تفسیر سورہ النساء آیت ۱۷۵۔ یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآء َکُمْ بُرْہٰنٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی آمدکے بعد کسی عذرکی گنجائش نہیں ہے

{یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآء َکُمْ بُرْہٰنٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا}(۱۷۵)
ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اُتارا ۔

برہان سے مرادکیاہے ؟

یا أَیُّہَا النَّاسُ خطاب لعامۃ المکلفین قَدْ جاء َکُمْ بُرْہانٌ کائن مِنْ رَبِّکُمْ وَأَنْزَلْنا إِلَیْکُمْ بواسطۃ النبی علیہ السلام نُوراً مُبِیناً عنی بالبرہان المعجزات وبالنور القرآن ای جاء کم دلائل العقل وشواہد النقل ولم یبق لکم عذر ولا علۃ. والبرہان ما یبرہن بہ المطلوب وسمی القرآن نورا لکونہ سببا لوقوع نور الایمان فی القلوب ولانہ تتبین بہ الاحکام کما تتبین بالنور الأعیان۔
ترجمہ :{یا أَیُّہَا النَّاسُ}یہ خطاب عام ہر عاقل وبالغ کو یعنی اے لوگو! { قَدْ جاء َکُمْ بُرْہانٌ کائن مِنْ رَبِّکُمْ وَأَنْزَلْنا إِلَیْکُمْ }بے شک تمھارے ہاں ایک برہان تشریف لایاجو{ مِنْ رَبِّکُمْ وَأَنْزَلْنا إِلَیْکُمْ }تمھارے رب تعالی کی طرف سے اورتمھاری طرف حضورتاجدارختم نبوتﷺکے واسطے سے نازل کیا{نوْرًا مُّبِیْنًا}ایک روشن نور۔ برہان سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے معجزات شریفہ اورنورسے مراد قرآن کریم مراد ہے یعنی تمھارے ہاں دلائل عقلی اورشواہدنقلی پہنچے ہیں ، اس لئے اب تمھیں نہ کسی عذرکی گنجائش ہے اورنہ ہی کوئی حیلہ سازی کی ۔
برہان ہراس شئی کو کہاجاتاہے کہ جس سے مطلوب کو دلائل سے واضح کیاجائے اوربرہان کو نور اس لئے کہاجاتاہے کہ یہ دلوں میں نورایمان کے وقوع کاسبب ہے جس طرح اعیان کھل کرسامنے آجاتے ہیں اسی طرح قرآن کریم سے احکامات شرعیہ واضح ہوجاتے ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۲:۳۳۳)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات شریفہ عین معجزہ تھی

والاشارۃ فی الآیۃ ان اللہ تعالی اعطی لکل نبی آیۃ وبرہانا لیقیم بہ الحجۃ علی الامۃ وجعل نفس النبی علیہ السلام برہانا منہ وذلک لان برہان الأنبیاء کان فی الأشیاء غیر أنفسہم مثل ما کان برہان موسی فی عصاہ وفی الحجر الذی انفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا وکان نفس النبی علیہ السلام برہانا بالکلیۃ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہرنبی علیہ السلام کو ایک واضح دلیل عطافرمائی ہے کہ جس سے وہ اپنی امت پرحجت قائم کرتے ہیں اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی عین ذات کو ہی حجت بنایا، اس لئے کہ دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات ایسے تھے جوان کی ذات کے سواکسی دوسری شئی سے تعلق رکھتے تھے ۔ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کامعجزہ ایک لاٹھی تھی اورپتھرکہ جس سے بارہ چشمے بہہ نکلے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات شریفہ عین معجزہ تھی یہاں تک کہ آپﷺکاایک ایک عضوبذات خود معجزہ تھا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۲:۳۳۳)

امام رازی رحمہ اللہ تعالی کابہت زبردست کلام

وَاعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی:لَمَّا أَوْرَدَ الْحُجَّۃَ عَلَی جَمِیعِ الْفِرَقِ مِنَ الْمُنَافِقِینَ وَالْکُفَّارِ وَالْیَہُودِ وَالنَّصَارَی وَأَجَابَ عَنْ جَمِیعِ شُبُہَاتِہِمْ عَمَّمَ الْخِطَابَ وَدَعَا جَمِیعَ النَّاسِ إِلَی الِاعْتِرَافِ بِرِسَالَۃِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ فَقَالَ:یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جاء َکُمْ بُرْہانٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَالْبُرْہَانُ ہُوَ مُحَمَّدٌ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، وَإِنَّمَا سَمَّاہُ بُرْہَانًا لِأَنَّ حِرْفَتَہُ إِقَامَۃُ الْبُرْہَانِ عَلَی تَحْقِیقِ الْحَقِّ وَإِبْطَالِ الْبَاطِلِ، وَالنُّورُ الْمُبِینُ ہُوَالْقُرْآنُ، وَسَمَّاہُ نُورًا لِأَنَّہُ سَبَبٌ لِوُقُوعِ نُورِ الْإِیمَانِ فِی الْقَلْبِ، وَلَمَّا قَرَّرَ عَلَی کُلِّ الْعَالَمِینَ کَوْنَ مُحَمَّدٍ رَسُولًا وَکَوْنَ الْقُرْآنِ کِتَابًا حَقًّا أَمَرَہُمْ بَعْدَ ذَلِکَ أَنْ یَتَمَسَّکُوا بِشَرِیعَۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَوَعَدَہُمْ عَلَیْہِ بِالثَّوَابِ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب تمام فرقوں ، کفار یہودونصاری پردلائل واردکئے اوران تمام کے شبہات کاجواب دیاتواب خطاب عام کیااورتمام لوگوں کو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی رسالت پرایمان لانے کی دعوت دی توفرمایا: { یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جاء َکُمْ بُرْہانٌ مِنْ رَبِّکُمْ }اے لوگو!بے شک تمھارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح دلیل آئی اوربرہان سے مراد حضورتاجدارختم نبوتﷺہیں ، آپ ﷺکوبرہان اس لئے کہاہے کہ آپ ﷺکامعمول حق کے ثبوت اورباطل کے ابطال پربرہان قائم کرناہے اورنورمبین سے مراد قرآن کریم ہے ، اسے نورکانام اس لئے دیاکہ یہ دل میں ایمان کے نور کے وقوع کاسبب ہے ، جب تمام اہل جہاں پر یہ پختہ کیاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺاورقرآن کریم کتاب حق ہے توانہیں اس کے بعد شریعت محمدی (ﷺ) کی پیروی کرنے کاحکم دیااوراس پران سے ثواب کاوعدہ فرمایا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۱:۲۷۴)

معارف ومسائل

(۱)حضورتاجدارختم نبوتﷺ اللہ کی معرفت و تو حید اور خالق کائنات کی عظمت و شان الو ہیت کی دلیل ہیں آپ کے کمالات و تصرفات، کردار و اخلاق، حسن و جمال اور آپ کے اقوال و افعال معرفت حق کی واضح دلیل ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے: اے لوگو!بے شک تمہارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہار ی طر ف روشن نور اتارا اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے انسانوں پر واضح فرما دیا کہ اللہ کی ذات و صفات پر دلالت کرنے والی سب سے بڑی ہستی تمہارے پاس تشریف فرما ہوگئی اور تمہاری ہدایت کے لیے روشن نور بھی آچکا ہے اب تمہار ا کفر میں رہنا سرکشی و بغاوت ہے اپنے مالک حقیقی کی معرفت اور عقیدہ تو حید کے سلسلہ میں تمہیں کوئی الجھائو نہیں ہونا چاہیے رب العالمین کی برہان سے راہنمائی حاصل کرکے صراط مستقیم پر گامزن ہو جائو۔
(۲)اس آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العالمین نے تمام لوگوں، خواہ مشرک ہوں، یہودہوں یا نصاریٰ کو اتمامِ حجت کے تحت یہ خبر دے دی ہے کہ اُس ذات حق نے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپﷺ (کا یوں نبی بن کر تشریف لے آنا) اللہ تعالیٰ کے وجود ، قدرت اور علم کی حتمی دلیل اور واضح ثبوت ہے ۔ خدا تعالیٰ کی ذات اور تمام رسولوں پر ایمان لانا اور اللہ کے رسول کریمﷺکی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بندگی کو لازم پکڑنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کریم ﷺپر ایسی کتاب نازل کی ہے جو(ہرظاہری اور باطنی مرض سے)شفا دینے والی ،(دنیا اور آخرت کے ہر معاملے میں)کفایت کرجانے والی، (حق کے طلب گاروں کو)ہدایت دینے والی اور(راہ ہدایت بتلانے کے لیے)سراپاروشنی ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس شخص کو سلامتی کے راستوں کی طرف راہ نمائی کرتا اور (کفر کے )اندھیروں سے (اسلام کی)روشنی کی جانب نکال کر لے آتا ہے، جو اللہ رب العالمین کی رضا مندی کا طالب ہو ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیے ہر قسم کی معذرت اور عذر خواہی کا راستہ بند کردیاہے۔اب انسانوں کی (صرف)دو قسمیں ہیں ۔ایک مومن، دوسری کافر۔ جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے ہیں ،وہ حق سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا رب اور معبود مانتے اور اس کے نبی ﷺکو اپنا رسول اور پیغمبر مانتے ہیں اور قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑکر اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتے ہیں، اس کی خبروں کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کے بتلائے گئے آداب کی رعایت اور پابندی کرتے ہیں۔ چناں چہ یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ ربّ کریم اپنی رحمت اور فضل سے اس طرح نوازے گاکہ انہیں جہنم سے نجات اور جنت کے باغات میں داخل کرے گا۔ حقیقت میں یہی سب سے بڑی کامیابی ہے ،رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺ اور اس کی کتاب کا انکار کیا تو ان کا ٹھکانا مشہور اور ان کا بدلہ معلوم ہے ،جس کے ذکر کی ضرورت بھی نہیں کہ وہ حرمان اور خسران ہے۔
٭…اسلام کی دعوت اور اس کا پیغام بنی نوع انسان کے تمام افراد کے لیے عام ہے۔
٭… انسان کی سعادت مندی، خوش بختی اور بلند اقبالی کی قیمت اللہ اور اس کے حبیب کریمﷺ پر ایمان اور اللہ تعالی سے ملاقات کا یقین پیدا کرنا ہے۔جب کہ عمل صالح کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا نام ہے۔

برھان کا اطلاق حضورتاجدارختم نبوتﷺپر اس اعتبار سے ہے کہ آپ ﷺ اپنی صفت امّیت اور عظمت و کمال کے ساتھ اس (بلند)مقام پر پہنچے ،جہاں کوئی انسان آپ سے آگے نہیں بڑھ سکتا(اور ایساہونادرحقیقت)اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کے علم اور رحمت کی دلیل ہے۔

دوسری جلدتمام ہوئی بحمداللہ تعالی ۲۵رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ/۱۹مئی ۲۰۲۰ء) بروزمنگل ) بوقت ۲بج کر۴۵منٹ سہ پہر)
سورۃ النساء تام ہوئی ۔

Leave a Reply