الٓمَّٓ(1)اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-الْحَیُّ الْقَیُّوْمُﭤ(2)
ترجمہ : الم۔اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ) خود زندہ، دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے۔
نَزَّلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ اَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ(3)مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ۬ؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ(4)
ترجمہ :
اس نے تم پر یہ سچی کتاب اتاری جوپہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس نے اس سے پہلے تورات اور انجیل نازل فرمائی۔ لوگوں کوہدایت دیتی اور (اللہ نے ) حق وباطل میں فرق اتارا ۔ بیشک وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا ان کے لئے سخت عذاب ہے اوراللہ غالب بدلہ لینے والا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِﭤ(5)
بیشک اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ،نہ زمین میں اورنہ ہی آسمان میں ۔
هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(6)
وہی ہے جوماؤں کے پیٹوں میں جیسی چاہتا ہے تمہاری صورت بناتا ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ ) زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ ﳘ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ﳕ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ-كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاۚ-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ(7)
وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری اس کی کچھ آیتیں صاف معنی رکھتی ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اِشتباہ ہے تووہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے وہ (لوگوں میں ) فتنہ پھیلانے کی غرض سے اور ان آیات کا (غلط) معنیٰ تلاش کرنے کے لئے ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑتے ہیں حالانکہ ان کا صحیح مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے اور پختہ علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اورعقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں ۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(8)
اے ہمارے رب تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(9)
اے ہمارے رب! بیشک تو سب لوگوں کو اس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ، بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
امیرزادے ہی دین دشمنی اورانبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کے مرتکب کیوں ہوتے ہیں؟
{اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اَمْوٰلُہُمْ وَلَآ اَوْلٰدُہُمْ مِّنَ اللہِ شَیْـًا وَاُولٰٓئِکَ ہُمْ وَقُوْدُ النَّارِ}(۱۰){کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَاَخَذَہُمُ اللہُ بِذُنُوْبِہِمْ وَاللہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ}(۱۱)
ترجمہ کنزالایمان :بے شک وہ جو کافر ہوئے ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ سے انہیں کچھ نہ بچاسکیں گے اور وہی دوزخ کے ایندھن ہیں،جیسے فرعون والوں اور ان سے اگلوں کا طریقہ انہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو اللہ نے ان کے گناہوں پر ان کو پکڑا اور اللہ کا عذاب سخت ۔
ترجمہ ضیاء الایمان : بے شک وہ لوگ جو کافرہیں ان کو ان کامال اوران کی اولاد اللہ تعالی سے نہ بچاسکیں گے اوریہی لوگ دوزخ کاایندھن ہیں جیسے فرعون کے پیر کار اوران سے بھی پہلے لوگوں کاطریقہ تھا، انہوںنے ہماری آیات کو جھوٹاکہاتواللہ تعالی نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کوپکڑااوراللہ تعالی کاعذاب بہت سخت ہے ۔
شان نزول
لا یصرف عنہم کثرۃ الأموال والأولاد والتناصر بہما عذابہ وکانوا یقولون نحن اکثر أموالا وأولادا وما نحن بمعذبین قال تعالی فی ردہم وَما أَمْوالُکُمْ وَلا أَوْلادُکُمْ بِالَّتِی تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنا زُلْفی إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً أُولئِکَ ای أولئک المتصفون بالکفر ہُمْ وَقُودُ النَّارِ حطب النار وحصبہا الذی تسعربہ
ترجمہ:امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی ( ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یوں ہے اللہ تعالی کے عذاب سے ان کو نہ مال کی کثرت بچاسکے گی اورنہ ہی اولاد کازیادہ ہونا۔
کفارومشرکین کہتے تھے کہ ہم چونکہ مال دارہیں اورہماری اولاد بھی بہت ہے لھذاہمیں کسی قسم کاعذاب نہیں ہوگا، اللہ تعالی نے ان کے ردمیں فرمایا {وَما أَمْوالُکُمْ وَلا أَوْلادُکُمْ بِالَّتِی تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنا زُلْفی إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً }وہ لوگ جو کافرہیں وہی جہنم کاایندھن ہیں یعنی آگ کاوہ ایندھن جس سے آگ کو بھڑکایاجائے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۷)
ترجمہ ضیاء الایمان : بے شک وہ لوگ جو کافرہیں ان کو ان کامال اوران کی اولاد اللہ تعالی سے نہ بچاسکیں گے اوریہی لوگ دوزخ کاایندھن ہیں جیسے فرعون کے پیر کار اوران سے بھی پہلے لوگوں کاطریقہ تھا، انہوںنے ہماری آیات کو جھوٹاکہاتواللہ تعالی نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کوپکڑااوراللہ تعالی کاعذاب بہت سخت ہے ۔
شان نزول
لا یصرف عنہم کثرۃ الأموال والأولاد والتناصر بہما عذابہ وکانوا یقولون نحن اکثر أموالا وأولادا وما نحن بمعذبین قال تعالی فی ردہم وَما أَمْوالُکُمْ وَلا أَوْلادُکُمْ بِالَّتِی تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنا زُلْفی إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً أُولئِکَ ای أولئک المتصفون بالکفر ہُمْ وَقُودُ النَّارِ حطب النار وحصبہا الذی تسعربہ
ترجمہ:امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی ( ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یوں ہے اللہ تعالی کے عذاب سے ان کو نہ مال کی کثرت بچاسکے گی اورنہ ہی اولاد کازیادہ ہونا۔
کفارومشرکین کہتے تھے کہ ہم چونکہ مال دارہیں اورہماری اولاد بھی بہت ہے لھذاہمیں کسی قسم کاعذاب نہیں ہوگا، اللہ تعالی نے ان کے ردمیں فرمایا {وَما أَمْوالُکُمْ وَلا أَوْلادُکُمْ بِالَّتِی تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنا زُلْفی إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً }وہ لوگ جو کافرہیں وہی جہنم کاایندھن ہیں یعنی آگ کاوہ ایندھن جس سے آگ کو بھڑکایاجائے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۷)
اپنی نوکری بچانے کی خاطرحضورتاجدارختم نبوت ﷺسے غداری کرنے والے
فِی قَوْلِہِ إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ أَمْوالُہُمْ وَلا أَوْلادُہُمْ مِنَ اللَّہِ شَیْئاً قَوْلَانِ الْأَوَّلُ: الْمُرَادُ بِہِمْ وَفْدُ نَجْرَانَ، وَذَلِکَ لِأَنَّا رُوِّینَا فِی بَعْضِ قِصَّتِہِمْ أَنَّ أَبَا حَارِثَۃَ بْنَ عَلْقَمَۃَ قَالَ لِأَخِیہِ: إِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَقًّا وَلَکِنَّنِی إِنْ أَظْہَرْتُ ذَلِکَ أَخَذَ مُلُوکُ الرُّومِ مِنِّی مَا أَعْطَوْنِی مِنَ الْمَالِ وَالْجَاہِ، فَاللَّہُ تَعَالَی بَیَّنَ أَنَّ أَمْوَالَہُمْ وَأَوْلَادَہُمْ لَا تَدْفَعُ عَنْہُمْ عَذَابَ اللَّہِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ.
وَالْقَوْلُ الثَّانِی: أَنَّ اللَّفْظَ عَامٌّ، وَخُصُوصُ السَّبَبِ لَا یَمْنَعُ عُمُومَ اللَّفْظِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جن کاذکرکیاگیا ہے اس سے مراد نجران کاوفد ہے اورکچھ واقعات میں یہ منقول ہے کہ ابوحارثہ بن علقمہ نے اپنے بھائی سے کہاکہ میں جانتاہوں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاللہ تعالی کے سچے رسول ہیں لیکن میں اگراس کااظہارکروں تو روم کے بادشاہ مجھ سے اپنادیاہوامال اورعہدہ چھین لیں گے تواللہ تعالی نے واضح کردیاکہ مال اوراولاد دنیااورآخرت میں ان سے اللہ تعالی کے عذاب کو دورنہیں کرسکتے ۔
اوردوسراقول یہ ہے کہ الفاظ عام ہیں اورسبب کاخاص ہوناالفاظ کے عموم سے مانع نہیں ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۷:۱۵۲)
امام الاصم اورالزجاج رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَہَذَا قَوْلُ الْأَصَمِّ وَالزَّجَّاجِ،وَوَجْہُ التَّشْبِیہِ أَنَّ دَأْبَ الْکُفَّارِ،أَیْ جِدَّہُمْ وَاجْتِہَادَہُمْ فِی تَکْذِیبِہِمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکُفْرِہِمْ بِدِینِہِ کَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ مَعَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ،ثُمَّ إِنَّا أَہْلَکَنَا أُولَئِکَ بِذُنُوبِہِمْ، فَکَذَا نُہْلِکُ ہَؤُلَاء ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام الاصم اورالزجاج رحمہمااللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وجہ تشبیہ یوں بنے گی کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تکذیب اورآپ ﷺکے دین کے ساتھ کفرمیں کفارکی جدوجہداورمحنت اسی طرح ہے جس طرح آل فرعون کی حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے ساتھ تھی ، پھرہم نے حضرت موسی علیہ السلام کے گستاخوں کو ان کی گستاخیوں کی وجہ سے ہلا ک کیاتواے حبیب کریم ﷺ! ہم آپ ﷺکے گستاخوں اورآپ ﷺکے منکروں کو بھی اسی طرح ہلاک کریں گے جس طرح فرعونیوں کو کیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۷:۱۵۲)
فِی قَوْلِہِ إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ أَمْوالُہُمْ وَلا أَوْلادُہُمْ مِنَ اللَّہِ شَیْئاً قَوْلَانِ الْأَوَّلُ: الْمُرَادُ بِہِمْ وَفْدُ نَجْرَانَ، وَذَلِکَ لِأَنَّا رُوِّینَا فِی بَعْضِ قِصَّتِہِمْ أَنَّ أَبَا حَارِثَۃَ بْنَ عَلْقَمَۃَ قَالَ لِأَخِیہِ: إِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَقًّا وَلَکِنَّنِی إِنْ أَظْہَرْتُ ذَلِکَ أَخَذَ مُلُوکُ الرُّومِ مِنِّی مَا أَعْطَوْنِی مِنَ الْمَالِ وَالْجَاہِ، فَاللَّہُ تَعَالَی بَیَّنَ أَنَّ أَمْوَالَہُمْ وَأَوْلَادَہُمْ لَا تَدْفَعُ عَنْہُمْ عَذَابَ اللَّہِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ.
وَالْقَوْلُ الثَّانِی: أَنَّ اللَّفْظَ عَامٌّ، وَخُصُوصُ السَّبَبِ لَا یَمْنَعُ عُمُومَ اللَّفْظِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جن کاذکرکیاگیا ہے اس سے مراد نجران کاوفد ہے اورکچھ واقعات میں یہ منقول ہے کہ ابوحارثہ بن علقمہ نے اپنے بھائی سے کہاکہ میں جانتاہوں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاللہ تعالی کے سچے رسول ہیں لیکن میں اگراس کااظہارکروں تو روم کے بادشاہ مجھ سے اپنادیاہوامال اورعہدہ چھین لیں گے تواللہ تعالی نے واضح کردیاکہ مال اوراولاد دنیااورآخرت میں ان سے اللہ تعالی کے عذاب کو دورنہیں کرسکتے ۔
اوردوسراقول یہ ہے کہ الفاظ عام ہیں اورسبب کاخاص ہوناالفاظ کے عموم سے مانع نہیں ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۷:۱۵۲)
امام الاصم اورالزجاج رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَہَذَا قَوْلُ الْأَصَمِّ وَالزَّجَّاجِ،وَوَجْہُ التَّشْبِیہِ أَنَّ دَأْبَ الْکُفَّارِ،أَیْ جِدَّہُمْ وَاجْتِہَادَہُمْ فِی تَکْذِیبِہِمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکُفْرِہِمْ بِدِینِہِ کَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ مَعَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ،ثُمَّ إِنَّا أَہْلَکَنَا أُولَئِکَ بِذُنُوبِہِمْ، فَکَذَا نُہْلِکُ ہَؤُلَاء ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام الاصم اورالزجاج رحمہمااللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وجہ تشبیہ یوں بنے گی کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تکذیب اورآپ ﷺکے دین کے ساتھ کفرمیں کفارکی جدوجہداورمحنت اسی طرح ہے جس طرح آل فرعون کی حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے ساتھ تھی ، پھرہم نے حضرت موسی علیہ السلام کے گستاخوں کو ان کی گستاخیوں کی وجہ سے ہلا ک کیاتواے حبیب کریم ﷺ! ہم آپ ﷺکے گستاخوں اورآپ ﷺکے منکروں کو بھی اسی طرح ہلاک کریں گے جس طرح فرعونیوں کو کیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۷:۱۵۲)
فرعونی اوراس سے پہلے کے لوگ بھی انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ تھے
ای دأب ہؤلاء فی الکفر وعدم النجاۃ من أخذ اللہ تعالی وعذابہ کدأب آل فرعون وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ ای آل فرعون من الأمم الکافرۃ کقوم نوح وثمود وقوم لوط وہو عطف علی ما قبلہ کَذَّبُوا بِآیاتِنا بیان وتفسیر لدأبہم الذی فعلوا علی الاستئناف المبنی علی السؤال کأنہ قیل کیف کان دأبہم فقیل کذبوا بآیاتنا ای بکتبنا ورسلنا فَأَخَذَہُمُ اللَّہُ بِذُنُوبِہِمْ تفسیر لدأبہم الذی فعل بہم ای فأخذہم اللہ تعالی وعاقبہم ولم یجدوا من بأس اللہ تعالی محیصا فدأب ہؤلاء الکفرۃ ایضا کدأبہم والذنب فی الأصل التلو والتابع وسمیت الجریمۃ ذنبا لانہا تتلو ای یتبع عقابہا فاعلہا وَاللَّہُ شَدِیدُ الْعِقابِ لمن کفر بالآیات والرسل ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی ( ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفراورعدم نجات اوراللہ تعالی کی گرفت اورعذاب میں ان کایعنی کفارمکہ کاوہی حال ہے جو حال آل فرعون کاتھا، اوران لوگوں کی طرح جو ان سے پہلے گزرے ہیں جیسے قوم ثمود، قوم نوح اورقوم لوط وغیرہ ، اس کاعطف ماقبل پر ہے { کَذَّبُوا بِآیاتِنا}یہ ان کے حال اوران کے طریقے کی تفسیرکابیان ہے ، ان کاکیاطریقہ تھااوران کے کردارکیاتھے ، اگراسے جملہ مستانفہ بنایاجائے اورکہاجائے کہ یہ سوال مقدرکاجواب ہے تو سوال کی تقریریہ ہے کہ فرعون والوں اوراس سے پہلے کافروں کاکیاطریقہ تھا؟ تواس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایاکہ انہوںنے ہماری آیات یعنی ہماری کتابوں اورانبیاء کرام علیہم السلام کوجھوٹاکہا۔ { فَأَخَذَہُمُ اللَّہُ بِذُنُوبِہِمْ }یہ بھی اس مضمون کی تفسیرہے گویاکہ کسی نے پوچھاکہ ان کافروں کو جنہوں نے اللہ تعالی کی کتابوں کو جھوٹاکہااوراللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کی ان کو کیاصلہ ملے گا؟ توجواب میں فرمایاکہ اللہ تعالی نے ان کی گرفت فرمائی اورایسی سخت سزادی کہ انہیں عذاب سے کسی قسم کی نجات کی امید بھی نہ رہی اورنہ ہی اس سے بچنے کاکوئی چارہ کارنظرآیا۔ مکہ مکرمہ کے کافروں کاحال بھی انہیں کی طرح ہے کہ انہوںنے بھی ہمارے حبیب کریم ﷺکی گستاخی کی اورقرآن کریم کوجھوٹاکہا۔{ بِذُنُوبِہِمْ}الذنب دراصل کسی کے پیچھے ہونے والے اورتابع کوکہاجاتاہے اورجرم کو اس لئے الذنب کہاجاتاہے کہ اس کے مرتکب کو عذاب اورعتاب الہی لاحق ہوتاہے ۔ { وَاللَّہُ شَدِیدُ الْعِقابِ}اوراللہ تعالی کاعذاب اس شخص کو بہت سخت اوربہت زیادہ ہوگاجو اللہ تعالی کی آیات اوراس کے انبیاء کرام علیہم السلام کوجھوٹاکہتاہے ۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۷)
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی ( ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفراورعدم نجات اوراللہ تعالی کی گرفت اورعذاب میں ان کایعنی کفارمکہ کاوہی حال ہے جو حال آل فرعون کاتھا، اوران لوگوں کی طرح جو ان سے پہلے گزرے ہیں جیسے قوم ثمود، قوم نوح اورقوم لوط وغیرہ ، اس کاعطف ماقبل پر ہے { کَذَّبُوا بِآیاتِنا}یہ ان کے حال اوران کے طریقے کی تفسیرکابیان ہے ، ان کاکیاطریقہ تھااوران کے کردارکیاتھے ، اگراسے جملہ مستانفہ بنایاجائے اورکہاجائے کہ یہ سوال مقدرکاجواب ہے تو سوال کی تقریریہ ہے کہ فرعون والوں اوراس سے پہلے کافروں کاکیاطریقہ تھا؟ تواس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایاکہ انہوںنے ہماری آیات یعنی ہماری کتابوں اورانبیاء کرام علیہم السلام کوجھوٹاکہا۔ { فَأَخَذَہُمُ اللَّہُ بِذُنُوبِہِمْ }یہ بھی اس مضمون کی تفسیرہے گویاکہ کسی نے پوچھاکہ ان کافروں کو جنہوں نے اللہ تعالی کی کتابوں کو جھوٹاکہااوراللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کی ان کو کیاصلہ ملے گا؟ توجواب میں فرمایاکہ اللہ تعالی نے ان کی گرفت فرمائی اورایسی سخت سزادی کہ انہیں عذاب سے کسی قسم کی نجات کی امید بھی نہ رہی اورنہ ہی اس سے بچنے کاکوئی چارہ کارنظرآیا۔ مکہ مکرمہ کے کافروں کاحال بھی انہیں کی طرح ہے کہ انہوںنے بھی ہمارے حبیب کریم ﷺکی گستاخی کی اورقرآن کریم کوجھوٹاکہا۔{ بِذُنُوبِہِمْ}الذنب دراصل کسی کے پیچھے ہونے والے اورتابع کوکہاجاتاہے اورجرم کو اس لئے الذنب کہاجاتاہے کہ اس کے مرتکب کو عذاب اورعتاب الہی لاحق ہوتاہے ۔ { وَاللَّہُ شَدِیدُ الْعِقابِ}اوراللہ تعالی کاعذاب اس شخص کو بہت سخت اوربہت زیادہ ہوگاجو اللہ تعالی کی آیات اوراس کے انبیاء کرام علیہم السلام کوجھوٹاکہتاہے ۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۷)
داب کی تفسیرکے فرق سے اس کی مختلف تفسیریں
الاول :کَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ أَیْ شَأْنُ ہَؤُلَاء ِوَصُنْعُہُمْ فِی تَکْذِیبِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَشَأْنِ آلِ فِرْعَوْنَ فِی التَّکْذِیبِ بِمُوسَی،وَلَا فَرْقَ بَیْنَ ہَذَا الْوَجْہِ وَبَیْنَ مَا قَبْلَہُ إِلَّا أَنَّا حَمَلْنَا اللَّفْظَ فِی الْوَجْہِ الْأَوَّلِ عَلَی الِاجْتِہَادِ،وَفِی ہَذَا الْوَجْہِ عَلَی الصُّنْعِ وَالْعَادَۃِوَالثَّانِی:أَنَّ تَقْدِیرَ الْآیَۃِ:إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ أَمْوَالُہُمْ وَلَا أَوْلَادُہُمْ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا،وَیَجْعَلُہُمُ اللَّہُ وَقُودَ النَّارِ کَعَادَتِہِ وَصُنْعِہِ فِی آلِ فِرْعَوْنَ، فَإِنَّہُمْ لَمَّا کَذَّبُوارَسُولَہُمْ أَخَذَہُمْ بِذُنُوبِہِمْ،وَالْمَصْدَرُ تَارَۃً یُضَافُ إِلَی الْفَاعِلِ،وَتَارَۃً إِلَی الْمَفْعُولِ،وَالْمُرَادُ ہَاہُنَا، کَدَأْبِ اللَّہِ فِی آلِ فِرْعَوْنَ، فَإِنَّہُمْ لَمَّا کَذَّبُوا بِرَسُولِہِمْ أَخَذَہُمْ بِذُنُوبِہِم وَالثَّالِثُ:قَالَ الْقَفَّالُ رَحِمَہُ اللَّہُ: یُحْتَمَلُ أَنْ تَکُونَ الْآیَۃُ جَامِعَۃً لِلْعَادَۃِ الْمُضَافَۃِ إِلَی اللَّہِ تَعَالَی،وَالْعَادَۃِ الْمُضَافَۃِ إِلَی الْکُفَّارِ،کَأَنَّہُ قِیلَ:إِنَّ عَادَۃَ ہَؤُلَاء ِ الْکُفَّارِ وَمَذْہَبَہُمْ فِی إِیذَاء ِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَعَادَۃِ مَنْ قَبْلَہُمْ فِی إِیذَاء ِ رُسُلِہِمْ، وَعَادَتَنَا أَیْضًا فِی إِہْلَاکِ ہَؤُلَاء ِ،کَعَادَتِنَا فِی إِہْلَاکِ أُولَئِکَ الْکُفَّارِ الْمُتَقَدِّمِینَ،وَالْمَقْصُودُ عَلَی جَمِیعِ التَّقْدِیرَاتِ نَصْرُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی إِیذَاء ِ الْکَفَرَۃِ وَبِشَارَتُہُ بِأَنَّ اللَّہَ سَیَنْتَقِمُ مِنْہُمْ.
ترجمہ
امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ داب کی تفسیرحال اورطریقہ سے کی جائے ، اس میں چندصورتیں ہیں ۔ پہلی صورت : یعنی کفارمکہ کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی تکذیب اورگستاخی کرنے کے بارے میں وہی طریقہ ہے جو فرعونیوں کاحضرت سیدناموسی علیہ السلام کی تکذیب کے بارے میں تھا، اس وجہ اورسابقہ وجہ میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ پہلی صورت میں لفظ کاترجمہ جدوجہد اوراس صورت میں عادت وطریقہ معنی لیاگیاہے ۔
دوسری صورت : { إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ أَمْوَالُہُمْ وَلَا أَوْلَادُہُمْ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا}بے شک وہ لوگ جوکافرہیں ان کامال اوران کی اولاد اللہ تعالی سے انہیں کچھ نہ بچاسکیں گے ۔ کامفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کویعنی کفارمکہ کواوروہ لوگ جو دنیابھرمیں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے منکرہیں یاوہ آپ ﷺکی گستاخیاں کرتے ہیں آگ کاایندھن بنائے گاجیسے اس کی آل فرعون میں عادت اورسنت ہے ، اس لئے کہ جب انہوں نے اپنے رسول علیہ السلام کی تکذیب کی توان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کی گرفت فرمائی ۔ مصدرکبھی فاعل کی طرف اورکبھی مفعول کی طرف مضاف ہوتاہے یہاں مراد{دَأْبِ اللَّہِ فِی آلِ فِرْعَوْنَ}جیسے اللہ تعالی کی آل فرعون میں سنت ہے ، کیونکہ جب انہوں نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو جھوٹاکہاتواللہ تعالی نے ان کی گستاخی کی وجہ سے ان کی گرفت فرمائی۔
تیسری صورت : الشیخ قفال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ آیت مبارکہ اللہ تعالی کی عادت کریمہ اورکفارکی عادت دونوں کو جامع ہو، گویافرمایاکہ ان کفارکی عادت ومذہب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو تکلیف دینے اورگستاخیاں کرنے میں ان پہلوں کی عادت کی طرح اپنے انبیاء کرام علیہم السلا م کو ایذادینے کی طرح ہے اوراللہ تعالی فرماتاہے کہ ہماری عادت بھی ان کو ہلاک کرنے میں پہلے کفارکوہلاک کرنے کی طرح ہے ۔
اوران تمام صورتوں میں مقصود کفارکی گستاخیوں پر حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مددکرنااورآپ ﷺکویہ بشارت دیناہے کہ اللہ تعالی عنقریب آپ ﷺکے گستاخوں سے بدلہ لے گا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۷:۱۵۲)
ترجمہ
امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ داب کی تفسیرحال اورطریقہ سے کی جائے ، اس میں چندصورتیں ہیں ۔ پہلی صورت : یعنی کفارمکہ کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی تکذیب اورگستاخی کرنے کے بارے میں وہی طریقہ ہے جو فرعونیوں کاحضرت سیدناموسی علیہ السلام کی تکذیب کے بارے میں تھا، اس وجہ اورسابقہ وجہ میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ پہلی صورت میں لفظ کاترجمہ جدوجہد اوراس صورت میں عادت وطریقہ معنی لیاگیاہے ۔
دوسری صورت : { إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ أَمْوَالُہُمْ وَلَا أَوْلَادُہُمْ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا}بے شک وہ لوگ جوکافرہیں ان کامال اوران کی اولاد اللہ تعالی سے انہیں کچھ نہ بچاسکیں گے ۔ کامفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کویعنی کفارمکہ کواوروہ لوگ جو دنیابھرمیں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے منکرہیں یاوہ آپ ﷺکی گستاخیاں کرتے ہیں آگ کاایندھن بنائے گاجیسے اس کی آل فرعون میں عادت اورسنت ہے ، اس لئے کہ جب انہوں نے اپنے رسول علیہ السلام کی تکذیب کی توان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کی گرفت فرمائی ۔ مصدرکبھی فاعل کی طرف اورکبھی مفعول کی طرف مضاف ہوتاہے یہاں مراد{دَأْبِ اللَّہِ فِی آلِ فِرْعَوْنَ}جیسے اللہ تعالی کی آل فرعون میں سنت ہے ، کیونکہ جب انہوں نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو جھوٹاکہاتواللہ تعالی نے ان کی گستاخی کی وجہ سے ان کی گرفت فرمائی۔
تیسری صورت : الشیخ قفال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ آیت مبارکہ اللہ تعالی کی عادت کریمہ اورکفارکی عادت دونوں کو جامع ہو، گویافرمایاکہ ان کفارکی عادت ومذہب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو تکلیف دینے اورگستاخیاں کرنے میں ان پہلوں کی عادت کی طرح اپنے انبیاء کرام علیہم السلا م کو ایذادینے کی طرح ہے اوراللہ تعالی فرماتاہے کہ ہماری عادت بھی ان کو ہلاک کرنے میں پہلے کفارکوہلاک کرنے کی طرح ہے ۔
اوران تمام صورتوں میں مقصود کفارکی گستاخیوں پر حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مددکرنااورآپ ﷺکویہ بشارت دیناہے کہ اللہ تعالی عنقریب آپ ﷺکے گستاخوں سے بدلہ لے گا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۷:۱۵۲)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گستاخوں پر عذاب کسی صورت نہیں ٹل سکتا
أَنَّ الْمُشَبَّہَ ہُوَ أَنَّ أَمْوَالَہُمْ وَأَوْلَادَہُمْ لَا تَنْفَعُہُمْ فِی إِزَالَۃِ الْعَذَابِ،فَکَانَ التَّشْبِیہُ بِآلِ فِرْعَوْنَ حَاصِلًا فِی ہَذَیْنِ الْوَجْہَیْنِ، وَالْمَعْنَی:أَنَّکُمْ قَدْ عَرَفْتُمْ مَا حَلَّ بِآلِ فِرْعَوْنَ وَمَنْ قَبْلَہُمْ مِنَ الْمُکَذِّبِینَ بِالرُّسُلِ مِنَ الْعَذَابِ الْمُعَجَّلِ الَّذِی عِنْدَہُ لَمْ یَنْفَعْہُمْ مَالٌ وَلَا وَلَدٌ،بَلْ صَارُوا مُضْطَرِّینَ إِلَی مَا نَزَلَ بِہِمْ فَکَذَلِکَ حَالُکُمْ أَیُّہَا الْکُفَّارُ الْمُکَذِّبُونَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَنَّہُ یَنْزِلُ بِکُمْ مِثْلُ مَا نَزَلَ بِالْقَوْمِ تَقَدَّمَ أَوْ تَأَخَّرَ وَلَا تُغْنِی عَنْکُمُ الْأَمْوَالُ وَالْأَوْلَادُیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ وَجْہُ التَّشْبِیہِ أَنَّہُ کَمَا نَزَلَ بِمَنْ تَقَدَّمَ الْعَذَابُ الْمُعَجَّلُ بِالِاسْتِئْصَالِ فَکَذَلِکَ یَنْزِلُ بِکُمْ أَیُّہَا الْکُفَّارُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَذَلِکَ مِنَ الْقَتْلِ وَالسَّبْیِ وَسَلْبِ الْأَمْوَالِ وَیَکُونُ قَوْلُہُ تَعَالَی:قُلْ لِلَّذِینَ کَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلی جَہَنَّمَ (آلِ عمران:۱۲) کَالدَّلَالَۃِ عَلَی ذَلِکَ فَکَأَنَّہُ تَعَالَی بَیَّنَ أَنَّہُ کَمَا نَزَلَ بِالْقَوْمِ الْعَذَابُ الْمُعَجَّلُ، ثُمَّ یَصِیرُونَ إِلَی دَوَامِ الْعَذَابِ، فَسَیَنْزِلُ بِمَنْ کَذَّبَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْرَانِ أَحَدُہُمَا: الْمِحَنُ الْمُعَجَّلَۃُ وَہِیَ الْقَتْلُ وَالسَّبْیُ وَالْإِذْلَالُ، ثُمَّ یَکُونُ بَعْدَہُ الْمَصِیرُ إِلَی الْعَذَابِ الْأَلِیمِ الدَّائِمِ۔
ترجمہ :نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیسابوری المتوفی : ۸۵۰ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جس کوتشبیہ دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے مال اوران کی اولاد ازالہ عذاب میں انہیں نفع نہیں دیں گے توآل فرعون کے ساتھ ان دونوں میں تشبیہ حاصل ہوجائے گی ۔ پھراس آیت کریمہ کامعنی یہ ہوگاکہ تم جان چکے ہوکہ جوآل فرعون اوران سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کرنے والوں کو دنیامیں عذاب ہوا، ان کونہ مال نے نفع دیااورنہ ہی ان کی اولاد نے بلکہ اللہ تعالی کے عذاب کے سامنے وہ مجبورہوگئے ۔ اسی طرح حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخی کرنے والے کافروں کاحال بھی یہی ہے کہ ان پر بھی ان کافروں کی مثل عذاب نازل ہوگا۔ پہلی یابعد کی قوم کی طرح حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گستاخوں اورمنکروں کو ان کے اموال اوران کی اولاد اللہ تعالی کے عذاب سے بچانہ سکیں گے ۔
اوریہ بھی ممکن ہے کہ وجہ تشبیہ یوں ہوکہ جیسے پہلے گستاخوں پر دنیامیں عذاب آیااوراس عذاب نے ان کی جڑکاٹ دی اسی طرح حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے منکرین اورگستاخوں پر بھی
ترجمہ :نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیسابوری المتوفی : ۸۵۰ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جس کوتشبیہ دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے مال اوران کی اولاد ازالہ عذاب میں انہیں نفع نہیں دیں گے توآل فرعون کے ساتھ ان دونوں میں تشبیہ حاصل ہوجائے گی ۔ پھراس آیت کریمہ کامعنی یہ ہوگاکہ تم جان چکے ہوکہ جوآل فرعون اوران سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کرنے والوں کو دنیامیں عذاب ہوا، ان کونہ مال نے نفع دیااورنہ ہی ان کی اولاد نے بلکہ اللہ تعالی کے عذاب کے سامنے وہ مجبورہوگئے ۔ اسی طرح حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخی کرنے والے کافروں کاحال بھی یہی ہے کہ ان پر بھی ان کافروں کی مثل عذاب نازل ہوگا۔ پہلی یابعد کی قوم کی طرح حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گستاخوں اورمنکروں کو ان کے اموال اوران کی اولاد اللہ تعالی کے عذاب سے بچانہ سکیں گے ۔
اوریہ بھی ممکن ہے کہ وجہ تشبیہ یوں ہوکہ جیسے پہلے گستاخوں پر دنیامیں عذاب آیااوراس عذاب نے ان کی جڑکاٹ دی اسی طرح حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے منکرین اورگستاخوں پر بھی
عذاب ، قتل اورگرفتاری اورمال چھن جانے کی صورت میں آسکتاہے ۔
{قُلْ لِلَّذِینَ کَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلی جَہَنَّم}اس پردلالت کی طرح ہے کہ گویااللہ تعالی بیان فرمارہاہے کہ جس طرح پہلی قوم پر عذاب آیااورپھروہ دائمی عذاب کی طرف چلے گئے توعن قریب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخی اورتکذیب کرنے والوں پر دوامورظاہرہوں گے ۔ عظیم مشقت یعنی گرفتاری اورذلت اوردوسرے نمبرپروہ دائمی دردناک عذاب کی طرف جائیں گے ۔
(غرائب القرآن:نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیسابوری (۲:۱۱۳)
{قُلْ لِلَّذِینَ کَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلی جَہَنَّم}اس پردلالت کی طرح ہے کہ گویااللہ تعالی بیان فرمارہاہے کہ جس طرح پہلی قوم پر عذاب آیااورپھروہ دائمی عذاب کی طرف چلے گئے توعن قریب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخی اورتکذیب کرنے والوں پر دوامورظاہرہوں گے ۔ عظیم مشقت یعنی گرفتاری اورذلت اوردوسرے نمبرپروہ دائمی دردناک عذاب کی طرف جائیں گے ۔
(غرائب القرآن:نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیسابوری (۲:۱۱۳)
جہاد سے پیچھے رہنے والوں کو جواب
وَہَذَا جَوَابٌ لِمَنْ تَخَلَّفَ عَنِ الْجِہَادِ وَقَالَ:شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَہْلُونَا.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ان کے لئے جواب ہے جو جہاد سے پیچھے رہ گئے اورانہوںنے کہا: ہمارے مالوں اورہمارے گھروالوں نے ہمیں مشغول کردیاتھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۴:۲۲)
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ان کے لئے جواب ہے جو جہاد سے پیچھے رہ گئے اورانہوںنے کہا: ہمارے مالوں اورہمارے گھروالوں نے ہمیں مشغول کردیاتھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۴:۲۲)
ملحد ہر دورمیں انبیاء کرام علیہم السلام کاگستاخ رہاہے
قَالَ ابْنُ عَرَفَۃَ:{کَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ }أَیْ کَعَادَۃِ آلِ فِرْعَوْنَ یَقُولُ:اعْتَادَ ہَؤُلَاء ِ الْکَفَرَۃُ الْإِلْحَادَ وَالْإِعْنَاتَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا اعْتَادَ آلُ فِرْعَوْنَ مِنْ إِعْنَاتِ الْأَنْبِیَاء ِ،وَقَالَ مَعْنَاہُ الْأَزْہَرِیُّ.
ترجمہ :امام ابن عرفہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ {دَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ}کامعنی ہے کہ جیساکہ آل فرعون کی عادت اوررویہ تھااوروہ کہہ رہے ہیں کہ ان کافروں کاالحاداورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ گستاخی اورسرکشی کارویہ اسی طرح ہے جیساکہ آل فرعون نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ سرکشی اورسختی کارویہ اپنایااوریہ معنی امام الازہری رحمہ اللہ تعالی نے بیان کیاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۴:۲۲)
ترجمہ :امام ابن عرفہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ {دَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ}کامعنی ہے کہ جیساکہ آل فرعون کی عادت اوررویہ تھااوروہ کہہ رہے ہیں کہ ان کافروں کاالحاداورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ گستاخی اورسرکشی کارویہ اسی طرح ہے جیساکہ آل فرعون نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ سرکشی اورسختی کارویہ اپنایااوریہ معنی امام الازہری رحمہ اللہ تعالی نے بیان کیاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۴:۲۲)
معارف ومسائل
(۱)اس سے معلوم ہواکہ کفارمکہ بھی اسی طرح حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گستاخ تھے جس طرح فرعونی اوراس سے پہلے کے لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ تھے ، نہ وہ اللہ تعالی کے عذاب سے بچے اورنہ ہی یہ بچیں گے ۔
(۲) جنہوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورقرآن کریم وغیرہ کاانکارکیاان کے مال اوران کی اولاد اللہ تعالی کی طرف سے آئے ہوئے عذاب کو ان سے ہرگزدفع نہ کرسکے گی ، یاان کے مال واولاد رحمت الہی کے عوض نہ بنیں گے ۔ ان کفارعرب کی حالت اورسرکشی فرعونیوں اوراس سے پہلے کفارکی سرکشی کی طرح ہے ۔ کفارعرب کی عادت فرعونیوں جیسی ہے ، کفارعرب کاجہنم کاایندھن بننااوران کے مال اوراولادکاکام نہ آنافرعونیوں کی طرح ہے کہ جب وہ ڈوباتواسے کچھ کام نہ آیا، کفارعرب کادوزخ میں ہمیشہ رہنافرعون کی طرح ہے ، کفارعرب کی اسلام کی مخالفت فرعونیوں کی طرح ہے جیسے ان کی کوشش حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے مقابلے میں بے کاررہی تھی ایسے ہی ان کی مشقتیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے مقابلے میں بے کاررہیں گے ، ان کی اخروی مصیبت فرعونیوں کی مصیبت کی طرح ہے جیسے فرعونیوں پر قیامت تک عذاب پیش ہورہاہے ، اللہ تعالی کامعاملہ اہل عرب کے ساتھ ایساہی ہوگاجیسے اس کامعاملہ فرعونیوں کے ساتھ ہوا۔
(۳) انبیاء کرام علیہم السلام کی مخالفت ( گستاخی ) پراللہ تعالی کاعذاب آتاہے ، دیکھوفرعون نے دعوی خدائی کیااس پر عذاب نہ آیاجب تک کہ اس نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کامقابلہ نہ کیا، اللہ تعالی نے اس کے غرق ہونے کی وجہ یوںبیان کی کہ آیات الہی کی تکذیب یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کی مخالفت عذاب کاسبب بنی ۔ملتقطاً۔ تفسیرنعیمی ( ۳:۲۶۵،۲۶۶)
(۴) آج بھی بہت سے لوگ اپنی نوکریاں بچانے کے لئے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخی کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں اوران کے خلاف زبان نہیں کھولتے ۔ جب وہ گستاخ عورت جیل میں تھی تواس کی حفاظت کرنے والے کون تھے ؟ اوراسے باہربھگانے والے کون تھے ؟ اوراس کی صفائیاں دینے والے کون تھے؟ یہ سب کے سب وہی لوگ تھے جویہی کہتے تھے کہ ہماری نوکری کامسئلہ ہے ، اگرہم نے کوئی ایساکام کردیاتوہماری نوکری ضائع ہوجائے گی ۔ یہ لوگ ذہن میں رکھیں کوئی بھی شخص اپنی نوکری کی خاطرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخی کرے یاگستاخ کی حمایت کرے یاگستاخ کے حق میں بولے یاگستاخ جیل میں ہواسے روٹی دے اوراس کی حفاظت کرے یہ سب کے سب ابوحارثہ بن علقمہ عیسائی کی طرح ہیں کہ جس نے اپنی نوکری کی خاطرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ غداری کی تھی ۔
(۵) آج بھی جہاں جہاں دین دشمنی کاعنصرپایاجاتاہے اس کاسبب یہی وڈیرہ شاہی اورمالداری ہی ہے ، آج بھی ملک پاکستان میں دین کی راہ میں رکاوٹ یہی حرام خورٹولہ ہے ۔ صرف اپنے حرام کاموں کو تحفظ دینے اوراپنے ناجائز مال کمانے کے اسباب کو زوال پذیرہوتادیکھ کر یہ لوگ دین کے دشمن بنے ہوئے ہیں اوران کو نہیں معلوم کہ ان کامال اوران کی وہ اولاد جن کی خاطریہ مال جمع کررہے ہیں ان کے کسی کام نہیں آئیں گے ۔
(۶) جس طرح اللہ تعالی نے بیان فرمایاکہ فرعون کے ماننے والے انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ تھے وہ بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی صرف اس وجہ سے کرتے تھے کہ فرعون انبیاء کرام علیہم السلام کادشمن تھااوراس کی دشمنی کی وجہ صرف اورصرف یہی تھی کہ اس کومعلوم تھاکہ اگروہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی اطاعت کرلیتاہے تو اس کی حکومت چلی جائے گی اورفرعونی فرعون کی حکومت کی خاطرانبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کرتے تھے ۔ کیاکوئی مسلمان سوچ سکتاہے کہ کسی کی دنیاکی خاطرکوئی شخص اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کاگستاخ بھی بن سکتاہے ۔ مگرآج جب ہم اپنے دورکے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے اپنے لیڈروں کی خلاف شرع بکواس کے دفاع میں گستاخیاں تک کردیتے ہیں ۔ بطورمثال ایک بات یہاں نقل کرتاہوں کہ جب پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی کی اوران پر لوٹ مارکرنے کاالزام عائد کیاتو اسی دن شام سے پہلے پہلے کروڑوں کی تعداد میں لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بدکلامی شروع کردی ۔ اسی دن شام کوہی ایک شخص جو مذہبی ذہن رکھنے والاتھاکے بارے میں سناکہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف بڑی بڑی بکواسیں کرنے لگ گیا۔ یہ سلسلہ شروع دن سے چلاآرہاہے کہ لوگ حکمرانوں کی خاطراللہ تعالی اوراس کے انبیاء کرام علیہم السلام کے دشمن اوران کے گستاخ بن جاتے ہیں ۔ مقصد صرف اورصرف نوکری اورپیسہ ہوتاہے ۔
(۷) اللہ واحد وجباراورعزیزوقہارنے ان دانشور، طاقتور،دیوہیکل ، متمدن اقوام پرعذاب کاایساکوڑابرسایاجنہیں ہمیشہ کے لئے موت کی نیندسلادیا، آج پورے کرہ ارض پران کانام ونشان نہیں ہے ۔ چونکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ اللہ تعالی نے وعدہ فرمایاتھاکہ آپ ﷺکی امت خواہ امت دعوت ہویااجابت پرکوئی آسمانی عذاب نہیں آئے گاتب ہی تو آج مغربی ممالک مامون ہیں ، اگرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی شفاعت نہ ہوتی توآج مغرب کاوہی حشرہوتاجوعادوثمود اورفرعون کاہواتھا۔
(۸)فرعون سے پہلے وہ تمام قومیں جنہوں نے اپنے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی تکذیب کی اوراللہ تعالی آیتوں کاانکارکیااورجھوٹاکہااوراحکام الہی اورمعجزات انبیاء کرام علیم السلام کو سحراورجادوکہااورانبیاء کرام علیہم السلام کو ساحر،شاعراورمجنون کہتے رہے پھرنتیجہ یہ ہواکہ ان کی گستاخیوں کی پاداش میں اللہ تعالی نے ان کو پکڑلیا، اگرمدینہ منورہ کے یہودی اورنجران کے عیسائی اورمکہ مکرمہ کے مشرک فرعونیوں کے نقش قدم پر چلناچاہتے ہیں توان کے مقدرمیں بھی وہی عذاب وسزالکھاجائے گاجو ایک دن ان کو بھی گرفت میں لے کرساری کسرپوری کردے گا۔
(۲) جنہوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورقرآن کریم وغیرہ کاانکارکیاان کے مال اوران کی اولاد اللہ تعالی کی طرف سے آئے ہوئے عذاب کو ان سے ہرگزدفع نہ کرسکے گی ، یاان کے مال واولاد رحمت الہی کے عوض نہ بنیں گے ۔ ان کفارعرب کی حالت اورسرکشی فرعونیوں اوراس سے پہلے کفارکی سرکشی کی طرح ہے ۔ کفارعرب کی عادت فرعونیوں جیسی ہے ، کفارعرب کاجہنم کاایندھن بننااوران کے مال اوراولادکاکام نہ آنافرعونیوں کی طرح ہے کہ جب وہ ڈوباتواسے کچھ کام نہ آیا، کفارعرب کادوزخ میں ہمیشہ رہنافرعون کی طرح ہے ، کفارعرب کی اسلام کی مخالفت فرعونیوں کی طرح ہے جیسے ان کی کوشش حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے مقابلے میں بے کاررہی تھی ایسے ہی ان کی مشقتیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے مقابلے میں بے کاررہیں گے ، ان کی اخروی مصیبت فرعونیوں کی مصیبت کی طرح ہے جیسے فرعونیوں پر قیامت تک عذاب پیش ہورہاہے ، اللہ تعالی کامعاملہ اہل عرب کے ساتھ ایساہی ہوگاجیسے اس کامعاملہ فرعونیوں کے ساتھ ہوا۔
(۳) انبیاء کرام علیہم السلام کی مخالفت ( گستاخی ) پراللہ تعالی کاعذاب آتاہے ، دیکھوفرعون نے دعوی خدائی کیااس پر عذاب نہ آیاجب تک کہ اس نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کامقابلہ نہ کیا، اللہ تعالی نے اس کے غرق ہونے کی وجہ یوںبیان کی کہ آیات الہی کی تکذیب یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کی مخالفت عذاب کاسبب بنی ۔ملتقطاً۔ تفسیرنعیمی ( ۳:۲۶۵،۲۶۶)
(۴) آج بھی بہت سے لوگ اپنی نوکریاں بچانے کے لئے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخی کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں اوران کے خلاف زبان نہیں کھولتے ۔ جب وہ گستاخ عورت جیل میں تھی تواس کی حفاظت کرنے والے کون تھے ؟ اوراسے باہربھگانے والے کون تھے ؟ اوراس کی صفائیاں دینے والے کون تھے؟ یہ سب کے سب وہی لوگ تھے جویہی کہتے تھے کہ ہماری نوکری کامسئلہ ہے ، اگرہم نے کوئی ایساکام کردیاتوہماری نوکری ضائع ہوجائے گی ۔ یہ لوگ ذہن میں رکھیں کوئی بھی شخص اپنی نوکری کی خاطرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخی کرے یاگستاخ کی حمایت کرے یاگستاخ کے حق میں بولے یاگستاخ جیل میں ہواسے روٹی دے اوراس کی حفاظت کرے یہ سب کے سب ابوحارثہ بن علقمہ عیسائی کی طرح ہیں کہ جس نے اپنی نوکری کی خاطرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ غداری کی تھی ۔
(۵) آج بھی جہاں جہاں دین دشمنی کاعنصرپایاجاتاہے اس کاسبب یہی وڈیرہ شاہی اورمالداری ہی ہے ، آج بھی ملک پاکستان میں دین کی راہ میں رکاوٹ یہی حرام خورٹولہ ہے ۔ صرف اپنے حرام کاموں کو تحفظ دینے اوراپنے ناجائز مال کمانے کے اسباب کو زوال پذیرہوتادیکھ کر یہ لوگ دین کے دشمن بنے ہوئے ہیں اوران کو نہیں معلوم کہ ان کامال اوران کی وہ اولاد جن کی خاطریہ مال جمع کررہے ہیں ان کے کسی کام نہیں آئیں گے ۔
(۶) جس طرح اللہ تعالی نے بیان فرمایاکہ فرعون کے ماننے والے انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ تھے وہ بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی صرف اس وجہ سے کرتے تھے کہ فرعون انبیاء کرام علیہم السلام کادشمن تھااوراس کی دشمنی کی وجہ صرف اورصرف یہی تھی کہ اس کومعلوم تھاکہ اگروہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی اطاعت کرلیتاہے تو اس کی حکومت چلی جائے گی اورفرعونی فرعون کی حکومت کی خاطرانبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کرتے تھے ۔ کیاکوئی مسلمان سوچ سکتاہے کہ کسی کی دنیاکی خاطرکوئی شخص اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کاگستاخ بھی بن سکتاہے ۔ مگرآج جب ہم اپنے دورکے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے اپنے لیڈروں کی خلاف شرع بکواس کے دفاع میں گستاخیاں تک کردیتے ہیں ۔ بطورمثال ایک بات یہاں نقل کرتاہوں کہ جب پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی کی اوران پر لوٹ مارکرنے کاالزام عائد کیاتو اسی دن شام سے پہلے پہلے کروڑوں کی تعداد میں لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بدکلامی شروع کردی ۔ اسی دن شام کوہی ایک شخص جو مذہبی ذہن رکھنے والاتھاکے بارے میں سناکہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف بڑی بڑی بکواسیں کرنے لگ گیا۔ یہ سلسلہ شروع دن سے چلاآرہاہے کہ لوگ حکمرانوں کی خاطراللہ تعالی اوراس کے انبیاء کرام علیہم السلام کے دشمن اوران کے گستاخ بن جاتے ہیں ۔ مقصد صرف اورصرف نوکری اورپیسہ ہوتاہے ۔
(۷) اللہ واحد وجباراورعزیزوقہارنے ان دانشور، طاقتور،دیوہیکل ، متمدن اقوام پرعذاب کاایساکوڑابرسایاجنہیں ہمیشہ کے لئے موت کی نیندسلادیا، آج پورے کرہ ارض پران کانام ونشان نہیں ہے ۔ چونکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ اللہ تعالی نے وعدہ فرمایاتھاکہ آپ ﷺکی امت خواہ امت دعوت ہویااجابت پرکوئی آسمانی عذاب نہیں آئے گاتب ہی تو آج مغربی ممالک مامون ہیں ، اگرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی شفاعت نہ ہوتی توآج مغرب کاوہی حشرہوتاجوعادوثمود اورفرعون کاہواتھا۔
(۸)فرعون سے پہلے وہ تمام قومیں جنہوں نے اپنے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی تکذیب کی اوراللہ تعالی آیتوں کاانکارکیااورجھوٹاکہااوراحکام الہی اورمعجزات انبیاء کرام علیم السلام کو سحراورجادوکہااورانبیاء کرام علیہم السلام کو ساحر،شاعراورمجنون کہتے رہے پھرنتیجہ یہ ہواکہ ان کی گستاخیوں کی پاداش میں اللہ تعالی نے ان کو پکڑلیا، اگرمدینہ منورہ کے یہودی اورنجران کے عیسائی اورمکہ مکرمہ کے مشرک فرعونیوں کے نقش قدم پر چلناچاہتے ہیں توان کے مقدرمیں بھی وہی عذاب وسزالکھاجائے گاجو ایک دن ان کو بھی گرفت میں لے کرساری کسرپوری کردے گا۔