تفسیر سورہ فاتحہ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ تعالی کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والاہے۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱)الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(۲)مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ(۳)اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ(۴)اِہْدِ نَا الصِّرٰطَ الْمُسْتَقِیْمَ(۵)صِرٰطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ(۶)غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ(۷)
ترجمہ کنزالایمان:سب خوبیاں اللہ تعالی کو جو مالک سارے جہان والوں کا،بہت مہربان رحمت والا،روزِ جزاء کا مالک ،ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں،ہم کو سیدھے راستہ پر چلا،راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا،نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔
ترجمہ ضیاء الایمان: سب تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جوتمام جہانوں کاپالنے والاہے ۔بہت مہربان نہایت رحم فرمانے والا۔قیامت کے دن کامالک ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتجھ ہی سے مددمانگتے ہیں ، ہمیں سیدھے راستے پرچلا، ان لوگوں کاراستہ جن پرتونے انعام فرمایانہ کہ ان کاجن پرتیراغضب ہوااورنہ ہی گمراہوں کا۔
{اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ}
لفظ رب پر کلام
یہ لفظ سورہ فاتحہ میں ذات باری تعالیٰ کی پہلی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے، جس کے معنی مربی اور مالک کے ہیں۔ فاتحۃ الکتاب میں باری تعالیٰ کی شان الوہیت پر دلالت کرنے والے پہلے صفاتی نام کی حیثیت سے اس کے معنی و مفہوم کو مختلف جہتوں سے سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے اندر مضمر اعلان ربوبیت درحقیقت توحید الٰہی کا سب سے کامل اور بین ثبوت ہے۔ کیونکہ دور جاہلیت کے کفار و مشرکین کی طرح انسانی زندگی میں شرک، تصور خالقیت کی راہ سے کم اور تصورِ ربوبیت کی راہ سے زیادہ داخل ہوا ہے۔
یہ امر ثابت اور مسلّم ہے کہ کفار و مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو نام خواہ کچھ بھی دیتے ہوں، اسے رب الارباب ضرور مانتے تھے۔ کائنات میں اس کی مطلق بڑائی سے کسی کو انکار نہ تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ وہ اس بالادست ہستی کے نیچے کئی رب اور بھی مانتے تھے اور اسی عقیدے نے ان کی جبینوں کو متعدد خداؤں کی پرستش کے لیے جھکا دیا تھا۔ ربوبیت میں اس تصور شراکت نے عقیدہ توحید کے خالص اور نکھرے ہوئے چہرے کو ان کی نظروں سے اوجھل کردیا تھا۔ بنا بریں ہم لفظ رب کے معنی کا جائزہ علمی و عملی ہر دوگوشوں سے لینا چاہتے ہیں تاکہ اس کے حقیقی مفہوم اور تصور کی معرفت حاصل ہوسکے۔ اس کی مختصر تحقیق یہ ہے کہ یہ لفظ تربیت کے معنی میں اصلاً مصدر ہے مگر اس کا اطلاق و صفاً فاعل کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے عادل کے لیے مبالغۃ عدل کا اور صائم کے لیے صوم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا مفاد یہ ہے کہ فی الحقیقت رب صرف مربی کو نہیں بلکہ نہایت ہی کامل مربی کو کہا جاسکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو خود ہر جہت سے کامل ہو وہی دوسرے کی کامل تربیت کرنے کا اہل ہوسکتا ہے۔ اس لیے تربیت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :
امام ابوالسعود العمادی المتوفی: ۹۸۲ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
التربیۃ وہی تبلیغُ الشئی إلی کمالِہ شیئاً فشیئاً۔
ترجمہ:تربیت سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ اس کے کمال تک پہنچانا ہے۔
(تفسیر أبی السعود :أبو السعود العمادی محمد بن محمد بن مصطفی (ا:۱۳)
بعض اہل علم کے نزدیک لفظ رب، مربی کے معنی میں خود نعت ہے۔لیکن دونوں صورتوں میں اصل مفہوم اور اس کی دلالت ایک ہی رہتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں یہ لفظ راب تھا جس کی درمیانی الف حذف کردی گئی اور رجل بار سے رجل بر کی طرح راب سے لفظ رب رہ گیا۔ جیسا کہ ابوحیان کا قول ہے۔ بعض نے اسے مبالغہ پر اسم فاعل بھی قرار دیا ہے اور بعض نے صفت مشبہ کیونکہ وہ بسا اوقات فاعل کی صورت میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً الخالق، المنعم اور الصاحب وغیرہ ہیں۔
تربیت اور ملکیت
ائمہ تفسیر نے بالعموم رب کے معنی میں دو صفات کو شامل کیا ہے۔ ان دونوں کی اپنی اپنی جگہ معنوی حکمت و افادیت معلوم ہونی چاہئیے۔
تربیت : اس کی تعریف سے واضح ہے کہ یہ دو شرائط کا تقاضا کرتی ہے :
(۱)… تکمیل(۲)… تدریج
تربیت کی مختصر تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :
ہوالتبلیغ الی الکمال تدریجاً.
یہ کسی شے کو تدریجا کمال تک پہنچانے کا نام ہے۔
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مفہوم کو نہایت بلیغ انداز میں واضح کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں :
وقال الراغب:الرّب فی الأصل: التربیۃ وہو إنشاء الشیء حالا فحالا إلی حد التمام۔
ترجمہ:لفظ رب اصلاً تربیت کے معنی میں ہے اور اس سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ مختلف احوال میں سے گزارتے ہوئے آخری کمال کی حد تک پہنچا دینا ہے۔
(نظرات فی کتاب اللہ:حسن أحمد عبد الرحمن محمد البنا الساعاتی (ا:۱۴۰)
کمال سے یہاں مراد ہے{ ما یتم بہ الشیء فی صفاتہ} یعنی یہ کسی چیز کی وہ حالت ہوتی ہے جہاں وہ اپنی جملہ صفات کے اعتبار سے انتہا کو پہنچ جائے۔ ان توضیحات سے معلوم ہوا کہ اگر تربیت پانے والا اپنے کمال یعنی صفاتی انتہا کو نہ پہنچے، تب بھی تربیت نامکمل رہی، اور اگر اس نے جملہ تدریجی اور ارتقائی مراحل طے نہ کیے ہوں تب بھی تربیت کامل نہ ہوئی۔ لہذا نظام تربیت کا کمال یہ ہے کہ مربوب (تربیت پانے والا) تدریجی اور ارتقائی منزلوں میں سے گزرتا ہوا اپنی صفات کی آخری حد کو پالے۔ اس تصور تربیت سے مزید دو باتوں پر روشنی پڑتی ہے :
(۱)۔ حفاظت و کفالت اور ملکیت و قدرت
(۲)۔ ارتقاء میں تسلسل اور استمرار
حقیقی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مربوب کی تمام ضرورتوں کی صحیح کفالت اور اس کے جملہ مفادات کی صحیح حفاظت نہ ہو۔ اگر کسی بھی جہت سے مربوب کی کفالت یا حفاظت میں کوئی کمی رہ جائے تو اس کی تکمیل نا ممکن ہوجاتی ہے۔ اور کفالت و حفاظت کی جملہ شرائط اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتیں جب تک وہ شے کاملا ً مربی کے قبضہ و تصرف میں نہ ہو۔ اگر مربی بلا شرکت غیرے اپنے مربوب کا مالک ہو اور بحیثیت مالک اسے اپنے مربوب کے تمام معاملات میں مکمل تصرف اور قدرت حاصل ہو تو تبھی وہ بتمام و کمال کفالت و حفاظت کی ذمہ داری پوری کرسکتا ہے، جس کے نتیجے میں ا س کا کامل مربی ہونا یقینی بن سکے گا اور اس کی تربیت حقیقی تربیت قرار پائے گی۔ اس لیے لفظ رب اس الوہی شان کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کامل مربی و مالک ہے۔ وہی قادر اور جمیع امور میں حقیقی متصرف ہے۔ اس کی شان ربوبیت میں کوئی شریک ہے نہ دخیل۔ اس لیے اس کا رب ہونا علی الاطلاق ہے جبکہ اس عالم اسباب میں کئی افراد جو ایک دوسرے کے مربی ہوتے ہیں، انہیں جب مجازا ًرب کہا جاتا ہے تو ہمیشہ اضافت کی شرط کے ساتھ کہا جاتا ہے۔ مثلاً گھر اور گھوڑے کے مالک کو مجازا ً رب الدار او ر رب الفرس کہا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام قید خانے میں ایک شخص سے بادشاہ مصر کے بارے میں فرماتے ہیں :
{اذْکُرْنِی عِندَ رَبِّکَ فَأَنسَاہُ الشَّیْطَانُ ذِکْرَ رَبِّہِ}
ترجمہ
اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کردینا (شاید اسے یاد آجا ئے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے)مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ)ذکر کرنا بھلا دیا۔سورۃ یوسف رقم الآیۃ : ۴۲)
اسی طرح آپ علیہ السلام ایلچی کو فرماتے ہیں :
{ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ اللاَّتِی قَطَّعْنَ أَیْدِیَہُنَّ.}
ترجمہ :اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ)پوچھ (کہ)ان عورتوں کا (اب)کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔(سورۃ یوسف رقم الآیۃ : ۵۰)
اسی طرح والدین کی نسبت بارگاہ ایزدی میں اس دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے :
{وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا}
ترجمہ :اور (اللہ کے حضور)عرض کرتے رہو اے میرے رب ــ!ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے)پالا تھا۔(سورۃ بنی اسرائیل رقم الآیۃ : ۲۴)
یہاں بھی{ رَبَّیٰنِی} کا فعل رب مصدر سے والدین کے حق میں مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔ الغرض جہاں بھی رب بطور مصدر یا کسی فرد کے لیے مجازاً استعمال ہوگا کسی نہ کسی اضافت کے ساتھ ہوگا۔ مطلقاً اس کا استعمال صرف اللہ تعالی کے لیے ہے کیونکہ حقیقی مربی اور مالک مطلق وہی ذات ہے اور اسی کی ملکیت و پرورش ساری کائنات کے لیے علی الاطلاق ہے۔ اس لیے وہی اکیلا قادر مطلق اور مسبب الاسباب ہے۔ اگر اس کی اس شان ربوبیت میں کوئی اور شریک ہوتا تو نظام کائنات اس حسن تدبیر کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ جیسا کہ خود قرآن اعلان فرماتا ہے :
{لَوْ کَانَ فِیہِمَا آلِہَۃٌ إِلَّا اللَّہُ لَفَسَدَتَا.}
ترجمہ کنزالایمان:اگران دونوں (زمین و آسمان)میں اللہ کے سوا اور (بھی)معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہوجاتے۔
(سورۃ الانبیاء رقم الآیۃ : ۲۲)
اس بناء پر بعض مفسرین نے رب کا اطلاق مالک، نگران، مربی، مدبر، منعم، مصلح اور معبود کے معانی پر کیا ہے۔ اور بطور خاص حفظ اور ملک کو معنی ربوبیت کا لازمی حصہ تصور کیا ہے۔
دوسری بات جو معنی تربیت میں شامل ہے وہ تکمیل کے سلسلے میں تدریج و ارتقاء کا تسلسل اور استمرار ہے۔ تدریج باب تفعیل کے خواص میں سے ہے اور تدریج و ارتقاء کی صحت اس کے تسلسل اور استمرار پر منحصر ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کمال کی طرف بڑھنے کا سلسلہ رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ کسی مرحلے پر رکے بغیر جاری رہے تو تدریج کی صحت اور فوائد برقرار رہتے ہیں اور اگر درمیان میں انقطاع اور عدم تسلسل آجائے تو تکمیل متاثر ہوجاتی ہے۔ نظام ربوبیت اور تصور ارتقاء پر باقاعدہ گفتگو تو ذرا آگے چل کر ہوگی لیکن یہاں اسی قدر سمجھ لینا ضروری ہے کہ رب کے نظام پرورش میں تدریج و ارتقاء بھی ہے اور تسلسل و استمرار بھی۔
ربوبیت اور اعانت میں فرق
اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کو قرآن مجید میں کم و بیش نو سو اڑسٹھ(۹۶۸)مرتبہ شان ربوبیت کے ذریعے بصراحت متعارف کرایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی یہ شان مخلوقات عالم کے ہر وجود کو اپنے فیض سے نواز رہی ہے۔ فیضیاب تو کئی صورتوں میں لوگ ایک دوسرے سے ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے، کوئی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے، کوئی محتاج کی مالی اعانت کرتا ہے، کوئی کمزور کا سہارا بنتا ہے، یہ ساری نفع بخشیاں اور فیض رسانیاں ایک دوسرے کی امداد و اعانت کی مختلف صورتیں اور احسان و انعام کی مختلف شکلیں ضرور ہیں مگر ربوبیت کے عنوان میں نہیں آسکتیں، کیونکہ ربوبیت سے مراد کسی کی پرورش کرنا اور پالنا ہے۔ مذکورہ بالا سب صورتیں اپنی نوعیت اور دائرہ کار کے لحاظ سے دو جہتی یاسہ جہتی اعانتیں ہیں، مگر ربوبیت ہمہ گیر و ہمہ جہت شے ہے۔ مزید یہ کہ دوسری تمام اعانتیں ہنگامی اور وقتی ہوسکتی ہیں مگر ربوبیت ایک مستقل اور مسلسل عمل ہے جو کبھی بھی منقطع نہیں ہوسکتا۔ وہ ہر حال میں ہر لحظہ جملہ سمتوں میں جاری رہتا ہے۔ عام اعانتوں احسانات و انعامات سے ضرورت مندوں کی ایک دو ضرورتوں اور حاجتوں کی تکمیل کا سامان ہوتا ہے۔ لیکن انسانی وجود کو اپنی پیدائش سے پہلے بطن مادر کے دور سے لے کر عالم شباب کو پہنچنے اور اس کے بعد ضعف و پیری کے مرحلوں میں سے گزرنے کے لیے ہر زمانے میں جو جو حاجت اور ضرورت ہوتی ہے ربوبیت اس کی کفیل ہوتی ہے۔ پھر حاجت و ضرورت کی تکمیل کے لیے عالم داخل اور عالم خارج میں جیسے جیسے حالات، تقاضے، تغیرات، عواطف و میلانات اور احوال و کیفیات درکار ہوتی ہیں ربوبیت انہیں بغیر کسی مطالبے بغیر کسی تاخیر کے از خود مہیا کرتی رہتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ خوبی کسی ایسی ذات میں ہوسکتی ہے جو ہر وجود پر ابتداء سے انتہاء تک اپنے علم و قدرت کے ساتھ حاوی اور محیط ہواور اس کا مالک اور نگہبان ہو۔ اس کی ہر حالت اور ضرورت سے ہر وقت اچھی طرح واقف اور اس پر نہایت شفیق اور مہربان ہو۔ ہر قسم کی مدد واعانت پر مکمل طور پر قادر اور خود ہر حاجت و ضرورت سے کلیتہً بے نیا ز ہو اور تمام امور میں حقیقی متصرف اور مدبر ہو۔ یہ تمام خوبیاں چونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں نہیں ہوسکتی تھیں، اس لیے اس نے الحمدللہ فرما کر حقیقتاً خود کو مستحق حمد ٹھہرایا اور استحقاق حمد کی دلیل اپنی ربوبیت کو قرار دیا جو فی الحقیقت صرف اسی کی شان ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے :
{قُلْ أَغَیْرَ اللّہِ أَبْغِی رَبًّا وَہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْء }
ترجمہ :اے حبیب کریم ﷺ!آپ فرما دیجئے کیا میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا رب تلاش کروں حالانکہ وہ ہر شے کا پروردگار ہے۔(سورۃ الانعام رقم الآیۃ : ۶)
پھر یہاں اللہ جل شانہ نے یوں نہیں فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے جو سارے جہان کامعبود ہے یاوہ سمیع وبصیر ہے ۔بلکہ فرمایاکہ ساری تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جو سارے جہاں کارب ہے ۔
اور نکتہ اس میں یہ ہے کہ جب بندہ اپنے خالق اور رازق اور آقا ومولا کے انعامات واحسانات او راس کی بخشش وعنایات کا خیال کرے گا تو از خود اپنے خالق ورازق کی اطاعت وعبادت اور اس کی تعریف کرنے کو دل چاہے گا، پھر یہاں لفظ رب کا انتخاب کرنے میں حکمت یہ بھی ہے کہ اس میں دعوی کے ساتھ دلیل بھی آگئی۔
لفظ رب پرمزید کلام
جب اللہ تعالی نے عالم ارواح میں تمام انسانوں سے عہد لیاتو اس میں اپنانام جو ذکرکیاوہ ’’رب ‘‘ ہے اوراسی نام کے ساتھ تمام لوگوں کو مخاطب کیا۔
}وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ }
ترجمہ:اور ایحبیب کریمﷺ! یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے انکی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ،ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔
(سورۃ الاعراف رقم الآیۃ ۱۷۲)
صدرالافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ
حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذُرِّیَّت نکالی ا ور ان سے عہد لیا ۔ آیات و حدیث دونوں پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذُرِّیَّت نکالنا اس سلسلہ کے ساتھ تھا جس طرح کہ دنیا میں ایک دوسرے سے پیدا ہوں گے اور انکے لئے ربوبیت اور وحدانیت کے دلائل قائم فرما کر اور عقل دے کر ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت طلب فرمائی ۔
خزائن العرفان لسید نعیم الدین مراد آبادی :۳۲۶) مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی پاکستان
اسی وجہ سے صوفیاء کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ ارواح کے کانوں میں سب سے پہلے وصف ربوبیت کانغمہ جانفزاہی پہنچاہے اوراسی وصف سے اللہ تعالی کوپہچاناہے ۔
اس کے بعد حضرت سیدناآدم علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام سے لیکر حضورتاجدارختم نبوتﷺ تک سب انبیاء کرام علیہم السلام نے جو دعائیںمانگیں ان میں اکثروبیشتر{رَبنَا}سے واردہوئی ہیں ۔
پھراللہ تعالی نے قرآن کریم کی پہلی سورۃ میں ابتداہی {اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ}سے فرمائی اوراس میں سب سے پہلااپنانام شریف جو ذکرکیاوہ ’’رب ‘‘ ہی ہے ۔
رب تعالی کاجلال
عَنْ أَبِی ہِنْدٍ الدَّارِیِّ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:قَالَ اللہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی:مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَائِی وَیَصْبِرْ عَلَی بَلَائِی فَلْیَلْتَمِسْ رَبًّا سِوَایَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہندالداری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:ـ اللہ تعالی ارشادفرماتاہے کہ جو شخص میرے فیصلے پر راضی نہ ہواورمیری طرف سے آنے والی مصیبت پر صبرنہ کرے تو وہ میرے علاوہ کوئی اور رب تلاش کرلے۔
المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد ، أبو القاسم الطبرانی (۲۲:۳۲۰) مکتبۃ ابن تیمیۃ القاہرۃاس حدیث شریف میں بھی اللہ تعالی نے اپنااسم شریف ’’رب ‘‘ ہی ذکرکیاہے ۔
اپنی بارگاہ سے دوراپنے بندوں کو رب تعالی کیسے بلاتاہے
{یٰٓاَیُّہَا الْاِنْسٰنُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ }الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰیکَ فَعَدَلَکَ }فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآء َ رَکَّبَکَ }
ترجمہ:اے آدمی !تجھے کس چیز نے فریب دیا اپنے کرم والے رب سے ،جس نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک بنایا پھر ہموار فرمایا ،جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دیا۔(سورۃ الانفطار رقم الآیۃ : ۶،۷،۸)
اس آیت مبارکہ میں ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ تعالی نے لفظ ’’رب ‘‘ ذکرفرمایاہے ۔
قبرکے پہلے سوال میں لفظ ’’رب ‘‘کاذکر
عَنِ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ:خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی جَنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَانْتَہَیْنَا إِلَی الْقَبْرِ، وَلَمَّا یُلْحَدْ قَالَ:فَجَلَسَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسْنَا حَوْلَہُ کَأَنَّ عَلَی رُؤسِنَا الطَّیْرَ،فَیَأْتِیہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہِ فَیَقُولَانِ:مَنْ رَبُّکَ؟ فَیَقُولُ:رَبِّیَ اللہُ، فَیَقُولَانِ:وَمَا دِینُکَ؟ فَیَقُولُ:دِینِیَ الْإِسْلَامُ، فَیَقُولَانِ:مَا ہَذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیکُمْ؟ فَیَقُولُ ہُوَ رَسُولُ اللہِ، فَیَقُولَانِ:وَمَا یُدْرِیکَ؟ فَیَقُولُ: قَرَأْتُ کِتَابَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ فَآمَنْتُ بِہِ وَصَدَّقْتُ۔ملخصاً
ترجمہ :حضرت سیدناالبراء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ ایک جنازہ کے لئے گئے ، ابھی قبرتیار نہیں ہوئی تھی تورسول اللہ ﷺتشریف فرماہوئے اورہم بھی رسول اللہ ﷺکے گرد بیٹھ گئے اورہم ایسے بیٹھے تھے گویاکہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ۔( پھرطویل حدیث شریف نقل کی) فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب انسان قبرمیں جاتاہے تو فرشتے اسکو بٹھاتے ہیں ،پھرکہتے ہیںکہ تیرارب کون ہے؟ وہ کہتاہے کہ میرارب اللہ تعالی ہے ، پھروہ کہتے ہیں کہ تیرادین کیاہے ؟ تووہ بندہ مومن کہتاہے کہ میرادین اسلام ہے ، پھروہ کہتے ہیں کہ یہ شخص جو تم میں بھیجے گئے تھے ان کے بارے میں کیاکہتاتھا؟ تووہ کہتاہے کہ یہ تواللہ تعالی کے رسول ﷺہیں ، فرشتے کہتے ہیں کہ تم کوکیسے پتاچلاکہ یہ اللہ تعالی کے رسول ہیں ؟ وہ کہتاہے کہ میں نے اللہ تعالی کی کتاب یعنی قرآن کریم پڑھاتو میں ان پر ایمان لے آیاتھا۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۱:۶۱۰)
ان آیات واحادیث شریفہ سے معلوم ہواکہ اللہ تعالی نے اپناجہاں بھی تعارف کروایاوہاں لفظ ’’رب ‘‘ کاذکرفرمایااس میں بہت زیادہ غوروتدبرکرنے والی بات یہ ہے کہ آج ہم دیکھیں کہ ہم نے کس کو رب ماناہے ۔
یہود ونصاری کی دو گمراہیاں
قرآن کریم کے نزول اوررسول اللہ ﷺکے اعلان نبوت کے وقت جن لوگوں سے آپ ﷺکا واسطہ پڑاوہ اللہ تعالی کے خالق ومالک ہونے ،رزاق وپروردگار ہونے کے منکرہرگزنہیں تھے ، انہیں اللہ تعالی کی صفت ربوبیت میں کسی طرح کاکوئی شک نہیں تھا، وہ جانتے تھے کہ ہماری زندگی کی تمام ضروریات حتی کہ اس کے امکانات بھی اسی ذات کے قبضہ وقدرت میں ہیںجسے رب العالمین کہاجاتاہے لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺکی دعوت سے ان کو سخت انکارتھا، انہوں نے رسول اللہ ﷺکے دین مبارک کاراستہ روکنے کے لئے کسی طرح کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ، اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکے دین کی مخالفت کی وجہ کچھ اورتھی ۔ جب ہم قرآن کریم میں غورکرتے ہیں توہمیں ان کے عقائد واعمال میں دوبنیادی ضلالتوں کاسراغ ملتاہے ، یہ گمراہیاں نئی نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے تمام گمراہ اوردین دشمن قوموں میں پائی جاتی رہی ہیں ، ایک طرف فوق الطبعی ربوبیت والوہیت میں اللہ تعالی کے ساتھ دوسرے الہ اورارباب کو شریک ٹھہراتے تھے، وہ یہ سمجھتے تھے کہ سلسلہ اسباب پر جو حکومت کارفرماہے اس کے اختیارات واقتدارات میں کسی نہ کسی طور پران کے معبودان باطلہ بھی دخل رکھتے ہیں ، اسی بناء پر وہ ان کی عبادت روارکھتے تھے ۔
دوسری طرف تمدنی وسیاسی طورپر وہ اس بات کے قائل تھے کہ ہماری زندگی کی معاشی وسیاسی اوررہن وسہن کے معاملہ میں جتنے قوانین ہیں وہ وضع کرنے کاحق ان کے مذہبی وڈیروں کوحاصل ہے ، وہ انہیں اقتداراعلی کامالک جانتے تھے اورانہیں کے وضع کردہ قوانین پر عمل کرتے ،یہی وجہ تھی کہ جب بھی انبیاء کرام علیہم السلام نے ان کو اللہ تعالی کی عطاکردہ شریعت کی طرف بلایااوران کو یہ دعوت دی کہ تم اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالی کے دیئے ہوئے قانون کو اپنائو توانہوںنے انبیاء کرام علیہم السلام کی مخالفت کی اورخدائی قانون کو ٹھکرادیا۔
یہود ونصاری مشرک کیوں ؟
{اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبٰنَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰـہًا وّٰحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ }
ترجمہ:انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا اور مسیح بن مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں اسے پاکی ہے ان کے شرک سے۔(سورۃ التوبۃ رقم الآیۃ : ۳۱)
ارباب من دون اللہ کامعنی رسول اللہ ﷺکی زبان مبارک سے
عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ:أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفِی عُنُقِی صَلِیبٌ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ:یَا عَدِیُّ اطْرَحْ عَنْکَ ہَذَا الوَثَنَ، وَسَمِعْتُہُ یَقْرَأُ فِی سُورَۃِ بَرَاء َۃٌ:(اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّہِ)، قَالَ: أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُونُوا یَعْبُدُونَہُمْ، وَلَکِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَہُمْ شَیْئًا اسْتَحَلُّوہُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَیْہِمْ شَیْئًا حَرَّمُوہُ.
ترجمہ: حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں :میں حضور پُر نور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا عدی! اس بت کو دور کر دو۔ نیز صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ آپﷺَسورہ براء ت سے پڑھ رہے تھے{ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبٰنَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہ}ِ(یعنی عیسائیوں ، یہودیوں نے اپنے درویشوں اور علماء کو اللہ کے سوا رب بنا لیا)پھر آپﷺ نے (اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد)فرمایا کہ وہ ان کو پوجتے نہیں تھے بلکہ جب وہ ان کے لئے کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ حلال سمجھتے اور جب وہ حرام قرار دیتے تو یہ حرام سمجھتے تھے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ، الترمذی، أبو عیسی (۵:۱۲۹)
ارباب من دون اللہ کون؟
قولہ سبحانہ وتعالی: اتَّخَذُوا أَحْبارَہُمْ وَرُہْبانَہُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّہِ یعنی اتخذ الیہود والنصاری علماء ہم وقراء ہم والأحبار العلماء من الیہود والرہبان أصحاب الصوامع من النصاری أربابا من دون اللہ یعنی أنہم أطاعوہم فی معصیۃ اللہ تعالی وذلک أنہم أحلوا لہم أشیاء وحرموا علیہم أشیاء من قبل أنفسہم فأطاعوہم فیہا فاتخذوہم کالأرباب لأنہم عبدوہم واعتقدوا فیہم الإلہیۃ.وَالْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ یعنی اتخذوہ إلہا وذلک لما اعتقدوا فیہ النبوۃ والحلول اعتقدوا فیہ الإلہیۃ وَما أُمِرُوا یعنی وما أمروا فی الکتب القدیمۃ المنزلۃ علیہم علی ألسنۃ أنبیائہم إِلَّا لِیَعْبُدُوا إِلہاً واحِداً لأنہ سبحانہ وتعالی ہو المستحق للعبادۃ لا غیرہ لا إِلہَ إِلَّا ہُوَ سُبْحانَہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ أی تعالی اللہ وتنزہ عن أن یکون لہ شریک فی العبادۃ والأحکام وأن یکون لہ شریک فی الإلہیۃ یستحق التعظیم والإجلال.
ترجمہ:امام علاء الدین الخاز ن المتوفی : ۷۴۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ { اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبٰنَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ}انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا)آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا رب بنالیا کہ حکمِ الٰہی کو چھوڑ کر ان کے حکم کے پابند ہوئے اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا بنایا اور ان کی نسبت یہ باطل عقیدہ رکھا کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہیں یا خدا نے ان میں حُلول کیا ہے حالانکہ انہیں ان کی کتابوں میں اور ان کے انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ ان کے شرک سے پاک ہے۔
(تفسیر الخازن:علاء الدین علی بن محمد أبو الحسن، المعروف بالخازن (۲:۳۵۳)
اس سے ثابت ہواکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور علماء کو معبود بنا کر ان کی کوئی باقاعدہ عبادت نہیں کی تھی بلکہ خدا کے حکم کو چھوڑ کر ان کے حکم کو اپنے لئے شریعت بنالیا تھا اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے خدا بنالئے۔
{ایاک نعبد وایاک نستعین } کی تفسیر
عبادت کامعنی اطاعت ہے
وَقَالَ بعضُ أَئِمَّۃِ الِاشْتِقَاق:أَصْلُ العُبُودِیّۃِ:الذُّلُّ والخُضُوعُ وَقَالَ آخَرُونَ:العُبُودَۃُ:الرِّضا بِمَا یَفْعَلُ الرَّبُّ، والعِبَادَۃُ: فِعْلُ مَا یَرْضَی بِہِ الرَّبُّ والأَوَّلُ أَقوَی وأَشَقُّ، فَلِذَا قِیلَ: تَسْقُطُ العِبَادۃُ فِی الآخِرَۃِ لَا العُبُودۃُ، لأَنّ العُبودَۃَ أَن لَا یَرَی مُتَصِرِّفاً فِی الدَّارَیْنِ فِی الحقیقِ إِلّا اللہَ.قَالَ شَیخنَا:ہَذَا مَلْحَظٌ صُوفِیٌّ لَا دَخْلَ للأَوْضَاعِ اللغَوِیَّۃِ فِیہِ وَفِی اللّسان:وَلَا فِعْلَ لَہُ عِنْد أَبی عُبَیْد.قلْت:وَہُوَ الّذِی جَزَم بِہِ أَکثَرُ شُرّاحِ (الفَصِیح)وحکَی اللِّحْیانیّ:عَبُد عُبُودَۃً وعُبُودِیَّۃً قلت: وأَوضَحُ مِنْہُ قولُ ابْن القَطَّاعِ فِی (کتاب الأَفعال) فَقَالَ:عَبُد العَبْدُ عُبُودَۃً عُبُودِیَّۃً وأَما عَبَدَ اللہَ فَمَصْدَرُہُ:عِبَادَۃ وعُبُودۃ وعُبُودِیّۃ، أَی أَطاعہ.وَفِی اللّسَان:وعَبَد اللہَ یَعُدہ عِبادَۃً ومَعْبَداً ومَعْبَدۃً:تَأَلَّہ لَہُ.وَقَالَ الأَزہریُّ:اجتمعَ العامَّۃُ لی تَفْرِقَۃِ مَا بَین عِبادِ اللہِ، والممالِیکِ، فَقَالُوا:ہاذا عَبْدٌ من عِبادِ اللہِ، وہاؤلاء ِ عَبِیدٌ ممالیکُ قَالَ:وَلَا یُقَال عَبَدَ یَعْبُدُ عِبادۃً إِلَّا لمَن یَعْبُد اللہَ، وَمن عَبَدَ دُونَہُ إِلاہاً فَہُوَ من الخاسِرِین قَالَ:وأَما عبْدٌ خَدَمَ مَوْلاہُ فَلَا یُقَال عَبَدَہُ. قَالَ اللّیث: وَیُقَال لِلْمُشْرِکِینَ:ہم عَبَدَۃُ الطَّاغُوتِ، وَیُقَال للمُسْلِمین عِبَادُ اللہِ یَعْبُدونَ اللہَ.قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلٌ: (اعْبُدُواْ رَبَّکُمُ) (الْبَقَرَۃ: ۲۱)أَی أَطِیعُوا رَبَّکُمْ.وقولہُ:(إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ)(الْفَاتِحَۃ: ۵) أَی نُطِیعُ الطَّاعَۃَ الَّتِی یُخْضَع مَعَہَا، قَالَ ابنُ الأَثِیر وَمعنی العِبَادَۃِ فِی اللُّغَۃ: الطَّاعَۃُ مَعَ الخُضُوع.
ترجمہ:امام مرتضی الزبیدی المتوفی : ۱۲۰۵ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں عبادت کا معنی ہے طاعت بعض ائمہ نے کہا کہ عبودیت کی اصل ذلت اور خشوع ہے دوسرے ائمہ نے کہا :عبودیت کا معنی ہے :رب کے فعل پر راضی ہونا اور عبادت کا معنی ہے ایسافعل کرنا جس سے رب راضی ہو اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ آخرت میں عبادت ساقط ہوجائے گی عبودت ساقط نہیں ہوگی کیونکہ عبودت یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے حقیقت میں متصرف ہونے کا عقیدہ نہ رکھے ہمارے شیخ نے کہا :یہ صوفیہ کی اصطلاح ہے اس میں لغت کا دخل نہیں ہے ازہری نے کہا : غلام جو اپنے مولی کی خدمت کرتا ہے اس کو عبادت نہیں کہتے اور مسلمان جو اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے اس کو عبادت کہتے ہیں اللہ عزوجل نے فرمایا : (آیت){اعبدوا ربکم} اس کا معنی ہے اپنے رب کی اطاعت کرو اور ایاک نعبد کا معنی ہے : ہم خضوع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں۔ ابن الاثیر نے کہا : عبادت کا لغت میں معنی ہے :عاجزی کے ساتھ اطاعت کرنا۔
(تاج العروس من جواہر القاموس:محمّد بن محمّد أبو الفیض، الملقّب بمرتضی، الزَّبیدی (۸:۳۳۱)
العبادۃ والعبودیۃ کااصطلاحی معنی
العبادۃ: ہو فعل المکلف علی خلاف ہوی نفسہ؛ تعظیمًا لربہ العبودیۃ:الوفاء بالعہود، وحفظ الحدود، والرضا بالموجود، والصبر علی المفقود.
ترجمہ :علامہ سید الشریف الجرجانی المتوفی :۸۱۶ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ نفس کی خواہش کے خلاف اپنے رب کی تعظیم کے لیے مکلف کا کوئی کام کرنا عبادت ہے۔ عہد کو پورا کرنا اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا جو مل جائے اس پر راضی رہنا اور جو نہ ملے اس پر صبر کرنا عبودیت ہے۔
(کتاب التعریفات: علی بن محمد بن علی الزین الشریف الجرجانی :۱۴۶)ـ
یہاں بھی عبادت طاعت کے معنی میں بیان ہوا
{اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ }{وَّ اَنِ اعْبُدُوْنِیْ ہٰذَا صِرٰطٌ مُّسْتَقِیْمٌ }
ترجمہ:اے اولادِ آدم !کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بیشک وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے اور میری بندگی کرنا یہ سیدھی راہ ہے ۔(سورۃ یسن رقم الآیۃ : ۶۰،۶۱)
صدرالافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی { اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ }کامعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کی فرمانبرداری نہ کرنا ۔(خزائن العرفان از سید نعیم الدین مراد اآبادی : ۸۲۲)
اسلام میں عبادت کاتصور
اسلام نے ان تمام تصورات کی اصلاح فرمائی ، سب سے پہلے اس بات کو واضح کیاکہ عبادت صرف بندگی کے چندطریقوں کواپنانے کانام نہیں ، بلکہ اس عبادت کے نام سے بندگی کے جن طریقوں کو اپنے ماننے والوں کے لئے لازم کیاہے اس کے بارے میں واضح طور پر ارشادفرمایاکہ یہ اسلام کی بنیادیں ہیں ، یہ اسلام کی مکمل عمارت نہیں ہے ، صرف انہیں کو بجالانامکمل عبادت نہیں ہے ، کیونکہ بنیادیں بھردینے سے عمارت وجود میں نہیں آجاتی البتہ یہ ضرور ہے کہ جب بھی عمارت بنے گی انہی بنیادوں پر بنے گی ۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کو ترک کرکے جنہوںنے اپنے علماء ومشائخ اورلیڈروں کو اپنامطاع بنالیاان کے متعلق اللہ تعالی نے ارشادفرمایاکہ انہوںنے ان کی عبادت کی ہے اوران کو اپنارب بنالیاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا توحید ربوبیت میں سے ہے۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا نفاذ ہے جو اس کی ربوبیت اس کی مکمل ملکیت اور تصرف کا مقتضی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اتباع کرنے والوں کا رب کہا ہے، جن کی اتباع اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کے خلاف کی جاتی ہے۔ فرمایا:
{اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبٰنَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰـہًا وّٰحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ }
ترجمہ :انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا اور مسیح بن مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں اسے پاکی ہے ان کے شرک سے۔(سورۃ التوبۃ رقم الآیۃ : ۳۱)
صدرالافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ حکمِ الٰہی کو چھوڑ کر ان کے حکم کے پابند ہوئے ۔
(خزائن العرفان از سید نعیم الدین مراد اآبادی : ۳۶۱)
اللہ تعالیٰ نے متبوعین کو رب کا نام دیا کیوں کہ متبعین نے انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ قانون ساز بنا لیا تھا، اور متبعین کو پجاری کا نام دیا ہے کیوں کہ انہوں نے متبوعین کے سامنے ذلت کا اظہار کیا اور اللہ کے حکم کے خلاف ان کی اطاعت کی۔
اوراسی طرح جو شخص قوانینِ الہٰی کو بے قدر یا حقیر سمجھ کر یا یہ اعتقاد رکھ کر کہ دوسرے قوانین مخلوق کے حق میں زیادہ اصلاح کار، نفع بخش یا قوانین الہی جیسے ہی ہیں،ان کے ذریعہ فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر اور ملت سے خارج ہے۔ انہیں میں ان لوگوں کا بھی شمار ہے جو لوگوں کے لئے ایسے قوانین وضع کرتے ہیں جو شریعت اسلام کے مخالف ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ انہی کے وضع کردہ قوانین کو اختیار کریں۔ انہوں نے یہ مخالفِ اسلام قوانین اس اعتقاد کے ساتھ ہی تو بنائے ہیں کہ یہ مخلوق کے لئے زیادہ اصلاح کار اور زیادہ سود مند ہیں۔ کیوں کہ یہ بالکل کھلی ہوئی، معقول اور فطری بات ہے کہ انسان ایک راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ یہی سمجھ کر اپناتا ہے کہ دوسرا پہلے سے افضل ہے۔
جوشخص اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ قرآن وحدیث سے فیصلہ نہ کرائے تو ایسے شخص کے سلسلے میں کئی آیات ہیں ،جو اس کے ایمان کی نفی کرتی ہیں۔ کئی اور آیات ہیں جو اس کے لئے کفر، ظلم اور فسق کو بھی ثابت کرتی ہیںجو ہم ان شاء اللہ تعالی آگے چل کربیان کریں گے ۔
ان تمام ابحاث سے ثابت ہواکہ جو شخص اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کو ترک کرکے انگریز ی قوانین کو ترویج دینے والاہے اوراسی کے مطابق فیصلے کرنے والاہے اس نے اس مقنن کو اپنارب بنالیاہے اورخود کو اس کاپجاری ۔
{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ} کی تفسیر
ترجمہ: نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔
مغضوب علیہم اورضالین سے مراد کون؟
عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:الیَہُودُ مَغْضُوبٌ عَلَیْہِمْ وَالنَّصَارَی ضُلاَّلٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:یہودی وہ ہیں جن پر اللہ تعالی کاغضب نازل ہوااورنصاری گمراہ ہیں ۔
(سنن الترمذی: محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۱۴)
اس آیہ شریفہ میں اسوہ کا ذکر ہے، جسے نمونہ عمل بنانا ہے اور دو انحرافی راستوں کا ذکر بھی ہے، جن سے برائت اختیار کرنا ہے۔گویا تولیٰ اور تبریٰ کے بغیر کوئی نظریہ قائم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی جاذبہ و دافعہ کے بغیر کوئی نظام برقرار رہ سکتا ہے۔ لہٰذا ہدایت و نجات کے لیے منعم علیھم جن پر خدا کی نعمتیں نازل ہوئیں سے محبت اور مغضوب علیہم اور ضالین سے نفرت ضروری ہے۔ جن سے محبت کرنا اور اسوہ بنانا مقصود ہے، وہ انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہی معیار اطاعت ہیں۔
اللہ تعالی نے ارشادفرمایاہے کہ
{وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآء ِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا }
ترجمہ :اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں ۔(سورۃ النساء : ۶۹)
مغضوب علیھم سے نفرت اور برائت اختیار کرنے کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللہُ عَلَیْہِمْ }
ترجمہ :اے ایمان والو ان لوگوں سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ کا غضب ہے(سورۃ الممتحنہ : ۱۳)
اور ضالین کے بارے میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
{قَالَ وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ}
ترجمہ :اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔(سورۃ الحجر :۱۵)
معارف ومسائل
(۱)اس سے معلوم ہواکہ اللہ تعالی کے لئے محبت کرنااوراللہ تعالی کے لئے بغض رکھناایمان کاحصہ ہے ۔
(۲)اللہ تعالی کے لئے محبت وبغض سے مراد نیکوں کی روش اپنانا اور برے لوگوں کی پیروی سے اجتناب برتنا ہے۔
(۳) ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے یہود ونصاری میں سے ایک کو مغضوب علیہم اوردوسرے کو ضالین قراردیا، اس سے ثابت ہواکہ جس پر رب تعالی کاغضب ہویاوہ گمراہ ہواس پر رب تعالی کاانعام نہیں ہوتا۔
(۴)یہودی ونصاری کے راستے پر چلنے اوران کی پیروی کرنے سے اسی آیت مبارکہ میں منع فرمادیاگیا۔
(۵) یہود ونصاری سے نفرت کرناایمان کاحصہ ہے اوران کے خلاف نفرت کرنے کو شدت پسندی کہنے والابے دین ہے ۔
(۶) اس سورہ مبارک کے مضمون سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو شخص حق تعالی تک پہنچناچاہتاہے اس کے لئے لازم ہے کہ اللہ تعالی کے دشمنوں سے کامل نفرت رکھے اوراگردشمنان ِ خداورسول ﷺکے ساتھ تعلق رکھے گاتو پھراس کاحق تک پہنچنااورصراط مستقیم پر چلنامشکل نہیں ناممکن ہوجائے گا۔
(۷) اب وہ بچارے غورکریں جو نماز میںتو کھڑے ہوکر یہی پڑھتے ہیں کہ یااللہ تعالی ہم کو یہودونصاری کے راستے سے بچالیکن جیسے نماز سے فارغ ہوتے ہیں یہودی ونصاری کی تعریفیں شروع کردیتے ہیں اوران کے حق میں نعرے لگاتے ہیں اوران کو ترقی یافتہ قراردیتے ہیں اوراہل ایمان کو شدت پسند اوردہشت گردکہتے ہیں۔
(۸) اس سے ان لوگوں کو بھی عبرت پکڑنی چاہئے جو یہود ونصاری کے قوانین کو اہل اسلام پر نافذ کرنے والے اوران کے قوانین کا دفاع کرنے والے ہیں ، ان کو اتناقرآن وحدیث کے احکامات کی مخالفت کرنے پر تکلیف نہیں ہوتی جتنی کفارکے قوانین کی مخالفت پرہوتی ہے ۔
(۹) جتنے بھی لبرل وسیکولر اورنیچری ہیں وہ سارے کے سارے ان یہودی ونصاری سے بڑھ کر اسلام کے دشمن ہیں اوران کاضرریہود ونصاری کے ضررسے زیادہ ہے۔کیونکہ یہودونصاری کے ساتھ دشمنی رکھنے کاسبب بھی ان کی ہمارے دین کے ساتھ دشمنی ہے اوریہ طبقہ بھی ہمارے دین متین کادشمن ہے اورخداتعالی اورسول اللہ ﷺکادشمن ہے لھذالبرل وسیکولر اورنچیریوں کے ساتھ نفرت اوربغض رکھنے کاحکم بدرجہ اولی ہے ۔ جس طرح یہود ونصاری سے نفرت رکھناایمان کاحصہ ہے بالکل اسی طرح ان سے نفرت رکھناایمان کاحصہ ہے ۔
(۱۰) جس طرح یہودونصاری کااپنے مذہب پر کاربندہونے کادعوی غیرمسموع ہے اسی طرح لبرل طبقہ کادعوی اسلام محض فریب اوراہل اسلام کے ساتھ دغاہے ۔