تفسیر سورہ آل عمران آیت ۱۱۰۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ

امت کے بہترین ہونے کامعیارجہاد فی سبیل اللہ ہے

{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ}(۱۱۰)
ترجمہ کنزالایمان:تم بہتر ہواُن سب اُمتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر کتابی ایمان لاتے تو اُن کا بھلا تھااُن میں کچھ مسلمان ہیں اور زیادہ کافر۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے اہل ایمان :تم بہترین امت ہو جو لوگوںکے لئے ظاہر کی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان لاتے ہواور اگریہودونصاری بھی ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر تھا، ان میں کچھ مسلمان ہیں اور ان کی اکثر یت نافرمان ہیں۔

خیرامت کون؟

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:ہُمُ الَّذِینَ ہَاجَرُوا مِنْ مَکَّۃَ إِلَی الْمَدِینَۃِ وَشَہِدُوا بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں خیرامت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اورحدیبیہ میں شریک ہوئے ۔
(تفسیر القرآن الکریم علی منہاج الأصلین العظیمین :الأستاذ الدکتور مأمون حموش(۲:۹۰)

بعدوالے بھی یہ فضیلت پاسکتے ہیں

وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:مَنْ فَعَلَ فِعْلَہُمْ کَانَ مِثْلَہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مہاجرین اورحدیبیہ میں شریک ہونے والوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی انہیں کے ساتھ شامل ہونگے جنہوںنے ان جیسے کام کیے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۱۷۰)

حضرت عمررضی اللہ عنہ کا حدیث شریف پرعمدہ کلام

قَالَ أَبُو عُمَرَ:وَہَذِہِ اللَّفْظَۃُ بَلْ مِنْکُمْ قَدْ سَکَتَ عَنْہَا بَعْضُ الْمُحَدِّثِینَ فَلَمْ یَذْکُرْہَاوَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی تَأْوِیلِ قَوْلِہِ:کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ قَالَ:مَنْ فَعَلَ مِثْلَ فِعْلِکُمْ کَانَ مِثْلَکُم وَلَا تَعَارُضَ بَیْنَ الْأَحَادِیثِ، لِأَنَّ الْأَوَّلَ عَلَی الْخُصُوصِ، وَاللَّہُ الْمُوَفِّقُ وَقَدْ قِیلَ فِی تَوْجِیہِ أَحَادِیثِ ہَذَا الْبَابِ: إِنَّ قَرْنَہُ إِنَّمَا فُضِّلَ لِأَنَّہُمْ کَانُوا غُرَبَاء َ فِی إِیمَانِہِمْ لِکَثْرَۃِ الْکُفَّارِ وَصَبْرِہِمْ عَلَی أَذَاہُمْ وَتَمَسُّکِہِمْ بِدِینِہِمْ، وَإِنَّ أَوَاخِرَ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ إِذَا أَقَامُوا الدِّینَ وَتَمَسَّکُوا بِہِ وَصَبَرُوا عَلَی طَاعَۃِ رَبِّہِمْ فِی حِینِ ظُہُورِ الشَّرِّ وَالْفِسْقِ وَالْہَرْجِ وَالْمَعَاصِی وَالْکَبَائِرِ کَانُوا عِنْدَ ذَلِکَ أَیْضًا غُرَبَاء َ، وَزَکَتْ أَعْمَالُہُمْ فِی ذَلِکَ الْوَقْتِ کَمَا زَکَتْ أَعْمَالُ أَوَائِلِہِمْ، (وَمِمَّا) یَشْہَدُ لِہَذَا قَوْلُہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ:(بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِیبًا وَسَیَعُودُ کَمَا بَدَأَ فَطُوبَی لِلْغُرَبَاء ِ۔
وَرُوِیَ أَنَّ عمر ابن عَبْدِ الْعَزِیزِ لَمَّا وَلِیَ الْخِلَافَۃَ کَتَبَ إِلَی سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ أَنِ اکْتُبْ إِلَیَّ بسیرۃ عمر بن الخطاب لِأَعْمَلَ بِہَا، فَکَتَبَ إِلَیْہِ سَالِمٌ:إِنْ عَمِلْتَ بِسِیرَۃِ عُمَرَ، فَأَنْتَ أَفْضَلُ مِنْ عُمَرَ لِأَنَّ زَمَانَکَ لَیْسَ کَزَمَانِ عُمَرَ، وَلَا رِجَالَکَ کَرِجَالِ عُمَرَقَالَ:وَکَتَبَ إِلَی فُقَہَاء ِ زَمَانِہِ، فَکُلُّہُمْ کَتَبَ إِلَیْہِ بِمِثْلِ قَوْلِ سَالِمٍ وَقَدْ عَارَضَ بَعْضُ الْجِلَّۃِ مِنَ الْعُلَمَاء ِ قَوْلَہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی) بِقَوْلِہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: (خَیْرُ النَّاسِ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ وَشَرُّ النَّاسِ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَسَاء َ عَمَلُہُ قَالَ أَبُو عُمَرَ:فَہَذِہِ الْأَحَادِیثُ تَقْتَضِی مَعَ تَوَاتُرِ طُرُقِہَا وَحُسْنِہَا التَّسْوِیَۃَ بَیْنَ أَوَّلِ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ وَآخِرِہَا. وَالْمَعْنَی فِی ذَلِکَ مَا تَقَدَّمَ ذِکْرُہُ مِنَ الْإِیمَانِ وَالْعَمَلِ الصَّالِحِ فِی الزَّمَانِ الْفَاسِدِ الَّذِی یُرْفَعُ فِیہِ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَالدِّینِ، وَیَکْثُرُ فِیہِ الْفِسْقُ وَالْہَرْجُ، وَیُذَلُّ الْمُؤْمِنُ وَیُعَزُّ الْفَاجِرُ وَیَعُودُ الدِّینُ غَرِیبًا کَمَا بَدَأَ غَرِیبًا وَیَکُونُ الْقَائِمُ فِیہِ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ، فَیَسْتَوِی حِینَئِذٍ أَوَّلُ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ بِآخِرِہَا فِی فَضْلِ الْعَمَلِ إِلَّا أَہْلَ بَدْرٍ وَالْحُدَیْبِیَۃِ، وَمَنْ تَدَبَّرَ آثَارَ ہَذَا الْبَابِ بَانَ لَہُ الصَّوَابُ ، وَاللَّہُ یُؤْتِی فَضْلَہُ مَنْ یَشَاء ُ.
ترجمہ :حضرت سیدناابوعمررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بل منکم کے الفاظ سے بعض محدثین خاموش ہیں اورانہوںنے اس کاذکرنہیں کیااورحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے اللہ تعالی کے اس فرمان شریف{کنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ}کی تاویل میں کہاہے کہ جس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیساعمل کیاوہ تمھاری مثل ہے ۔ احادیث شریفہ کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ پہلی روایات خصوصیت کی بناء ہیں واللہ الموفق ۔ ( اللہ تعالی توفیق دینے والاہے) کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کفارکی کثرت اوران کی اذیتوں پراپنے صبرکرنے اوراپنے دین کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کے سبب اپنے ایمان میں غرباء تھے اوربلاشبہ اس امت کے آخرمیں آنے والے لوگوں نے جب دین کوقائم کیااوراسے مضبوطی سے تھام لیااورجب شروفسق ، فتنہ وفساد ، گناہ اورکبائر کے ظہورکے وقت وہ اپنے رب تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری پرثابت قدم رہے تواس وقت وہ بھی غرباء ہوگئے اوراس وقت میں ان کے اعمال اسی طرح پاکیزہ رہے جس طرح پہلے لوگوں کے اعمال پاکیزہ تھے ۔ اوراس کی شہادت حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاارشادبھی دیتاہے {بدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِیبًا وَسَیَعُودُ کَمَا بَدَأَ فَطُوبَی لِلْغُرَبَاء ِ}اسلام کاآغاز ہوااس حال میں کہ وہ غریب تھااورعنقریب اس حالت کی طرف لوٹ جائے گاجیسے شروع ہواتھا، پس غرباء کے لئے مبارک باد اورسعادت مندی ہے ۔
اورروایت ہے کہ حضرت سیدناعمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ جب مسندخلافت کے والی بنے توآپ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناسالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی طرف خط روانہ کیاکہ میری طرف حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کی سیرت لکھ بھیجوتاکہ میں اس کے مطابق عمل کروں توحضرت سیدناسالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہمانے ان کی طرف جواب لکھاکہ اگرتم نے حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کیاتوپھرتم حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ سے افضل ہوکیونکہ تمھارازمانہ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کی طرح نہیں ہے اورنہ ہی تمھارے لوگ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کے آدمیوں کی طرح ہیں اورراوی کابیان ہے اورآپ رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے کے فقہاء کرام کی طرف لکھاتوان تمام نے بھی آپ رضی اللہ عنہ کی وہی بات نقل کی جوحضرت سیدناسالم رضی اللہ عنہ نے لکھی تھی ۔
بعض اجلہ علماء کرام نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے اس ارشاد{خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی}کومعارض قراردیاہے {خَیْرُ النَّاسِ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ وَشَرُّ النَّاسِ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَسَاء َ عَمَلُہُ }لوگوں میں بہترین اوراچھاوہ ہے جس کی عمرطویل ہوئی اوراس کاعمل بھی حسین وجمیل رہااورلوگوں میں سے بدترین وہ ہے جس کی عمرطویل ہوئی اورا س کاعمل برارہاہے۔
حضرت سیدناابوعمررحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: یہ احادیث مبارکہ اپنے اسناد کے تواتراورحسن ہونے کے ساتھ اس امت کے اول اوراس کے آخرکے درمیان مساوات اوربرابری کاتقاضاکرتی ہیں اوراس کامعنی وہی ہے جس کاذکرپہلے ہوچکاہے کہ ایمان لانااورعمل صالح کرناایسے زمانہ میں جوفاسدہوچکاہے اوراس میں اہل علم ودین کو اٹھالیاجائے گااوراس میں فسق وفتنہ اورفساد وافرہوجائے گااورمومن کو ذلیل ورسواکیاجائے گااورفاسق وفاجرکی عزت وتکریم کی جائے گی اوردین غربت کی طرف لوٹ آئے گاجیساکہ شروع میں غریب تھااوراس دورمیں دین پر قائم رہنے والاآگ کاانگارہ پکڑنے والے کی طرح ہوگا۔ پس اس وقت اس امت کے اول عمل فضیلتوں میں اس کی آخرکے ساتھ برابرہوجائے گا، سوائے اہل بدراوراہل حدیبیہ کے اورجس نے اس باب کے آثارمیں تدبراورغوروفکرکیاتواس کے لئے یہ سہی اورسیدھی راہ ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۱۷۰)

کلمہ نہ پڑھنے والوں سے جہاد کرنااس کے بہترین ہونے کاسبب ہے

وأخرج ابن المنذر وغیرہ عن ابن عباس فی الآیۃ أن المعنی تأمرونہم أن یشہدوا أن لا إلہ إلا اللہ ویقرّوا بما أنزل اللہ تعالی وتقاتلونہم علیہم ولا إلہ إلا اللہ ہو أعظم المعروف وتنہونہم عن المنکر والمنکر ہو التکذیب وہو أنکر المنکر۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ تم بہترین امت ہوجس کو لوگوں کے لئے ظاہرکیاگیاہے ، تم لوگوں کو حکم دیتے ہوکہ وہ لاالہ الااللہ کی گواہی دیں اورجوکچھ اللہ تعالی نے نازل فرمایاہے اس کااقرارکریں اورتم اس دعوت پر لوگوں یعنی منکرین کے ساتھ قتال کرتے ہو۔ لاالہ الااللہ پڑھناسب سے بڑی نیکی ہے اوراس کاانکارسب سے بڑاگناہ اورمنکرہے ۔یعنی اس امت کی خیرامت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امت ساری دنیاکو ایمان کی دعوت دیتی ہے اورکفرکرنے والوں سے جہاد کرتی ہے ۔
(روح المعانی :شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی (۲ـ:۲۴۴ـ)

دین کادفاع کرنابھی اس امت کے خیرہونے کی علامت ہے

وَہُوَ قَوْلُ الضَّحَّاکِ:إِنَّ الْمُرَادَ مِنْ ہَذِہِ الْآیَۃِ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَنَّہُمْ کَانُوا یَتَعَلَّمُونَ مِنَ الرَّسُولِ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَیُعَلِّمُونَ النَّاسَ،وَالتَّأْوِیلُ عَلَی ہَذَا الْوَجْہِ کُونُوا أُمَّۃً مُجْتَمِعِینَ عَلَی حِفْظِ سُنَنِ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَعَلُّمِ الدِّینِ.
ترجمہ:امام ضحاک رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہاں اس آیت کریمہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مراد ہیں کیونکہ وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے سیکھتے اورآگے لوگوں کو سکھاتے ، اس صورت میں اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہوگاتم ایسی امت بن جائوجو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے طریقے اورسنت کریمہ کی حفاظت اوردین سیکھنے والے ہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۸:۳۱۴)

دین کے دفاع کی خاطرامت کاقتال کرنااس کے خیرہونے کاسبب ہے

السُّؤَالُ الْأَوَّلُ:مِنْ أَیِّ وَجْہٍ یَقْتَضِی الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْإِیمَانُ بِاللَّہِ کَوْنَ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ خَیْرَ الْأُمَمِ مَعَ أَنَّ ہَذِہِ الصِّفَاتِ الثَّلَاثَۃَ کَانَتْ حَاصِلَۃً فِی سَائِرِ الْأُمَمِ؟وَالْجَوَابُ:قَالَ الْقَفَّالُ:تَفْضِیلُہُمْ عَلَی الْأُمَمِ الَّذِینَ کَانُوا قَبْلَہُمْ إِنَّمَا حَصَلَ لِأَجْلِ أَنَّہُمْ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ بِآکَدِ الْوُجُوہِ وَہُوَ الْقِتَالُ لِأَنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ قَدْ یَکُونُ بِالْقَلْبِ وَبِاللِّسَانِ وَبِالْیَدِ، وَأَقْوَاہَا مَا یَکُونُ بِالْقِتَالِ، لِأَنَّہُ إِلْقَاء ُ النَّفْسِ فِی خَطَرِ الْقَتْلِ وَأَعْرَفُ الْمَعْرُوفَاتِ الدِّینُ الْحَقُّ وَالْإِیمَانُ بِالتَّوْحِیدِ وَالنُّبُوَّۃِ، وَأَنْکَرُ الْمُنْکَرَاتِ: الْکُفْرُ بِاللَّہِ، فَکَانَ الْجِہَادُ فِی الدِّینِ مَحْمَلًا لِأَعْظَمِ الْمَضَارِّ لِغَرَضِ إِیصَالِ الْغَیْرِ إِلَی أَعْظَمِ الْمَنَافِعِ، وَتَخْلِیصِہِ مِنْ أَعْظَمِ الْمَضَارِّ، فَوَجَبَ أَنْ یَکُونَ الْجِہَادُ أَعْظَمَ الْعِبَادَاتِ،وَلَمَّا کَانَ أَمْرُ الْجِہَادِ فِی شَرْعِنَا أَقْوَی مِنْہُ فی سَائِرِ الشَّرَائِعِ، لَا جَرَمَ صَارَ ذَلِکَ مُوجِبًا لِفَضْلِ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ عَلَی سَائِرِ الْأُمَمِ، وَہَذَا مَعْنَی مَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ فِی تَفْسِیرِ ہَذِہِ الْآیَۃِ:قَوْلُہُ کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَہُمْ أَنْ یَشْہَدُوا أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَیُقِرُّوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ، وَتُقَاتِلُونَہُمْ عَلَیْہِ وَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ أَعْظَمُ الْمَعْرُوفِ، وَالتَّکْذِیبُ ہُوَ أَنْکَرُ الْمُنْکَرِثُمَّ قَالَ الْقَفَّالُ:فَائِدَۃُ الْقِتَالِ عَلَی الدِّینِ لَا یُنْکِرُہُ مُنْصِفٌ،وَذَلِکَ لِأَنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ یُحِبُّونَ أَدْیَانَہُمْ بِسَبَبِ الْأُلْفِ وَالْعَادَۃِ، وَلَا یَتَأَمَّلُونَ فِی الدَّلَائِلِ الَّتِی تُورَدُ عَلَیْہِمْ فَإِذَا أُکْرِہَ عَلَی الدُّخُولِ فِی الدِّینِ بِالتَّخْوِیفِ بِالْقَتْلِ دَخَلَ فِیہِ، ثُمَّ لَا یَزَالُ یَضْعُفُ مَا فِی قَلْبِہِ مِنْ حُبِّ الدِّینِ الْبَاطِلِ، وَلَا یَزَالُ یَقْوَی فِی قَلْبِہِ حُبُّ الدِّینِ الْحَقِّ إِلَی أَنْ یَنْتَقِلَ مِنَ الْبَاطِلِ إِلَی الْحَقِّ، وَمِنَ اسْتِحْقَاقِ الْعَذَابِ الدَّائِمِ إِلَی اسْتِحْقَاقِ الثَّوَابِ الدَّائِمِ.السُّؤَالُ الثَّانِی:لِمَ قُدِّمَ الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ عَلَی الْإِیمَانِ بِاللَّہِ فِی الذِّکْرِ مَعَ أَنَّ الْإِیمَانَ بِاللَّہِ لَا بُدَّ وَأَنْ یَکُونَ مُقَدَّمًا عَلَی کُلِّ الطَّاعَاتِ؟وَالْجَوَابُ:أَنَّ الْإِیمَانَ بِاللَّہِ أَمْرٌ مُشْتَرَکٌ فِیہِ بَیْنَ جَمِیعِ الْأُمَمِ الْمُحِقَّۃِ، ثُمَّ إِنَّہُ تَعَالَی فَضَّلَ ہَذِہِ الْأُمَّۃَ عَلَی سَائِرِ الْأُمَمِ الْمُحِقَّۃِ، فَیَمْتَنِعُ أَنْ یَکُونَ الْمُؤَثِّرُ فِی حُصُولِ ہَذِہِ الْخَیْرِیَّۃِ ہُوَ الْإِیمَانُ الَّذِی ہُوَ الْقَدْرُ الْمُشْتَرَکُ بَیْنَ الْکُلِّ،بَلِ الْمُؤَثِّرُ فِی حُصُولِ ہَذِہِ الزِّیَادَۃِ ہُوَ کَوْنُ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ أَقْوَی حَالًا فِی الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ مِنْ سَائِرِ الْأُمَمِ، فَإِذَنِ الْمُؤَثِّرُ فِی حُصُولِ ہَذِہِ الْخَیْرِیَّۃِ ہُوَ الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَأَمَّا الْإِیمَانُ بِاللَّہِ فَہُوَ شَرْطٌ لِتَأْثِیرِ ہَذَا الْمُؤَثِّرِ فِی ہَذَا الْحُکْمِ لِأَنَّہُ مَا لَمْ یُوجَدِ الْإِیمَانُ لَمْ یَصِرْ شَیْء ٌ مِنَ الطَّاعَاتِ مُؤَثِّرًا فِی صِفَۃِ الْخَیْرِیَّۃِ، فَثَبَتَ أَنَّ الْمُوجِبَ لِہَذِہِ الْخَیْرِیَّۃِ ہُوَکَوْنُہُمْ آمِرِینَ بِالْمَعْرُوفِ نَاہِینَ عَنِ الْمُنْکَرِ،وَأَمَّا إِیمَانُہُمْ فَذَاکَ شَرْطُ التَّأْثِیرِ، وَالْمُؤَثِّرُ أَلْصَقُ بِالْأَثَرِ مِنْ شَرْطِ التَّأْثِیرِ،فَلِہَذَا السَّبَبِ قَدَّمَ اللَّہُ تَعَالَی ذِکْرَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ عَلَی ذِکْرِ الْإِیمَانِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی ایک سوال کرتے ہیں کہ کیاوجہ ہے کہ یہ تینوں حکم (ا)نیکی کاحکم کرنا(۲)برائی سے منع کرنا(۳) اوراللہ تعالی پرایمان لانا۔ اس امت کے بہترہونے کابتارہاہے حالانکہ یہ تینو ں صفات دیگرامتوں میں بھی موجود ہیں ؟
الجواب : الشیخ قفال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس امت کو پہلی امتوں پر اس لئے فضیلت دی ہے کہ یہ امت نیکی کاحکم اوربرائی سے روکنے پر سب سے زیادہ مشقت والے طریقے اختیارکرے گی اوروہ دین کے دفاع میں قتال ہے ۔

نیکی کاحکم کبھی دل سے ہوتاہے اورکبھی زبان اورکبھی ہاتھ سے ہوتاہے اوران میں سے سب سے اقوی قتال کے ساتھ ہے ۔ کیونکہ اس میں اپنے آپ کو قتل ہونے کے لئے پیش کرناہوتاہے ۔سب سے اعلی نیکی دین حق اورتوحیدونبوت پرایمان ہے اورسب سے بڑی برائی اللہ تعالی کاانکارکرناہے تودین میں جہاد سب سے منافع کے حصول کے لئے سب سے بڑانقصان ہے تولازم ہے کہ جہاد سب سے بڑی عبادت ہو۔ جب ہماری شریعت مبارکہ میںجہاد دیگرشرائع کی نسبت اعلی ہے تولازماًاس امت کے دیگرامتوں پر فضیلت کاموجب ہوگا، یہی معنی حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ انہوںنے اسی آیت کریمہ کی تفسیرکرتے ہوئے فرمایا: کہ تم لوگوں کو اس بات کی شہادت کی تعلیم دیتے ہوکہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود نہیں اوراللہ تعالی کی نازل کردہ تعلیمات کومانتے ہواوراس دین کے دفاع میں جہاد کرتے ہو۔ لاالہ الااللہ کہناسب سے بڑی نیکی ہے اوراس کی تکذیب کرناسب سے بڑی برائی ہے ۔

الشیخ القفال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دین کے دفاع میں قتال کے فائدہ کاکوئی منصف مزاج انکارنہیں کرسکتا، اس لئے کہ اکثرلوگ اپنے ادیان کے ساتھ وراثت اورعادت کے طورپرمحبت کرتے ہیں اوران دلائل میں غورنہیں کرتے جوان کے خلاف واردکئے جاتے ہیں جنہیں قتل کے خوف کی وجہ سے دین میں داخلے پرمجبورکیاجائے تووہ داخل ہوجاتے ہیں اورآہستہ آہستہ ان کے دل سے دین باطل کی محبت کمزورہوجاتی ہے اوران کادل دین حق کی محبت میں قوی ہوجاتاہے ۔ یہاں تک کہ وہ باطل سے حق کی طرف اوردائمی عذاب کے استحقاق سے دائمی ثواب کے استحقاق کی طر ف آجاتے ہیں۔

دوسراسوال اوراس کاجواب
نیکی کاحکم کرنے اوربرائی سے منع کرنے کو ایمان باللہ پرمقدم کیوں کیا؟ حالانکہ ایمان باللہ تمام عبادتوں سے مقدم ہے ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان حق پر قائم تمام امتوں کے درمیان مشترک چیزہے اوریہاں اللہ تعالی نے اس امت کو دیگرحق والی امتوں پرفضیلت دی تواس فضیلت کے حصول میں اس ایمان کو موثرقراردینامحال ہے جوتمام کے درمیان قدرمشترک ہے ۔ تواس کااضافہ کے حصول میں موثراس امت کانیکی کاحکم کرنااوربرائی سے منع کرنادیگرامتو ں کے حوالے سے اقوی ہے تواب اس فضیلت کے حصول پر موثرامربالمعروف اورنہی عن المنکرقرارپایا، ہاں ایمان باللہ اس حکم کے موثرکرنے اورموثربنانے کے لئے شرط ہے کیونکہ جب تک ایمان نہ ہوگاتب تک طاعات میں سے کوئی چیز فضیلت میں موثرنہیں ہوگی۔ توثابت ہوگیاکہ اس فضیلت کاموجب اس امت کانیکی کاحکم دینااوربرائی سے روکنے والاوصف ہے ۔ اوران کاایمان تاثیرکے لئے شرط موثرتاثیرکی شرط سے اثرکے ساتھ زیادہ متاثرہوناہے ، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے امربالمعروف اورنہی عن المنکرکوذکرایمان سے مقدم کردیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۸:۳۱۴)

اتنی خیرخواہی لوگوں کے ساتھ صرف اہل اسلام میں ہے

وَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: نَحْنُ خَیْرُ النَّاسِ لِلنَّاسِ نَسُوقُہُمْ بِالسَّلَاسِلِ إِلَی الْإِسْلَامِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا: ہم لوگوں کے لئے لوگوں کی نسبت بہترین اورنفع بخش ہیں ، ہم ان کو زنجیروں کے ساتھ اسلام کی طرف کھینچ کرلارہے ہیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۱۷۰)

حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان شریف کامطلب یہ ہے کہ جہاد کے ذریعے اسلام کی طرف لوگوں کو لاتے ہو، اس کایہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ تم لوگوں کی گردن پر تلواررکھ کران کوکلمہ پڑھاتے ہوکیونکہ زبردستی اسلام قبول کرنے والاجس نے دل سے اسلام کو قبول ہی نہ کیاہووہ مسلمان ہوہی نہیں سکتا، بلکہ اس حدیث شریف کامطلب یہ ہے کہ تم جہاد کے ذریعے کفرکی طاقت کو توڑدیتے ہواوراسلام کو غالب کرکے اس کاعادلانہ ومنصفانہ نظام نافذ کرتے ہوتب لوگ جوق درجوق مسلمان ہوتے ہیں ، اسی طرح مسلمانوں کی جانبازی اورسرفروشی دیکھ کربھی بہت سے کافراسلام قبول کرلیتے ہیں اورجب دنیامیں کفرکی طاقت اورشوکت ٹوٹ جاتی ہے اورکفرذلت اوررسوائی کی علامت بن جاتاہے تولوگ بہت جلد اسے ترک کردیتے ہیں کیونکہ کفرایک غیرفطری چیزہے ۔ لوگ حکومت ، طاقت اورغفلت کی وجہ سے اس کے ساتھ چپکے رہتے ہیں ، جہاد کے ذریعے جب کفرکی طاقت اورشان وشوکت ختم ہوجاتی ہے تو لوگوں کو اپنے فطری دین یعنی اسلام کی طرف آنے میں دیرنہیں لگتی ۔ یہ ہے خلاصہ حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان شریف کا۔

حکومت کی وجہ سے دین ترک کردیناتویہودیوں کاکام ہے

(ولو آمن أَہْلُ الکتاب)بمحمد علیہ السلام (لَکَانَ خَیْراً لَّہُمْ)لکان الإیمان خیراً لہم مما ہم فیہ لأنہم إنما آثروا دینہم عن دین الإسلام حباً للریاسۃ واستتباع العوام ولو آمنوا لکان خیرا لہم من الریاسۃ والأتباع وحظوظ الدنیا مع الفوز بماوعدواعلی الإیمان بہ من إیتاء الأجر مرتین ۔
ترجمہ :امام أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی المتوفی : ۷۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اگریہودونصاری حضورتاجدارختم نبوت ﷺپر ایمان لے آتے توان کے لئے بہت بہترہوتا۔ اس سے جس میں وہ مبتلاء ہیں ، کیونکہ انہوںنے اپنے دین کو دین اسلام پر حکومت اورریاست کی محبت میں ترجیح دی تاکہ عوام ان کے پیروکاررہیں ، اگروہ ایمان لے آتے توان کووہ سرداری بھی مل جاتی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی اتباع بھی میسرآجاتی ، دنیاسے نفع اندوزی بھی ہوجاتی جس کی خاطرانہوںنے دین اسلام کے مقابلے میں دین باطل کو ترجیح دی بلکہ ایمان پر جس میںکامیابی کاوعدہ کیاگیااوردومرتبہ اجردینابیان کیاگیاوہ بھی ان کو حاصل ہوجاتا۔
(تفسیر النسفی :أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی(۱:۲۸۲)

معارف ومسائل

(۱) اس سے معلوم ہواکہ حکومت اورریاست کے حصول کی خاطردین کو ترک کردینایہود ونصاری کاکام ہے اوریہی وصف آجکل ہمارے دورکے بے دین حکمرانوں میں بوجہ اتم پایاجاتاہے ، ان کو بھی صرف اورصرف کرسی چاہئے چاہے ان کو دین پرحملے کرنے پڑیں ، چاہے ان کو علماء کرام کو شہید کرناپڑے ، چاہے ان کو قادیانیوں کو بھائی بہن کہناپڑے اورمساجد بندکرکے میچ کروانے پڑیں ۔ یہ بھی اس معاملے میں یہودونصاری کے سچے اورمخلص پیروکارنکلے ہیں۔
(۲) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اس امت کی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ یہ دین کے دفاع میں کفارکے ساتھ جہاد کرتے ہیں اوراپنی پیاری جان بھی اللہ تعالی کے دین کے لئے قربان کرناسعادت گردانتے ہیں۔
(۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اس امت کی بہتری اسی میں ہے کہ یہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی سنت کادفاع کرے اورسنتوں کوسیکھے اورلوگوں کو سکھائے ۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ دین کے دفاع میں جہاد صرف اورصرف اسی امت کاخاصہ ہے ۔
(۵) اس سے یہ بھی معلوم ہوااس امت میں ایسی جماعت ضروررہے گی جب دین پرچلناانتہائی مشکل ہوگاتواس وقت بھی وہ حق پرقائم رہیں گے ۔
(۶) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ یہ خیرخواہی صرف اورصرف اسی امت میں ہے کہ لوگوں کو بڑی ہمت کے ساتھ نیکی کاحکم کرتے ہیں اوران کوپکڑپکڑکرراہ حق کی طرف بلاتے ہیں ۔ یہ ہمت وجذبہ پچھلی امتوں میں سے کسی کوبھی نصیب نہیں ہوا۔ بحمداللہ تعالی ۔
(۷) اس سے معلوم ہواکہ جس طرح دنیامیں امراء وسلاطین اپنے مخصوص لوگوں کو حسن کارکردگی اورعوامی سماجی خدمات کی انجام دہی پر خصوصی انعامات اورخصوصی تمغوں سے نوازتے ہیں ، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی امت کے لئے اعزازی تمغہ کااعلان کیااوراس امت کو کائنات کی تمام امتوں پر فضیلت وبرتری عطافرمائی ۔ جس طرح حضورتاجدارختم نبوت ﷺامام الانبیاء اورسیدالرسل ہیں اورساری کائنات کے بلاشک وشبہ معلم اعظم اورسردارہیں اسی طرح آپ ﷺکی امت سیدالامم اورخیرالامم ہے ۔

Leave a Reply

%d bloggers like this: