کوڑاپھینکنے والی یہودی بوڑھیاکے خیرخواہوں کے نام پیغام
{وَ ہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَ یَنْـَوْنَ عَنْہُ وَ اِنْ یُّہْلِکُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ }(۲۶)
ترجمہ کنزالایمان: اور وہ اس سے روکتے اور اس سے دور بھاگتے ہیں اور ہلاک نہیں کرتے مگر اپنی جانیں اور انہیں شعور نہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:: اور وہ دوسروں کواس سے(اسلام) روکتے اور خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں اور وہ اپنے آپ ہی کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور انہیں سمجھ ہی نہیں۔
اس سے مراد کون؟
قَوْلُہُ تَعَالَی:(وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَیَنْأَوْنَ عَنْہُ)النَّہْیُ الزَّجْرُ، وَالنَّأْیُ الْبُعْدُ، وَہُوَ عَامٌّ فِی جَمِیعِ الْکُفَّارِ أَیْ یَنْہَوْنَ عَنِ اتِّبَاعِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی:۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ تمام کفارکوشامل ہے کہ وہ لوگوں کو بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اتباع سے منع کرتے ہیں اورخود بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دین متین کے قریب نہیں آتے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۴۰۵)
گستاخوں کے منہ پرگوبرمل دی
وَرَوَی أَہْلُ السِّیَرِ قَالَ:کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ خَرَجَ إِلَی الْکَعْبَۃِ یَوْمًا وَأَرَادَ أَنْ یُصَلِّیَ، فَلَمَّا دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ قال أبو جہل لَعَنَہُ اللَّہُ:مَنْ یَقُومُ إِلَی ہَذَا الرَّجُلِ فَیُفْسِدُ عَلَیْہِ صَلَاتَہُ. فَقَامَ ابْنُ الزِّبَعْرَی فَأَخَذَ فَرْثًا وَدَمًا فَلَطَّخَ بِہِ وَجْہَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَانْفَتَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِہِ، ثُمَّ أَتَی أَبَا طَالِبٍ عَمَّہُ فَقَالَ(یَا عَمِّ أَلَا تَرَی إِلَی مَا فُعِلَ بِی)فَقَالَ أَبُو طَالِبٍ:مَنْ فَعَلَ ہَذَا بِکَ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الزِّبَعْرَی، فَقَامَ أَبُو طَالِبٍ وَوَضَعَ سَیْفَہُ عَلَی عَاتِقِہِ وَمَشَی مَعَہُ حَتَّی أَتَی الْقَوْمَ، فَلَمَّا رَأَوْا أَبَا طَالِبٍ قَدْ أَقْبَلَ جَعَلَ الْقَوْمُ یَنْہَضُونَ، فَقَالَ أَبُو طَالِبٍ: وَاللَّہِ لَئِنْ قَامَ رَجُلٌ جَلَّلْتُہُ بِسَیْفِی فَقَعَدُوا حَتَّی دَنَا إِلَیْہِمْ، فَقَالَ: یَا بُنَیَّ مَنِ الْفَاعِلُ بِکَ ہَذَا؟ فَقَالَ:(عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الزِّبَعْرَی)، فَأَخَذَ أَبُو طَالِبٍ فَرْثًا وَدَمًا فَلَطَّخَ بِہِ وُجُوہَہُمْ وَلِحَاہُمْ وَثِیَابَہُمْ وَأَسَاء َ لَہُمُ الْقَوْلَ، فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ۔
ترجمہ :اہل سیربیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضورتاجدارختم نبوتﷺکعبہ مشرفہ کی طرف نکلے اورنماز اداکرنے کاارادہ فرمایا، جب نماز شروع فرمائی توابوجہل ملعون نے کہاکہ کون شخص جاکران کی نما ز خراب کرے گا؟ عبداللہ بن زبعری کہنے لگاکہ میں یہ کام کروں گاتواس نے گوبراورخون اٹھاکرحضورتاجدارختم نبوتﷺپرڈال دیا، حضورتاجدارختم نبوتﷺنماز کوچھوڑکرگھرتشریف لائے اورحضرت سیدناابوطالب کے پاس گئے اورفرمایاکہ اے چچاجان!کیاآپ نے نہیں دیکھاجومیرے ساتھ کیاگیا؟ حضرت ابوطالب نے پوچھاکہ یہ کس نے کیاہے ؟حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: عبداللہ بن زبعری نے ، حضرت ابوطالب اٹھے اورتلواراپنے کندھے پررکھی اورچل پڑے حتی کہ لوگوں کے پاس آئے ، جب لوگوں نے حضرت ابوطالب کو دیکھاتووہاں سے اٹھنے لگے ، آپ نے کہاکہ اللہ تعالی کی قسم !اگرکوئی یہاں سے اٹھاتومیں اس کو قتل کردوں گا، سب کے سب یہیں بیٹھے رہیں۔وہ سب کے سب جہاں تھے وہیں بیٹھے رہ گئے حتی کہ ابوطالب ان کے قریب آئے ، پھرکہاکہ بیٹابتائوکس نے آپ کے ساتھ یہ حرکت کی ہے ؟ توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:ـ عبداللہ بن الزبعری نے توحضرت ابوطالب نے وہ گوبراورخون اٹھایااوران سب کے چہروں پر ، ان کی داڑھیوں پراوران کے کپڑوں پر مل دیااوران کو گندی گندی گالیاں بھی دیںتواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۴۰۵)
عقبہ بن ابی معیط کاپاخانہ اس کے ہی سرپرڈال دیا
عُقْبَۃُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ، وَاسْمُ أَبِی مُعَیْطٍ أَبَانُ بْنُ أَبِی عَمْرِو بْنِ أُمَیَّۃَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، وَیُکَنَّی أَبَا الْوَلِیدِ، وَکَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ أَذًی لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وَعَدَاوَۃً لَہُ وَلِلْمُسْلِمِینَ، عَمَدَ إِلَی مِکْتَلٍ فَجَعَلَ فِیہِ عَذِرَۃً وَجَعَلَہُ عَلَی بَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَبَصُرَ بِہِ طُلَیْبُ بْنُ عُمَیْرِ بْنِ وَہْبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ قُصَیٍّ، وَأُمُّہُ أَرْوَی بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَأَخَذَ الْمِکْتَلَ مِنْہُ وَضَرَبَ بِہِ رَأْسَہُ وَأَخَذَ بِأُذُنَیْہِ، فَشَکَاہُ عُقْبَۃُ إِلَی أُمِّہِ فَقَالَ: قَدْ صَارَ ابْنُکِ یَنْصُرُ مُحَمَّدًا. فَقَالَتْ: وَمَنْ أَوْلَی بِہِ مِنَّا؟ أَمْوَالُنَا وَأَنْفُسُنَا دُونَ مُحَمَّدٍ. وَأُسِرَ عُقْبَۃُ بِبَدْرٍ فَقُتِلَ صَبْرًا، قَتَلَہُ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِیُّ، فَلَمَّا أَرَادَ قَتْلَہُ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ مَنْ لِلصِّبْیَۃِ؟ قَالَ: النَّارُ. قُتِلَ بِالصَّفْرَاء ِ، وَقِیلَ بِعَرَقِ الظَّبْیَۃِ، وَصُلِبَ، وَہُوَ أَوَّلُ مَصْلُوبٍ فِی الْإِسْلَامِ.
ترجمہ :عقبہ بن ابی معیط حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو سخت تکلیفیں دیتاتھا، ابومعیط کانام ابان بن ابوعمروبن امیہ بن عبدالشمس تھااوراس کی کنیت ابوالولید تھی ، اس نے ایک ٹوکرالیااوراس میں گندگی ڈالی اوراسے لاکر حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دروازہ پرڈال دیاتواس طلیب بن عمیربن وہب نے ابن عبدالمناف بن قصی کو دیکھ لیا، اس کا نام اروی بنت عبدالمطلب تھا، توا س نے وہ ٹوکرااٹھایااوراس کے سرپرڈال دیااورعقبہ کے کان پکڑکرکھینچے ۔ توعقبہ نے اس کی ماں اروی سے اس کی شکایت کی اورکہاکہ تیرابیٹامحمدﷺکی مددکرتاہے ۔ تووہ بولی کہ اورہم سے زیادہ کون ان کی مددکرے گا، ہماری جان اورہمارامال حضورتاجدارختم نبوت ﷺپرقربان ہے ۔ عقبہ جنگ بدرمیں گرفتارہواتوحضر ت سیدناعاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کردیا۔ جب حضرت سیدناعاصم رضی اللہ عنہ اس کو قتل کرنے لگے تویہ کہنے لگاکہ اے محمدﷺمیرے بچوں کاکیابنے گا؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: انکے لئے بھی جہنم ہوگی ۔ پھراس کو صفراء میں قتل کردیاگیا، اوردوسراقول یہ ہے کہ عرق ظبیہ میں اس کو قتل کیاگیااورقتل کرنے کے بعد اس کو سول دی گئی ۔ یہ اسلام میں پہلاشخص ہے جس کو سولی پرلٹکادیاگیاتھا۔
(الکامل فی التاریخ:أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد بن محمد، عز الدین ابن الأثیر (۱:۶۶۷)
اس سے معلوم ہواکہ طلیب نے جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی عزت وناموس پر پہرہ دیاتو کافرکو تکلیف ہوئی اورشکایت کرنے کے لئے ان کی والدہ کے پاس جاپہنچااوران کو جاکرساری بات سے آگاہی دی مگراس کو منہ کی کھانی پڑی ۔ توآج کے نام نہادمسلمانوں کو کیوں تکلیف ہوتی ہے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی عزت وناموس کی بات کرنے سے ۔ کہیں ان کابھی مزاج کافرانہ تونہیں ہوگیا؟۔
ابولہب ملعون کے سرپرپاخانہ مل دیاگیا
قال البلاذریّ: وکان یطرح القذر والنتن علی باب رسول اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم، فرآہ حمزۃ بن عبد المطلب وقد طرح من ذلک شیئاً فأخذہ وطرحہ علی رأسہ، فجعل أبو لہب ینفض رأسہ ویقول: صابء أحمق. فأقصر عما کان یفعل، لکنہ کان یدسّ من یفعلہ.
ترجمہ :امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی المتوفی : ۹۴۲ھ) رحمہ اللہ تعالی امام البلاذری رحمہ اللہ تعالی سے نقل کرتے ہیں کہ ابولہب ملعون حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دروازہ مبارک پرپاخانہ اورگندگی ڈالاکرتاتھا، ایک دن حضرت سیدناسیدالشہداء امیرحمزہ رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا، آپ رضی اللہ عنہ نے کسی چیز کے ساتھ وہ گندگی اورپاخانہ اٹھایااوراس کے سرپرمل دیا، پھرابولہب ملعون اپناسرصاف کرتاہواوہاں سے بھاگااوریہ کہتاہواجارہاتھاکہ حمزہ تم صابی اوراحمق ہو۔حضرت سیدناامیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی اس کاروائی کے بعد ابولہب ملعون اس غلیظ حرکت سے باز آگیا۔
(سبل الہدی والرشاد:محمد بن یوسف الصالحی الشامی(۲:۴۶۳)
عبداللہ بن الزبعری رضی اللہ عنہ کاقبول اسلام
وأما عبد اللہ ابن الزِّبَعْرَی فَإِنَّہُ أَسْلَمَ عَامَ الْفَتْحِ وَحَسُنَ إِسْلَامُہُ، وَاعْتَذَرَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَبِلَ عُذْرَہُ، وَکَانَ شَاعِرًا مَجِیدًا، فَقَالَ یَمْدَحُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَہُ فِی مَدْحِہِ أَشْعَارٌ
کَثِیرَۃٌ یَنْسَخُ بِہَا مَا قَدْ مَضَی فِی کُفْرِہِ، مِنْہَا قَوْلُہُ:
مَنَعَ الرُّقَادَ بَلَابِلٌ وَہُمُوم
وَاللَّیْلُ مُعْتَلِجُ الرَّوَاقِ بَہِیمُ
مِمَّا أَتَانِی أَنَّ أَحْمَدَ لَامَنِی
فِیہِ فَبِتُّ کَأَنَّنِی مَحْمُومُ
یَا خَیْرَ مَنْ حَمَلَتْ عَلَی أَوْصَالِہَا
عَیْرَانَۃٌ سُرُحُ الْیَدَیْنِ غَشُومُ
إِنِّی لَمُعْتَذِرٌ إِلَیْکَ مِنَ الذِی
أَسْدَیْتُ إِذْ أَنَا فِی الضَّلَالِ أَہِیمُ
أَیَّامَ تَأْمُرُنِی بِأَغْوَی خُطَّۃٍ
سَہْمٌ وَتَأْمُرُنِی بِہَا مَخْزُومُ
وَأَمُدُّ أَسْبَابَ الرَّدَی وَیَقُودُنِی
أَمْرُ الْغُوَاۃِ وَأَمْرُہُمْ مَشْئُومُ
فَالْیَوْمَ آمَنَ بِالنَّبِیِّ مُحَمَّدٍ
قَلْبِی وَمُخْطِئُ ہَذِہِ مَحْرُومُ
مَضَتِ الْعَدَاوَۃُ فَانْقَضَتْ أَسْبَابُہَا
وَأَتَتْ أَوَاصِرُ بَیْنَنَا وَحُلُومُ
فَاغْفِرْ فِدًی لَکَ وَالِدَایَ کِلَاہُمَا
زَلَلِی فَإِنَّکَ رَاحِمٌ مَرْحُومُ
وَعَلَیْکَ مِنْ سِمَۃِ الْمَلِیکِ عَلَامَۃٌ
نُورٌ أَغَرُّ وَخَاتَمٌ مَخْتُومُ
أَعْطَاکَ بَعْدَ مَحَبَّۃٍ بُرْہَانَہُ
شَرَفًا وَبُرْہَانُ الْإِلَہِ عَظِیمُ
وَلَقَدْ شَہِدْتُ بِأَنَّ دِینَکَ صَادِق
حَقًّا وَأَنَّکَ فِی الْعِبَادِ جَسِیمُ
وَاللَّہُ یَشْہَدُ أَنَّ أَحْمَدَ مُصْطَفًی
مُسْتَقْبَلٌ فِی الصَّالِحِینَ کَرِیمُ
قَرْمٌ عَلَا بُنْیَانُہُ مِنْ ہَاشِمٍ
فرع تمکن فی الذری وأروم
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی :۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن زبعری نے فتح مکہ کے ساتھ ہی اسلام قبول کیااوربہت عمدہ اسلام لائے اورانہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ میں عذربھی پیش کیا توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کے عذرکوقبول فرمالیا، وہ بہت عمدہ شاعرتھے ، وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عظمت وشان میں اشعارکہاکرتے تھے اوران کے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی شان میں کہے ہوئے اشعاربہت زیادہ ہیں جوان کے حالت کفرکے اشعارکو منسوخ کرتے ہیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۵:۴۰۵)
معارف ومسائل
(۱)اس سے معلوم ہواکہ جب گستاخوں میں ایک شخص نے حضورتاجدارختم نبوتﷺپرگوبراورخون ڈالاتوان سب کے چہروں اوران کی داڑھیوں اوران کے کپڑوں پرگوبرمل دیاگیااورگوبرملنے والے حضرت ابوطالب ہیں اورجب ان کی داڑھیوں اوران کے چہروں پرگوبرملاجارہاہے توحضورتاجدارختم نبوتﷺدرمیان میں تشریف فرماہیں ، مگرمنع نہیں فرمارہے بلکہ خودجاکرچچاجان کو بلاکرلائے اوران کے چہروں اوران کی داڑھیوں پرگوبرملوایا، اس سے معلوم ہواکہ یہی خلق ہے اوریہی تہذیب ہے کہ گستاخوں کو ان کی حرکت جیساجواب دیاجائے ۔ (۲)اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ گوبرڈالنے والاایک شخص تھامگرگوبرملاسب کو گیاہے اس کی وجہ بھی یہی سمجھ آتی ہے کہ وہ سب کے سب اس گستاخی پرراضی تھے اس لئے ان سب کوگوبرمل دیاگیااورحضورتاجدارختم نبوتﷺنے بھی نہیں فرمایاکہ چچاجان یہ توظلم وتعدی ہے جوکہ ہماری شریعت میں ناجائز وحرام ہے اس لئے آپ اس طرح نہ کریں بلکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکاخاموش رہنااس بات کی دلیل ہے کہ جب بھی بات حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت وناموس کی آئے گی توپھربات اسی طرح ہی ہوگی۔(۳)اس سے وہ لوگ بھی عبرت حاصل کریں جو یہودی بوڑھیاکے جھوٹے قصہ کولیکر رورہے ہیں کہ وہ بوڑھیاحضورتاجدارختم نبوتﷺپرکوڑاڈالاکرتی تھی توکبھی بھی اس کو کچھ نہیں کہابلکہ اس کی تیمارداری کی اوراس کے گھرکی صفائی کی ۔ نعوذباللہ من ذلک۔