نشانی کیسے؟

اس غزوہ میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔یہود و نصاریٰ کے لیے اس میں حق کے دریافت کی نشانی ہے، کیوں کہ بدر کا معرکہ اپنی خصوصیات میں بنی اسرائیل کی اس معروف جنگ کا نمونہ ہے جو طالوت کی قیادت میں جالوت اور اس کے لشکریوں کے ساتھ ہوئی تھی۔
مسلمان بھی اپنے شہر سے نکالے گئے تھے اور اسرائیلی بھی، مسلمانوں کی تعداد تین سوتیرہ تھی، یہی تعداد طالوت کے ہم راہ اسرائیلیوں کی تھی، مسلمان بھی جنگی وسائل سے تہی دست تھے اور اسرائیلی بھی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسرائیلیوں کو کفار کے عظیم لشکر پر محض اپنے فضل و نصرت سے سرفراز فرمایاتھا، اسی طرح مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ کو قریش مکہ کے بڑے گروہ پر سرفراز فرمایا۔ اگر یہود ونصاریٰ ان دونوں معرکوں پر غوروفکر سے کام لیں تو ان پرواضح ہوجائے گایہ لڑائی مادیت کی مادیت کے ساتھ نہیں تھی، بلکہ روحانیت کا معرکہ مادیت کے ساتھ برپا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت روحانیت کے ساتھ ہوتی ہے اور یہی روحانیت کے برحق ہونے کی علامت ہے۔
اور مشرکین کے حق میں اسلام اور دین توحید کے برحق ہونے کی نشانی اس طور پر ہے کہ خود انہوں نے میدان بدر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ سارے جنگی وسائل ناکارہ ہوگئے۔ میدان جنگ کے شہسوار نوآموزبچوں کے وار سے گرنے لگے۔

اس وقت حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے غزوات کے مطالعے کی ضرورت ہے

آج ہماری نسلِ نو میں مطالعہ سیرت کا فقدان نظر آتا ہے جو ہماری تنزلی اور پستی میں کسی المناکی سے کم نہیں کیونکہ ایک طرح سے ہم نے اسا س دین کو ترک کر دیا ہے-حضورتاجدارختم نبوتْﷺکے امتی ہونے کے ناطے سیرت طیبہ کے اہم پہلو (غزواتِ نبویﷺسے رہنمائی لیتے ہوئے ہم نہ صرف اپنا دفاع مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ اپنے سماج میں از سرِ نو ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں ایسی روح جو جذبہ ایمانی، عشقِ مصطفیٰ ﷺ، توکل علی اللہ اور ناموس رسالتﷺکے تحفط کی خاطر مر مٹنے سے عبارت ہے جس کیلئے لازم ہے کہ مطالعہ غزوات کا شعور عام کیا جائے ۔
چند اہم چیزیں جو مطالعہ غزوات کے تناطر میں عمیق نظری و دقیق رسی کی طلب گار ہیں کا تذکرہ ذیل میں کیا گیا ہے:
پہلی چیز :مطالعہ غزوات کے ذریعے ہمیں غزوات کے ظاہری پہلوؤں کے ساتھ ساتھ باطنی پہلوئوں کا بھی ادراک ہو-مثلاً غزوہ بدرمیں مسلمانوں کا توکل علی اللہ جس کے نتیجے میں ملائکہ کا مدد کیلئے نازل ہونا۔
دوسری چیز: اس مادہ پرستانہ دور میں مطالعہ غزوات کے ذریعے نوجوان نسل میں حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ جیسی شجاعت و بہادری اور حضرت سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ جیسی غیرت دلوں میں بیدار کرنا ہے-
تیسری چیز: یہ کہ کیسے مٹھی بھر مسلمانوں نے ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مدِ مقابل کفار پر غلبہ حاصل کیا؟ یہ در اصل ان میں جذبہ ایمان اور عشقِ مصطفیٰ ﷺکی روحانی طاقت تھی جس نے قلیل کو کثیر پر غلبہ عطا فرمایا-
چو تھی چیز :مطالعہ غزوات کے ذریعے نوجوان نسل میں اسلامی افکار اور محبت مصطفیٰﷺکو فروغ دینا ہے کیونکہ بقولِ حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی
ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحر و بر در گوشہ دامان اوست
ترجمہ :جس کے پاس حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی محبت کا سامان ہے، اس کے دامن کے پلو میں بحر و بر بندھے ہوئے ہیں۔
مطالعہ غزوات اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل یہ آشنائی حاصل کرے کہ کس طرح صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے ناموسِ دین کی خاطر قربانیاں دیں اور وہ اپنے ایمان میں کس قدر عالی مرتبت تھے؟ مزید یہ کہ وہ ارواحِ مقدسہ صراطِ مستقیم پرکس قدر استقامت سے کاربند تھیں کیا وجہ تھی کہ قیصر و کسریٰ کے استبداد و غرور کو مٹی میں ملاتے ہوئے انہیں کوئی خوف و دقت محسوس نہ ہوئی ؟ کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ کی خاطرانہوں نے اپنے ما ل ومتاع اور گھر بار کو خیر باد کہہ دیا ؟ ان کے پیچھے کیاسوچ کارفرما تھی ؟ یہ تمام ایسے سوال ہیں جو مطالعہ غزوات کے تناظر میں اکثرہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں لیکن ابھی تک تحقیق طلب ہیں جنہیں جاننے اور ان کی عصری معنویت سمجھنے کیلئے مطالعہ غزوات لازمی ہے۔

غزوہ بدرکے متعلق چنداحادیث شریفہ

بدرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گستاخوں کے قتل کادن تھا
حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّی عِنْدَ البَیْتِ،وَأَبُو جَہْلٍ وَأَصْحَابٌ لَہُ جُلُوسٌ،إِذْ قَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ:أَیُّکُمْ یَجِیء ُ بِسَلَی جَزُورِ بَنِی فُلاَنٍ،فَیَضَعُہُ عَلَی ظَہْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ؟فَانْبَعَثَ أَشْقَی القَوْمِ فَجَاء َ بِہِ،فَنَظَرَ حَتَّی سَجَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَضَعَہُ عَلَی ظَہْرِہِ بَیْنَ کَتِفَیْہِ،وَأَنَا أَنْظُرُ لاَ أُغْنِی شَیْئًا،لَوْ کَانَ لِی مَنَعَۃٌ،قَالَ:فَجَعَلُوا یَضْحَکُونَ وَیُحِیلُ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ،وَرَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لاَ یَرْفَعُ رَأْسَہُ،حَتَّی جَاء َتْہُ فَاطِمَۃُ، فَطَرَحَتْ عَنْ ظَہْرِہِ،فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأْسَہُ ثُمَّ قَالَ:اللَّہُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ،فَشَقَّ عَلَیْہِمْ إِذْ دَعَا عَلَیْہِمْ، قَالَ:وَکَانُوا یَرَوْنَ أَنَّ الدَّعْوَۃَ فِی ذَلِکَ البَلَدِ مُسْتَجَابَۃٌ،ثُمَّ سَمَّی:اللَّہُمَّ عَلَیْکَ بِأَبِی جَہْلٍ،وَعَلَیْکَ بِعُتْبَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ،وَشَیْبَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ،وَالوَلِیدِ بْنِ عُتْبَۃَ،وَأُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ،وَعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ وَعَدَّ السَّابِعَ فَلَمْ یَحْفَظْ ،قَالَ:فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَقَدْ رَأَیْتُ الَّذِینَ عَدَّ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَرْعَی،فِی القَلِیبِ قَلِیبِ بَدْرٍ۔
ترجمہ :حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورتاجدارختم نبوت ﷺایک دفعہ کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آپس میں کہنے لگے:تم میں سے کون جاتا ہے کہ فلاں قبیلے کی اونٹنی کی بچہ دانی لے آئے جسے وہ سجدے کی حالت میں محمدﷺکی پشت پر رکھ دے؟ چنانچہ ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت اٹھا اور اسے اٹھا لایا، پھر دیکھتا رہا۔ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺسجدے میں گئے تو اس نے اسے آپ ﷺکے دونوں شانوں کے درمیان پشت پر رکھ دیا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ تو رہا تھا لیکن کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش کہ مجھے تحفظ حاصل ہوتا، پھر وہ ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺسجدے ہی میں پڑے رہے، اپنا سر نہیں اٹھایا تا آنکہ حضرت سیدہ کائنات فاطمہ رضی اللہ عنہاآئیں اور آپﷺ کی پشت پر سے اسے اٹھا کر پھینک دیا۔ تب آپ ﷺنے اپنا سر مبارک اٹھایا اور تین مرتبہ یوں دعائے جلال فرمائی :یا اللہ!قریش سے بدلہ لے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکا یوں دعا ئے جلال کرنا ان پر بڑا گراں گزرا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپﷺ نے نام بہ نام اللہ تعالی کی بارگاہ میں یوں عرض کی:یا اللہ!ابوجہل سے انتقام لے۔ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کی ہلاکت کو اپنے اوپر لازم کر۔ساتویں شخص کا بھی نام لیا لیکن میں وہ بھول گیا۔ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں نے ان لوگوں کو دیکھا، جن کا نام حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے لیا تھا، وہ بدر کے کنویں میں مرے پڑے تھے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۱:۱۱۰)

بدرکے دن حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی دعا

عَنْ عِکْرِمَۃَ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا،قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،وَہُوَ فِی قُبَّۃٍ:اللَّہُمَّ إِنِّی أَنْشُدُکَ عَہْدَکَ وَوَعْدَکَ،اللَّہُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الیَوْمِ فَأَخَذَ أَبُو بَکْرٍ بِیَدِہِ،فَقَالَ:حَسْبُکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ،فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلَی رَبِّکَ وَہُوَ فِی الدِّرْعِ،فَخَرَجَ وَہُوَ یَقُولُ(سَیُہْزَمُ الجَمْعُ،وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ،وَالسَّاعَۃُ أَدْہَی وَأَمَرُّ)(القمر:۴۶)وَقَالَ وُہَیْبٌ،حَدَّثَنَا خَالِدٌ،یَوْمَ بَدْرٍ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیاکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاپنے خیمے میں اللہ تعالی کے حضور یہ عرض کررہے تھے:اے اللہ!میں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں(کہ مسلمانوں کو فتح عطا فرما)۔ اے اللہ!اگر تیری یہی مرضی ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ ہو۔ اتنے میں حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺکا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!بس یہ آپﷺ کے لیے کافی ہے، آپﷺ نے اپنے رب سے بہت الحاح اور زاری سے دعا کی ہے۔ آپ ﷺزرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ پڑھتے ہوئے باہرنکلے:عنقریب کفار کی جماعت شکست سے دو چار ہوجائیگی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور تلخ تر چیز ہے۔ (راوی حدیث)خالد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۴۴)

ملائکہ کرام علیہم السلام کامددکرنے کے لئے آنا

حَدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبَّاسٍ،قَالَ:حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ:لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ نَظَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ وَہُمْ أَلْفٌ،وَأَصْحَابُہُ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَتِسْعَۃَ عَشَرَ رَجُلًا،فَاسْتَقْبَلَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَۃَ،ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ،فَجَعَلَ یَہْتِفُ بِرَبِّہِ:اللہُمَّ أَنْجِزْ لِی مَا وَعَدْتَنِی،اللہُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِی،اللہُمَّ إِنْ تُہْلِکْ ہَذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْأَرْضِ،فَمَا زَالَ یَہْتِفُ بِرَبِّہِ،مَادًّا یَدَیْہِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ، حَتَّی سَقَطَ رِدَاؤُہُ عَنْ مَنْکِبَیْہِ، فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ فَأَخَذَ رِدَاء َہُ، فَأَلْقَاہُ عَلَی مَنْکِبَیْہِ،ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، وَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللہِ،کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ،فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ،فَأَنْزَلَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ:(إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ)(الأنفال:۹)فَأَمَدَّہُ اللہُ بِالْمَلَائِکَۃِ،قَالَ أَبُو زُمَیْلٍ: فَحَدَّثَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ،قَالَ:بَیْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَئِذٍ یَشْتَدُّ فِی أَثَرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ أَمَامَہُ، إِذْ سَمِعَ ضَرْبَۃً بِالسَّوْطِ فَوْقَہُ وَصَوْتَ الْفَارِسِ یَقُولُ:أَقْدِمْ حَیْزُومُ،فَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِ أَمَامَہُ فَخَرَّ مُسْتَلْقِیًا، فَنَظَرَ إِلَیْہِ فَإِذَا ہُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُہُ،وَشُقَّ وَجْہُہُ،کَضَرْبَۃِ السَّوْطِ فَاخْضَرَّ ذَلِکَ أَجْمَعُ،فَجَاء َ الْأَنْصَارِیُّ،فَحَدَّثَ بِذَلِکَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:صَدَقْتَ،ذَلِکَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاء ِ الثَّالِثَۃِ،فَقَتَلُوا یَوْمَئِذٍ سَبْعِینَ،وَأَسَرُوا سَبْعِینَ،قَالَ أَبُو زُمَیْلٍ،قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:فَلَمَّا أَسَرُوا الْأُسَارَی،قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَبِی بَکْرٍ،وَعُمَرَ:مَا تَرَوْنَ فِی ہَؤُلَاء ِ الْأُسَارَی؟فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ:یَا نَبِیَّ اللہِ،ہُمْ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃِ،أَرَی أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُمْ فِدْیَۃً فَتَکُونُ لَنَا قُوَّۃً عَلَی الْکُفَّارِ،فَعَسَی اللہُ أَنْ یَہْدِیَہُمْ لِلْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا تَرَی یَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ قُلْتُ:لَا وَاللہِ یَا رَسُولَ اللہِ،مَا أَرَی الَّذِی رَأَی أَبُو بَکْرٍ،وَلَکِنِّی أَرَی أَنْ تُمَکِّنَّا فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَہُمْ،فَتُمَکِّنَ عَلِیًّا مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ،وَتُمَکِّنِّی مِنْ فُلَانٍ نَسِیبًا لِعُمَرَ،فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، فَإِنَّ ہَؤُلَاء ِ أَئِمَّۃُ الْکُفْرِ وَصَنَادِیدُہَا،فَہَوِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ،فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ جِئْتُ،فَإِذَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ قَاعِدَیْنِ یَبْکِیَانِ،قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللہِ،أَخْبِرْنِی مِنْ أَیِّ شَیْء ٍ تَبْکِی أَنْتَ وَصَاحِبُکَ؟فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَاء ً بَکَیْتُ،وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَاء ً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أَبْکِی لِلَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنْ أَخْذِہِمِ الْفِدَاء َ،لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُہُمْ أَدْنَی مِنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ شَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ مِنْ نَبِیِّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنْزَلَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ:(مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ)(الأنفال:۶۷)إِلَی قَوْلِہِ (فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَیِّبًا)(الأنفال:۶۹)فَأَحَلَّ اللہُ الْغَنِیمَۃَ لَہُمْ.
ترجمہ :حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے، اور آپ ﷺکے ساتھ تین سو انیس آدمی تھے، تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺقبلہ رخ ہوئے، پھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بلند آواز سے اپنے رب تعالی کو پکارنے لگے:اے اللہ!تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا اسے میرے لیے پورا فرما۔ اے اللہ!تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا مجھے عطا فرما۔ اے اللہ!اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری بندگی نہیں ہو گی۔آپ ﷺقبلہ رو ہو کر اپنے ہاتھوں کو پھیلائے مسلسل اپنے رب تعالی کو پکارتے رہے حتی کہ آپﷺ کی چادر آپ ﷺکے کندھوں سینیچے تشریف لے آئی۔ اس پر حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ آپﷺ کے پاس آئے، چادر اٹھائی اور اسے آپﷺ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ ﷺکے ساتھ چمٹ گئے اور عرض کرنے لگے:یارسول اللہ ﷺ!اپنے رب تعالی سے آپﷺ کا مانگنا اور پکارنا کافی ہو گیا۔ وہ جلد ہی آپﷺ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:جب تم لوگ اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں ایک دوسرے کے پیچھے اترنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔پھر اللہ تعالی نے فرشتوں کے ذریعے سے آپ ﷺکی مدد فرمائی۔ ابوزمیل نے کہا:مجھے حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا:اس دوران میں، اس دن مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے سامنے بھاگتے ہوئے مشرکوں میں سے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس نے اپنے اوپر سے کوڑا مارنے اور اس کے اوپر سے گھڑ سوار کی آواز سنی، جو کہہ رہا تھا:حیزوم!آگے بڑھ۔ اس نے اپنے سامنے مشرک کی طرف دیکھا تو وہ چت پڑا ہوا تھا، اس نے اس پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان پڑا ہوا تھا، کوڑے کی ضرب کی طرح اس کا چہرہ پھٹا ہوا تھا اور وہ پورے کا پورا سبز ہو چکا تھا، وہ انصاری آیا اور حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو یہ بات بتائی تو آپ ﷺنے فرمایا:تم نے سچ کہا، یہ تیسرے آسمان سے (آئی ہوئی)مدد تھی۔انہوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم)نے اس دن ستر آدمی قتل کیے اور ستر قیدی بنائے۔ ابوزمیل نے کہا:حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:جب انہوں نے قیدیوں کو گرفتار کر لیا تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حضرت سیدناابوبکر اور حضرت سیدنا عمررضی اللہ عنہما سے پوچھا:ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟تو حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ!یہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے بیٹے ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپﷺ ان سے فدیہ لے لیں، یہ کافروں کے خلاف ہماری قوت کا باعث ہو گا، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی ان کو اسلام کی راہ پر چلا دے۔ اس کے بعد حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:اے ابن خطاب!تمہاری کیا رائے ہے؟آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:نہیں، یارسول اللہ ﷺ!اللہ کی قسم!میری رائے وہ نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپﷺ ہمیں اختیار دیں اور ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ آپﷺ عقیل پر علی رضی اللہ عنہ کو اختیار دیں وہ اس کی گردن اڑا دیں اور مجھے فلاں ۔حضرت سدیدناعمررضی اللہ عنہ کے ہم نسب ۔ پر اختیار دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں۔ یہ لوگ کفر کے پیشوا اور بڑے سردار ہیں۔حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس بات کو پسند کیا جو حضرت سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہی تھی اور جو میں نے کہا تھا اسے پسند نہ فرمایا۔ جب اگلا دن ہوا (اور)میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے ہیں اور دونوں رو رہے ہیں۔ میں نے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ!مجھے بتائیے، آپ ﷺاور آپﷺ کے ساتھی کس چیز پر رو رہے ہیں؟ اگر مجھے رونا آ یا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو بھی میں آپ دونوں کے رونے کی بنا پر رونے کی کوشش کروں گا۔ تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:میں اس بات پر رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے ان سے فدیہ لینے کے بارے میں میرے سامنے رائے پیش کی تھی، ان کا عذاب مجھے اس درخت سے بھی قریب تر دکھایا گیا۔ وہ درخت جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے قریب تھا ۔ اور اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل فرمائی ہیں:کسی نبیﷺ کے لیے (روا)نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خون بہائے ۔اس فرمان تک ۔تو تم اس میں سے کھاؤ جو حلال اور پاکیزہ غنیمتیں تم نے حاصل کی ہیں۔تو اس طرح اللہ نے ان کے لیے غنیمت کو حلال کر دیا۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۳۸۳)

یہاں فلاں کافرمرے گااوریہاں فلاں ۔۔۔

عَنْ أَنَسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَاوَرَ حِینَ بَلَغَہُ إِقْبَالُ أَبِی سُفْیَانَ،قَالَ:فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ، فَأَعْرَضَ عَنْہُ،ثُمَّ تَکَلَّمَ عُمَرُ،فَأَعْرَضَ عَنْہُ،فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ،فَقَالَ:إِیَّانَا تُرِیدُ یَا رَسُولَ اللہِ؟وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ،لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِیضَہَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاہَا،وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَہَا إِلَی بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا،قَالَ: فَنَدَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ،فَانْطَلَقُوا حَتَّی نَزَلُوا بَدْرًا،وَوَرَدَتْ عَلَیْہِمْ رَوَایَا قُرَیْشٍ،وَفِیہِمْ غُلَامٌ أَسْوَدُ لِبَنِی الْحَجَّاجِ،فَأَخَذُوہُ،فَکَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُونَہُ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ،وَأَصْحَابِہِ، فَیَقُولُ:مَا لِی عِلْمٌ بِأَبِی سُفْیَانَ،وَلَکِنْ ہَذَا أَبُو جَہْلٍ،وَعُتْبَۃُ،وَشَیْبَۃُ،وَأُمَیَّۃُ بْنُ خَلَفٍ،فَإِذَا قَالَ ذَلِکَ ضَرَبُوہُ،فَقَالَ:نَعَمْ،أَنَا أُخْبِرُکُمْ،ہَذَا أَبُو سُفْیَانَ،فَإِذَا تَرَکُوہُ فَسَأَلُوہُ،فَقَالَ مَا لِی بِأَبِی سُفْیَانَ عِلْمٌ،وَلَکِنْ ہَذَا أَبُو جَہْلٍ،وَعُتْبَۃُ، وَشَیْبَۃُ،وَأُمَیَّۃُ بْنُ خَلَفٍ فِی النَّاسِ،فَإِذَا قَالَ ہَذَا أَیْضًا ضَرَبُوہُ،وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ یُصَلِّی،فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ انْصَرَفَ،قَالَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَتَضْرِبُوہُ إِذَا صَدَقَکُمْ،وَتَتْرُکُوہُ إِذَا کَذَبَکُمْ،قَالَ،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:ہَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ،قَالَ:وَیَضَعُ یَدَہُ عَلَی الْأَرْضِ ہَاہُنَا،ہَاہُنَا،قَالَ:فَمَا مَاطَ أَحَدُہُمْ عَنْ مَوْضِعِ یَدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو جب ابوسفیان کی آمد کی خبر ملی تو آپﷺ نے مشورہ کیا:حضرت سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی تو آپﷺ نے ان سے اعراض فرمایا، پھر حضر ت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی تو آپﷺ نے ان سے بھی اعراض فرمایا۔ اس پر حضرت سیدناسعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے : یارسول اللہ ﷺ! آپﷺ ہم سے (مشورہ کرنا)چاہتے ہیں؟ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اگر آپﷺ ہمیں (اپنے گھوڑے)سمندر میں ڈال دینے کا حکم دیں تو ہم انہیں ڈال دیں گے اور اگر آپﷺ ہم کو انہیں (معمورہ اراضی کے آخری کونے)برک غماد تک دوڑانے کا حکم دیں تو ہم یہی کریں گے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:تو نے لوگوں کو بلایا، اور وہ چل پڑے حتی کہ بدر میں پڑاؤ ڈالا۔ ان کے پاس قریش کے پانی لانے والے اونٹ آئے، ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ فام غلام بھی تھا تو انہوں نے اسے پکڑ لیا، حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھی اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے لگے تو وہ کہنے لگا: مجھے ابوسفیان کا تو پتہ نہیں ہے، البتہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ، اور امیہ بن خلف یہاں (قریب موجود)ہیں۔ جب اس نے یہ کہا، وہ اسے مارنے لگے۔ تو اس نے کہا:ہاں، تمہیں بتاتا ہوں، ابوسفیان ادھر ہے۔ جب انہوں نے اسے چھوڑا اور (دوبارہ)پوچھا، تو اس نے کہا: ابوسفیان کا تو مجھے علم نہیں ہے، البتہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ، اور امیہ بن خلف یہاں لوگوں میں موجود ہیں۔ جب اس نے یہ (پہلے والی)بات کی تو وہ اسے مارنے لگے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکھڑے نماز پڑھ رہے تھے، آپ ﷺنے جب یہ صورت حال دیکھی تو آپ ﷺ(سلام پھیر کر)پلٹے اور فرمایا:اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!جب وہ سچ کہتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب وہ تم سے جھوٹ بولتا ہے تو اسے چھوڑ دیتے ہو۔انہوںنے عرض کیا:اور حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:یہ فلاں کے مرنے کی جگہ ہے۔آپﷺ زمین پر اپنا ہاتھ رکھتے تھے (اور فرماتے تھے)یہاں اور یہاں۔ کہا:ان میں سے کوئی بھی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ہاتھ کی جگہ سے (ذرہ برابر بھی)اِدھر اُدھر نہیں ہوا۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۴۰۳)
ابوجہل کاقتل بچوں کے ہاتھوں ہوا
حدَّثَنِی یَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنِّی لَفِی الصَّفِّ یَوْمَ بَدْرٍ إِذْ الْتَفَتُّ فَإِذَا عَنْ یَمِینِی وَعَنْ یَسَارِی فَتَیَانِ حَدِیثَا السِّنِّ فَکَأَنِّی لَمْ آمَنْ بِمَکَانِہِمَا إِذْ قَالَ لِی أَحَدُہُمَا سِرًّا مِنْ صَاحِبِہِ یَا عَمِّ أَرِنِی أَبَا جَہْلٍ فَقُلْتُ یَا ابْنَ أَخِی وَمَا تَصْنَعُ بِہِ قَالَ عَاہَدْتُ اللَّہَ إِنْ رَأَیْتُہُ أَنْ أَقْتُلَہُ أَوْ أَمُوتَ دُونَہُ فَقَالَ لِی الْآخَرُ سِرًّا مِنْ صَاحِبِہِ مِثْلَہُ قَالَ فَمَا سَرَّنِی أَنِّی بَیْنَ رَجُلَیْنِ مَکَانَہُمَا فَأَشَرْتُ لَہُمَا إِلَیْہِ فَشَدَّا عَلَیْہِ مِثْلَ الصَّقْرَیْنِ حَتَّی ضَرَبَاہُ وَہُمَا ابْنَا عَفْرَاء َ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں غزوہ بدر میں صف بستہ تھا۔ اس دوران میں میں نے مڑ کر دیکھا کہ میرے دائیں بائیں دو کمسن لڑکے کھڑے ہیں تو گویا (اپنے دائیں اور بائیں)ان دو (نو عمر لڑکوں)کے ہونے کی وجہ سے میرا اطمینان جاتا رہا (اور میں دل میں ڈر ہی رہا تھا)کہ اتنے میں ان میں سے ایک نے چپکے سے پوچھا تاکہ اس کا ساتھی نہ سن سکے:اے چچا! مجھے ابوجہل دکھاؤ۔ میں نے اسے کہا:اے بھتیجے!تو ابوجہل کو کیا کرے گا؟ اس نے کہا:میں نے اللہ تعالٰی سے عہد کر رکھا ہے کہ اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو اسے قتل کر کے رہوں گا یا خود اپنی جان کا نذرانہ اللہ تعالی کے حضور پیش کر دوں گا۔ پھر مجھے دوسرے نے بھی چپکے سے اپنے ساتھی کو بے خبر رکھتے ہوئے اس طرح کہا، چنانچہ اس وقت مجھے ان دونوں جوانوں کے درمیان کھڑے ہو کر بہت خوشی ہوئی۔ میں نے اشارے سے انہیں ابوجہل دکھایا تو وہ دیکھتے ہی ابوجہل پر بازکی طرح جھپٹے اور اس کا کام تمام کر دیا اور وہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۷۴)

ابوجہل کاخاتمہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہوا

أَخْبَرَنَا قَیْسٌ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ أَتَی أَبَا جَہْلٍ وَبِہِ رَمَقٌ یَوْمَ بَدْرٍفَقَالَ أَبُو جَہْلٍ ہَلْ أَعْمَدُ مِنْ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوہُ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ وہ بدر کے دن ابوجہل کے پاس گئے جبکہ وہ آخری سانس لے رہا تھا۔ ابوجہل نے کہا:مجھ سے بڑھ کر کوئی آدمی ہے جسے تم نے قتل کیا ہو؟
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۷۴)

ابوجہل کے قتل کی خبرکون لائے گا؟

حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ، أَنَّ أَنَسًا،حَدَّثَہُمْ قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:ح وحَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ،عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ،عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ،قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ یَنْظُرُ مَا صَنَعَ أَبُو جَہْلٍ فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَوَجَدَہُ قَدْ ضَرَبَہُ ابْنَا عَفْرَاء َ حَتَّی بَرَدَ،قَالَ:أَأَنْتَ،أَبُو جَہْلٍ؟ قَالَ:فَأَخَذَ بِلِحْیَتِہِ،قَالَ:وَہَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوہُ،أَوْ رَجُلٍ قَتَلَہُ قَوْمُہُ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ:أَنْتَ أَبُو جَہْلٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیاکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:کون ہے جو پتہ کر کے آئے کہ ابوجہل کا کیا حشر ہوا؟حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حقیقت حال معلوم کرنے گئے تو دیکھا کہ عفراء کے دونوں بیٹوں نے اسے قتل کر دیا ہے اوراس کا جسم ٹھنڈا پڑا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا:آیا تو ہی ابوجہل ہے؟ انہوں نے اس کی داڑھی پکڑ لی تو ابوجہل نے کہا:اس سے بھی بڑا کوئی آدمی ہے جس کو تم نے آج قتل کیا ہو؟ یا کہا کہ اس سے بھی بڑا کوئی آدمی ہے جسے اس کی قوم نے قتل کر ڈالا ہو؟ احمد بن یونس نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں:کیا تو ہی ابوجہل ہے؟
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۷۴)

سنت کریمہ کامذا ق اڑانے والابدرمیں قتل کیاگیا

عَبْدَانُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ أَخْبَرَنِی أَبِی عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَرَأَ وَالنَّجْمِ فَسَجَدَ بِہَا وَسَجَدَ مَنْ مَعَہُ غَیْرَ أَنَّ شَیْخًا أَخَذَ کَفًّا مِنْ تُرَابٍ فَرَفَعَہُ إِلَی جَبْہَتِہِ فَقَالَ یَکْفِینِی ہَذَا قَالَ عَبْدُ اللَّہِ فَلَقَدْ رَأَیْتُہُ بَعْدُ قُتِلَ کَافِرًا۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے سورہ نجم تلاوت فرمائی تو اس میں آپ ﷺنے سجدہ کیا اور آپ ﷺکے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ کیا لیکن ایک بوڑھے شخص نے (سجدہ کرنے کی بجائے)مٹھی بھر مٹی اپنے ماتھے پر رکھی اور کہا: مجھے یہی کافی ہے۔ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میںبدرمیں قتل کیا گیا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۷۴)

گستاخوں کی ذلت ورسوائی

عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ ذَکَرَ لَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ أَنَّ نَبِیَّ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ یَوْمَ بَدْرٍ بِأَرْبَعَۃٍ وَعِشْرِینَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِیدِ قُرَیْشٍ فَقُذِفُوا فِی طَوِیٍّ مِنْ أَطْوَاء ِ بَدْرٍخَبِیثٍ مُخْبِثٍ وَکَانَ إِذَا ظَہَرَ عَلَی قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَۃِ ثَلَاثَ لَیَالٍ فَلَمَّا کَانَ بِبَدْرٍ الْیَوْمَ الثَّالِثَ أَمَرَ بِرَاحِلَتِہِ فَشُدَّ عَلَیْہَا رَحْلُہَا ثُمَّ مَشَی وَاتَّبَعَہُ أَصْحَابُہُ وَقَالُوا مَا نُرَی یَنْطَلِقُ إِلَّا لِبَعْضِ حَاجَتِہِ حَتَّی قَامَ عَلَی شَفَۃِ الرَّکِیِّ فَجَعَلَ یُنَادِیہِمْ بِأَسْمَائِہِمْ وَأَسْمَاء ِ آبَائِہِمْ یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ وَیَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ أَیَسُرُّکُمْ أَنَّکُمْ أَطَعْتُمْ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا قَالَ فَقَالَ عُمَرُ یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا تُکَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ لَہَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ قَالَ قَتَادَۃُ أَحْیَاہُمْ اللَّہُ حَتَّی أَسْمَعَہُمْ قَوْلَہُ تَوْبِیخًا وَتَصْغِیرًا وَنَقِیمَۃً وَحَسْرَۃً وَنَدَمًا۔

ترجمہ:حضرت سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بدر کی لڑائی میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حکم دیا کہ قریش کے چوبیس مقتول سردار مقام بدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دیے جائیں۔ آپﷺکی عادت مبارکہ تھی کہ جہاد میں جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام کرتے، چنانچہ جنگ بدر کے خاتمے کے تیسرے دن آپ ﷺکے حکم سے آپﷺ کی سواری پر کجاوہ باندھا گیا تو آپﷺ روانہ ہوئے۔ آپ ﷺکے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ آپﷺ شاید اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے تشریف لے جا رہے ہیں۔ آخر آپﷺ اس کنویں کے کنارے آ کر کھڑے ہو گئے اور کفار قریش کے مقتولین کے نام اور ان کے باپ دادا کے نام لے کر انہیں پکارنے لگے:اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں!کیا آج تمہارے لیے یہ بہتر نہیں تھا کہ تم نے دنیا میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کی ہوتی؟ یقینا ہمارے رب تعالی نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے حاصل کر لیا تو کیا تمہارے رب کا جو تمہارے متعلق وعدہ تھا وہ تمہیں بھی پوری طرح مل گیا؟حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کی :یارسول اللہ ﷺ!آپ ﷺان لاشوں سے کیوں محو گفتگو ہیں جن میں جان نہیں ہے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے (یہ سن کر)فرمایا:مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!جو میں ان سے کہہ رہا ہوں تم اس کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔(راوی حدیث)حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس وقت انہیں زندہ کر دیا تھا تاکہ اپنے نبیﷺ کی بات ان کو سنائے۔ یہ سب کچھ ان کی زجروتوبیخ، ذلت و نامرادی اور حسرت و ندامت کے لیے تھا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۷۴)

معارف ومسائل

اس سے معلوم ہواکہ اگرایمان سلامت ہواوراللہ تعالی کی مددپرنظرہوتومسلمانوں کواللہ تعالی کی نصرت سے کفارکی طاقت ہمیشہ کم نظرآتی ہے ، چنانچہ وہ بے خوف ہوکرمقابلے میں کود پڑتے ہیں ، اس آیت کریمہ میں یہ سبق بھی سکھایاگیاہے ، لیکن اگرایمان سلامت نہ ہواورنیت درست نہ ہواوردل میں دنیاکی محبت بھری ہوتوکافروں کی قوت ان کی اصل طاقت سے بھی زیادہ محسوس ہونے لگتی ہے ۔

Leave a Reply