سورۃ البقرہ کی آخری آیت کریمہ میں جہاد کاذکرخیرکرکے اہل اسلام کو جہاد میں فتح یابی کے لئے دعاکرنے کی تعلیم دی گئی
{لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰینَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ}
ترجمہ کنزالایمان :اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر اس کا فائدہ ہے جو اچھا کمایا اور اس کا نقصان ہے جو برائی کمائی اے رب ہمارے ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یا چوکیں اے رب ہمارے اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے اگلوں پر رکھا تھا اے رب ہمارے اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں سہار نہ ہو اور ہمیں معاف فرمادے اور بخش دے اور ہم پر مہر کر تو ہمارا مولیٰ ہے تو کافروں پر ہمیں مدد دے۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اللہ تعالی کسی بھی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے ۔ کسی جان نے جو اچھاکمایا وہ اسی کیلئے ہے اور کسی جان نے جو برا کمایا اس کا وبال اسی پر ہے ۔اے ہمارے رب!اگر ہم بھولیں یاہم سے خطاہو تو ہماری گرفت نہ فرما ،اے ہمارے رب!اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا، اے ہمارے رب!اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف فرمادے اور ہماری بخشش فرما اور ہم پر مہربانی فرما، تو ہمارا مالک ہے پس کافر وں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
آیت مبارکہ کامعنی
أی قولوا أنت مولانا فَانْصُرْنا عَلَی الْقَوْمِ الْکافِرِینَ أی الأعداء فی الدین المحاربین لنا ۔
ترجمہ :امام شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی الحنفی المتوفی : ۱۲۷۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی فرمارہاہے کہ اے اہل ایمان ! تم کہو!توہمارامولاہے پس توہماری مددفرماکافروں کے خلاف یعنی وہ لوگ جوہمارے دینی دشمن ہیں اورہمارے ساتھ ہمارے دین کے معاملے میں جنگ کرتے ہیں توہماری مددفرما۔
(روح المعانی:شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی(۲:۶۸)
امام السیوطی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
(فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْم الْکَافِرِینَ)بِإِقَامَۃِ الْحُجَّۃ وَالْغَلَبَۃ فِی قِتَالہمْ فَإِنَّ مِنْ شَأْن الْمَوْلَی أَنْ یَنْصُر مَوَالِیہ عَلَی الْأَعْدَاء۔
ترجمہ:امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کامعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اے اللہ ! ہماری نصرت فرماکافروں پر ، ہماری دلیل کو مضبوط فرماکراورجہاد میں ان پرغالب فرماکر، بے شک مولاتعالی کی شان ہے کہ وہ اپنے موالی کو دشمنوں پر غلبہ دیتاہے ۔
(تفسیر الجلالین:جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی (۱:۶۴)
کافروں کے دلوں میں بزدلی پیداکردے
أَیْ:أَظْہِرْنَا عَلَیْہِمْ بِمَا تُحْدِثُ فِی قُلُوبِنَا مِنَ الْجُرْأَۃِ وَالْقُوَّۃِ،وَفِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْخَوْرِ وَالْجُبْنِ.
ترجمہ :أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی : ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کامعنی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں کافروں پر غالب کردے ، اس طرح کہ ہمارے دلوں میں قوت اورہمت پیدافرمااورکافروں کے دلوں میں بزدلی اورکمزوری ڈال دے ۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف أثیر الدین الأندلسی (۲:۷۶۷)
آقاتواپنے غلاموں کی مددکرتاہے
فَانْصُرْنا تفریع علی الولایۃ فان من حق المولی ان ینصر عبیدہ وموالیہ عَلَی الْقَوْمِ الْکافِرِینَ المراد بہم عامۃ الکفرۃ من الجن والانس حتی النفس الامارۃ بالسوء ۔
ترجمہ :امام قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کامطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ توہماراآقاہے مددگارہے حفاظت فرمانے والاہے ، لھذاتوہمیں فتح یاب کراس جگہ فاء تفریعیہ ہے اورمفہوم آقائیت پر اس کی تفریع ہے کیونکہ آقاکو اپنے غلاموں کی مددونصرت کرنی ہی چاہئے ۔ یعنی کافرقوم پر، یہاں کافرعام ہے جنات ہوں یاانسان یہاں تک کہ نفس امارہ بھی کافرہے اس کے خلاف بھی فتح یابی کی دعاہے۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۱:۴۴۶)
جہاد میں اورمناظرہ میں ہماری مددفرما
ثُمَّ قَالَ:فَانْصُرْنا عَلَی الْقَوْمِ الْکافِرِینَ أَیِ انْصُرْنَا عَلَیْہِمْ فِی مُحَارَبَتِنَا مَعَہُمْ،وَفِی مُنَاظَرَتِنَا بِالْحُجَّۃِ مَعَہُمْ،وَفِی إِعْلَاء ِدَوْلَۃِ الْإِسْلَامِ عَلَی دَوْلَتِہِمْ عَلَی مَا قَالَ:لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان کفارپرجنگ کی صورت میں ہماری مددفرما، ان سے مناظرہ کی صورت میں دلائل میں غلبہ عطافرما۔اورمسلمانوں کی حکومت اورسلطنت کو ان کی حکومت پر غلبہ عطافرما۔ جیسے اللہ تعالی کافرمان شریف ہے {لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہ}
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۷:۱۱۵)
معارف ومسائل
(۱) اس صورت میں مسلمانوں پر اللہ تعالی کے ظاہری وباطنی انعامات کاتذکرہ ہے اورنعمتوں کے بقاکی صورت کاکافروں پر غلبہ ہے ورنہ وہ تواہل اسلام کو مرتدبنانے پر تلے رہتے ہیں اورکافروں پرغلبہ صرف اورصرف جہاد کے ذریعے ہی ہوتاہے ۔ گویااس صورت کے آخر میں ایک بارپھرجہاد کی طرف متوجہ کیاگیا۔ اس حسن خاتمہ کے قربان جائیں جس میں اسلام کے ایک انتہائی نصب العین اورغایت الغایات کو نہایت ہی واضح اورروشن الفاظ میں بیان فرمایاکہ اہل اسلام دنیاکی تمام اقوام وملل اورمذاہب وادیان پرحاکم بناکربھیجے گئے ہیں اورشہداء علی الناس اسی صورت میں بن سکتے ہیں جب کہ اس قانون پر عمل کریں جوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے توسل سے انہیں نوازاگیا۔صبراستقامت ، عزم واستقلال اورولولہ دینی اورحب مذہبی اپنے اندرپیداکریں ، جہادفی سبیل اللہ کے لئے ہمیشہ تیاررہیں اوراللہ تعالی سے فتح وکامرانی کی دعامانگیں۔
(۲) یہ دعاسکھاکریہ بات یادلائی جارہی ہے کہ اس بات پر محنت کرناکہ دنیابھرمیں اللہ تعالی کادین اورکلمہ بلندہواورکفروشرک کی طاقت مغلوب ہوجائے ، یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ، ظاہربات ہے کہ یہ کام آسان نہیں ہے بہت مشکل ہے اوراس کے لئے نصرت مانگنے اورغلبہ پانے کی دعاسکھلادی ۔ قرآن کریم کی اتنی اہم سورت کی آخری آیت میں یہ دعایادکروائی گئی کہ یااللہ ہمیں جہاد میں فتح ونصرت عطافرماکرکافروں پر غلبہ دے ۔ (فتح الجوادفی معارف آیات الجہاد (۱: ۱۱۷)
سورۃ کے اختتام پر امام رازی کی دعا
وَہَذَا الْمِسْکِینُ الْبَائِسُ الْفَقِیرُ کَاتِبُ ہَذِہِ الْکَلِمَاتِ یَقُولُ:إِلَہِی وَسَیِّدِی کُلُّ مَا طَلَبْتُہُ وَکَتَبْتُہُ مَا أَرَدْتُ بِہِ إِلَّا وَجْہَکَ وَمَرْضَاتَکَ،فَإِنْ أَصَبْتُ فَبِتَوْفِیقِکَ أَصَبْتُ فَاقْبَلْہُ مِنْ ہَذَا الْمُکْدِی بِفَضْلِکَ وَإِنْ أَخْطَأْتُ فَتَجَاوَزْ عَنِّی بِفَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ یَا مَنْ لَا یُبْرِمُہُ إِلْحَاحُ الْمُلِحِّینَ،وَلَا یَشْغَلُہُ سُؤَالُ السَّائِلِینَ وَہَذَا آخِرُ الْکَلَامِ فِی تَفْسِیرِ ہَذِہِ والسورۃ الحمد لِلَّہِ ربِّ الْعَالَمِینَ،وَصَلَّی اللَّہُ عَلَی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ وَعَلَی آلِہِ وَأَصْحَابِہِ وَسَلَّمَ.
ترجمہ
اوریہ مسکین ،فقیراورحقیر( امام الرازی) ان کلمات کالکھنے والاعرض کرتاہے اے میرے اللہ !اے میرے آقا!جوکچھ میں نے طلب کیااورلکھااس سے صرف تیری ذات اورتیری رضامقصود ہے ، اگرمیں نے درست لکھاتوتیری توفیق سے لکھا، اس کمزور آدمی سے اپنے فضل سے اس کوقبول فرما، اگرمیں نے غلطی کی ہے تواپنے فضل وکرم سے درگزرفرما،اسے مانگنے والوں کوعرض کرنااعراض میں نہیں ڈالتا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۷:۱۱۵)
یہ فقیرمسکین بھی انہیں الفاظ میں دعاکرتاہے جن الفاظ میں امام الرازی رحمہ اللہ تعالی نے دعاکی ہے کیونکہ بزرگوں کے دعائیہ الفاظ میں قبولیت کی برکت شامل ہوتی ہے ۔
احقرالعباد فقیرضیاء احمدقادری رضوی عفی عنہ
(۲ رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ) بروز اتوار)حال مقیم جامع مسجد غوثیہ ندیم ٹائون ملتان چونگی ملتان روڈ لاہور
ایک اہم مسئلہ کی وضاحت
(۱۹۳۵ء )میں علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی نے قادیانیوں کے متعلق سخت بات کی تو پنڈت جواہر لال نہرو نے علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی کو خط لکھا کہ یہ تو مولویوں کا ایشو ہے اور آپ جیسا پڑھا لکھا سمجھدار شخص اس طرح کی بات کیسے کرسکتا ہے؟اسکے جواب میں علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی نے کہا:کہ آپ لوگ یعنی ہندو، نبوت کے مقام کی تفہیم کر ہی نہیں سکتے، اندازہ بھی نہیں آپ لوگوں کو کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کا کیا مقام ہے۔ نیز رسالت اسلام کا مرکزی عقیدہ ہے، جو ختم نبوت کا قائل نہیں، وہ کافر ہے ۔لہذا اس مسئلے کو آپ رہنے دیں۔اسکے بعد پنڈت جواہر لعل نہرو نے ماڈرن ریویو کلکتہ میں تین تنقیدی مضامین لکھے اور عملاً قادیانیوں کے وکیل صفائی کی پوزیشن اختیار کرلی۔
تو جوابا ًعلامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی نے پنڈت کے مضامین کے جواب میں ایک معرکہ آرا ء مضمون لکھا جس میں ختم نبوت کے مذہبی، عمرانی اور سیاسی پہلوؤں کی وضاحت کرنے کے علاوہ قادیانی تحریک کے خدوخال پر بھی روشنی ڈالی۔ اور لکھا کہ مسلمانانِ ہند کے سیاسی نفوذ کی ترقی سے قادیانیوں کا یہ مقصد یقیناً فوت ہوجائے گا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی امت سے ہندوستانی نام نہاد پیغمبر کی ایک نئی امت تیار کریں۔
یعنی اصل ہندوئوں کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانان ہند کو ترقی سے روکا جائے اور قادیانیوں کو ترقی دی جائے تاکہ ایک نام نہاد ہندوستانی پیغمبر کو متعارف کرایا جائے۔
لہذا اس سے کچھ لوگوں کا یہ اعتراض بھی ختم ہوا جو کہتے ہیں علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی قادیانیوں سے متاثر تھے۔