صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ جہاد کااورمنافقین کے جہاد سے جان چھڑانے کابیان
{اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ فَہُمْ فِیْ رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ }(۴۵)
اس آیت کریمہ نے مومن اورمنافق میں فرق کردیا
وَالْمَقْصُودُ مِنْ ہَذَا الْکَلَامِ تَمْیِیزُ الْمُؤْمِنِینَ عَنِ الْمُنَافِقِینَ، فَإِنَّ الْمُؤْمِنِینَ مَتَی أُمِرُوا بِالْخُرُوجِ إِلَی الْجِہَادِ تَبَادَرُوا إِلَیْہِ وَلَمْ یَتَوَقَّفُوا، وَالْمُنَافِقُونَ یَتَوَقَّفُونَ وَیَتَبَلَّدُونَ وَیَأْتُونَ بِالْعِلَلِ وَالْأَعْذَارِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی :۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ا س آیت کریمہ کامقصد مومنین اورمنافقین کافرق واضح کرناہے کہ مومن توجہاد کاعلان ہونے کے بعد خوب بڑھ چڑھ کراس میں حصہ لیتے ہیں اورتھوڑاسابھی توقف نہیں کرتے جبکہ منافقین سوچ میں پڑجاتے ہیں اورطرح طرح کے بہانے اورعذرتراش کرخود کوجہاد سے دوررکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۶:۵۹)ٌ
جہا د کرنے کے لئے اہل ایمان دوڑتے ہیں
لأنہم یَرَوْنَ الْجِہَادَ قُرْبَۃً وَلَمَّا نَدَبَہُمْ إِلَیْہِ بَادَرُوا وَامْتَثَلُوا ۔
ترجمہ :حافظ ابن کثیرالمتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم توجہاد کو اللہ تعالی کی بارگاہ کاقرب پانے کاذریعہ جانتے ہیں ، چنانچہ جب ان کو بلایاجاتاہے تو تیزی سے اس کی طرف دوڑتے ہیں اوراللہ تعالی کے جہاد کے حکم شریف کو پوراکرتے ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۴:۱۴۰)
عین جہاد کے وقت اجازت مانگ لینامنافقت کی علامت ہے
وَقِیلَ: التَّقْدِیرُ لَا یَسْتَأْذِنُکَ الْمُؤْمِنُونَ فِی الْخُرُوجِ وَلَا الْقُعُودِ کَرَاہَۃَ أَنْ یُجَاہِدُوا، بَلْ إِذَا أَمَرْتَ بِشَیْء ٍ ابْتَدَرُوا إِلَیْہِ، وَکَانَ الِاسْتِئْذَانُ فِی ذَلِکَ الْوَقْتِ عَلَامَۃً عَلَی النِّفَاقِ.
ترجمہ :امام أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی : ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامطلب یہ ہے کہ جب جہاد کااعلان ہوتاہے توایمان والے لوگ آپ ﷺسے کوئی اجازت نہیں مانگتے ، نہ گھربیٹھنے کی ۔ بلکہ وہ فوراًجہاد کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ایسے وقت میں اجازت مانگنانفاق کی علامت جاناجاتاہے ۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی (۵:۴۲۷)
امام آلوسی الحنفی رحمہ اللہ تعالی کاعجب کلام
تخصیص الإیمان بہما فی الموضعین للایذان بأن الباعث علی الجہاد والمانع عنہ الإیمان بہما وعدم الإیمان بہما فمن آمن بہما قاتل فی سبیل دینہ وتوحیدہ وہان علیہ القتل فیہ لما یرجوہ فی الیوم الآخر من النعیم المقیم ومن لم یؤمن بمعزل عن ذلک، علی أن الإیمان بہما مستلزم للإیمان بسائر ما یجب الإیمان بہ۔
ترجمہ :امام شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی الحنفی المتوفی : ۱۲۷۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان دونوں آیات کریمہ میں ایمان کاتذکرہ ہے ، پچھلی آیات کریمہ میں تھاکہ ایمان والے جہاد سے چھٹی اوررخصت نہیں مانگتے ، اوراس آیت کریمہ میں ہے کہ بے ایمان جہاد میں نہیں جاتے ، بلکہ نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں ، اس سے معلوم ہواکہ جہاد پرکھڑاکرنے والی چیز ایمان ہے اورجہاد سے روکنے والی چیز کفراوربے ایمانی ہے ۔پس جو شخص ایمان رکھتاہے وہ اللہ تعالی کے دین اورتوحید کی خاطرجہاد کرتاہے اوراس کے لئے جہاد میں قتل ہوناآسان ہوتاہے کیونکہ وہ آخرت کی ہمیشہ والی نعمتوں کاامیدوارہوتاہے اورجوایمان نہیں رکھتاوہ جہاد میں نہیں جاتاکیونکہ اسے آخرت کے ثواب کی کوئی امیدنہیں ہوتی ۔
(روح المعانی:شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی(۵:۳۰۲)
حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ تعالی عنہ کاجذبہ جہاد
اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کے موقع پر معذرتیں کرنا منافقت کی علامت تھی جبکہ کامل ایمان والے ہر کڑی آزمائش میں پورے اترتے ہیں اور جہاد جیسے سخت موقع پر بھی دل و جان اور مال کے ساتھ حاضر ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ اس بارے میں ایک واقعہ تو چند آیات کے بعد آرہا ہے اور ایک واقعہ غزوہ اُحد کے موقع پر جہاد کی رغبت کا بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت سیدنا عمرو بن جموح انصاری رضی اللہ عنہ جو کہ ایک ٹانگ سے معذورتھے ، یہ گھرسے نکلتے وقت یہ دعا مانگ کر چلے تھے کہ یااللہ!مجھے میدانِ جنگ سے اپنے اہل و عیال میں آنا نصیب نہ کرنا، ان کے چار بیٹے بھی جہاد میں مصروف تھے۔ لوگوں نے ان کوایک ٹانگ سے معذورہونے کی وجہ سے جہاد کرنے سے روک دیاتوحضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں گڑگڑاکرعرض کرنے لگے کہ اے حبیب کریم ﷺ!مجھے جنگ میں لڑنے کی اجازت عطافرمائیں !میری تمناہے کہ میں اس معذوری کے باوجود باغ بہشت میں خراماں خراماں چلاجائوں ، ان کی بیقراری اورگریہ زاری سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکاقلب مبارک متاثِّرہو گیا اور آپ ﷺنے ان کو جنگ کی اجازت دے دی۔ یہ خوشی سے اچھل پڑے اور اپنے ایک فرزند کو ساتھ لے کر کافروں کے ہجوم میں گھس گئے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ میدانِ جنگ میں یہ کہتے ہوئے چل رہے تھے کہ خدا کی قسم!میں جنت کا مشتاق ہوں۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کو سہارا دیتے ہوئے ان کا بیٹا بھی انتہائی شجاعت کے ساتھ لڑ رہا تھا یہاں تک کہ یہ دونوں شہادت سے سرفراز ہو کر باغِ بہشت میں پہنچ گئے۔ لڑائی ختم ہو جانے کے بعد حضرت عمر و بن جموح رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ میدانِ جنگ میں پہنچیں اور ایک اونٹ پر ان کی اور اپنے بھائی اور بیٹے کی لاش رکھ کر دفن کے لئے مدینہ منورہ لانی چاہی تو ہزاروں کوششوں کے باوجود کسی طرح بھی وہ اونٹ ایک قدم بھی مدینہ کی طرف نہیں چلا بلکہ وہ میدانِ جنگ ہی کی طرف بھاگ بھاگ کر جاتا رہا۔ ہند نے جب حضورتاجدارختم نبوتﷺسے یہ ماجرا عرض کیا تو آپﷺنے فرمایا کہ یہ بتاو!کیا عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے گھر سے نکلتے وقت کچھ کہا تھا؟ ہند نے کہا کہ جی ہاں !وہ یہ دعا کرکے گھر سے نکلے تھے کہ یا اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے میدانِ جنگ سے اہل و عیال میں آنا نصیب نہ کرنا۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں چل رہا ہے۔
(مدارج النبوہ لشیخ عبدالحق محدث دہلوی ، قسم سوم، باب سوم ذکر سال سوم از ہجرت(۲:۲۶)
معارف ومسائل
(۱) آیت کریمہ ۴۳) سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی شان محبوبی معلوم ہوئی ، چونکہ یہ الفاظ {لِمَ أَذِنْتَ لَہُمْ }کہ اے حبیب کریمﷺ!آپ نے ان منافقین کو کیوں رخصت دی ۔ یہ ایک جلالی خطاب تھا، جس سے آپﷺکے قلب مبارک پربوجھ آسکتاتھا، اس لئے اللہ تعالی نے اس سے قبل {عَفَا اللَّہُ عَنْک}جیسے دلنواز کلمات سے بات شروع کی تاکہ حبیب کریم ﷺکے قلب اطہرپرکوئی بوجھ نہ آئے اورنازک آبگینہ محبت کو ٹھیس نہ لگے ۔ یہ محبت کے انداز ہیں اس سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عظمت وشان معلوم ہوتی ہے ۔
(۲)اس طرح کہ اسلام کی حقانیت اور کفر کے بطلان پر انہیں یقین نہیں اور نہ اس کے عکس کا یقین ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو بولے کہ شاید اسلام برحق ہے اور اگر کفار کو فتح ہو گئی تو بولے کہ شاید یہ لو گ بر حق ہیں ورنہ انہیں فتح کیوں ہوتی۔ یا یہ مطلب ہے کہ انہیں اللہ رسول کے وعدوں پر یقین نہیں اور سولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی خبروں پر اطمینان نہیں۔ ایمان تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ہر خبر میں ان کی تصدیق کی جائے۔ تردد تصدیق کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتا ہے۔تفسیرصراط الجنان( ۴:۱۵۷)
(۳)قیصرروم نے مدینہ منورہ پر ۹ھجری کو حملہ کرنے کاارادہ کیاتوہرمسلمان پہ جہاد کے لئے نکلنافرض ہوگیااورجنہوںنے جہاد پرجانے سے پس وپیش کیاانہیں منافقین قراردیاگیااوران کی مذمت میں قرآن کریم اترا۔ قیصرروم نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کاصرف ارادہ کیاتھاجبکہ آج امریکہ کاقیصر اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے افغانستان اورعراق پرحملہ آورہوکرلاکھوں لاکھ اہل اسلام کو قتل کرچکاہے اورپھرشام ویمن میں بے انتہاء اہل سنت کے قتل کے پیچھے اسی لعنتی کاہاتھ ہے اوراب ایسے حالات میں پوری ملت اسلامیہ پرفرض ہے کہ وہ باہم متحدہوکرامریکہ کے خلاف عملی اقدام کریں اورمنافقین مدینہ کی طرح جہاد سے پس وپیش نہ کریں، اس وقت قیصرروم کے مقابلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس مقابلے کے لئے ظاہری قوت کچھ بھی نہ تھی ، مگران کے سینے اللہ تعالی کے خوف اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے عشق سے لبریز تھے ۔
آج امریکی قیصرکے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس بہت سے ظاہری وسائل موجود ہیں ، مگرجذبہ جہاد اورقوت عشق کی کمی اوراتحاد کافقدان ہے ۔ نام نہاد مسلم حکمرانوں کو اپنی کرسیاں اوربادشاہی بچانے کی فکرلاحق ہے اورامریکہ کی ایک دھمکی پر ان کاپیشاب نکل جاتاہے ۔ بس اللہ تعالی سے ہی فریادہے اوران شاء اللہ عنقریب امت میں کوئی دوسراصلاح الدین ایوبی پیداہونے والاہے ۔ اوریہ بھی ذہن میں رہے بحمداللہ تعالی اہل پاکستان پراللہ تعالی نے کرم فرمایاکہ حضورامیرالمجاہدین حضرت شیخ الحدیث حافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کی صورت میںایک نڈراوربے باک امیرعطافرمایاجنہوں نے پوری ملت اسلامیہ میں جہاد کی روح پھونک دی ہے ۔ اللہ تعالی سے دعاہے کہ مولاتعالی آپ کو کامیابی دے اوراہل کفرسے اہل اسلام کے خون کے ایک ایک قطرہ کاحساب لے سکیں۔