زید نے کہا کہ فرائض کا سوال ہوگا سنن کا نہیں؟
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ زید شہر کی جامع مسجد میں امامت کے منصب پر فائز ہے ۔
1) زید سنت مؤکدہ کو چھوڑ دیتا ہے ، جب زید سے سنت چھوڑنے کی بات کہی گئی تو زید نے کہا کہ فرائض کا سوال ہوگا ۔ سنن کا نہیں؟
2) اور کبھی کبھی زید جان بوجھ کر فرض نماز کو بھی چھوڑ دیتا ہے ؟
زید اپنے گھر بازی لگانے والے مرغے بھی پالتا ہے لوگوں میں مشہور ہے کہ زید خود مرغ بازی کرتا ہے ،جبکہ زید نے سفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں صرف پالتا ہوں کاروبار کے اعتبار سے.. کیا لڑاکو مرغ پالنا اور بیچنا جائز ہے ؟
ان سوالات کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں ۔
باسمہ تعالیٰ و تقدس
الجواب اللھم ہدایت الحق والصواب
صورتِ مسئولہ میں زید اگر واقعی ایسا کرتاہے کہ سنت مؤکدہ کو ترک کردیتا ہے اور اس پر ہٹ دھرمی کرتے ہوئے یہ بھی کہتاہے کہ فرائض کاسوال نہ ہوگا تو زید واقعتاً عند الشرع سخت مجرم شدید گنہگار و فاسق معلن اور مستوجب عذاب قہار و جبار ہے اس کو امام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے اور لوگوں پر یہ واجب ہے کہ اسے امامت سے برخاست کریں ورنہ خود بھی گنہگار ہوں گے ۔
کما قال اللہ:” و اما ینسینک الشیطان فلاتقعد بعد الذکری ۔
اور فراض بھی احیانا ترک کرتا رہتاہے تو سخت گنہگار ہوتا ہے ۔
اور اپنے فسق کا اظہار کرتاہے ایسے کو امام بنانا بالکل جائز نہیں بلکہ گناہ ہے ۔
اعلیحضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:” شبانہ روز میں بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں دو صبح سے پہلے اور چار ظہر سے پہلے اور دو بعد، اور دو مغرب و عشا کے بعد، جو ان میں سے کسی کو ایک آدھ بار ترک کرے مستحق ملامت و عتاب ہے اور ان میں سے کسی کے ترک کا عادی گنہگار و فاسق و مستوجب عذاب ہےاور فاسق معلن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی اور اس کو امام بنانا گناہ ہے ( فتاویٰ رضویہ، الجزء الثالث3 ، ص201)
مرغبازی یعنی مرغے لڑانا حرام ہے ۔ حدیثِ مصطفیٰ علیہ التحیة والثنا میں ہے :” نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن التحریش بین بھائم ۔ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جانوروں کو لڑانے سے منع فرمایا ۔ اخرجہ ابوداؤد و الترمذی عن ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنھما وقال:الترمذی حسن صحیح ۔ (ابوداؤد ، فتاویٰ رضویہ شریف ،ج9، ص195، نصفِ آخر )
اگر زید مرغبازی کرتاہے تو حرام کا مرتکب اور گنہگار ہے ۔
اور اگر خود نہیں کرتا مگر لڑاکو مرغا اسی نیت سے پالتاہے کہ لوگ مرغبازی کریں اور اس کا فائدہ ہو تو اس نیت سے اسکا مرغ پالنا اور بیچنا بھی جائز نہیں۔ کہ یہ امر ناجائز کی طرف مؤدی ہے جوکہ شرعاً قطعاً جائز نہیں ۔
اسی طرح کبوتر پالنے کے متعلق ایک استفتا کے جواب میں اعلیحضرت علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں:” کبوتر پالنا جبکہ خالی دل بہلانے کیلئے ہو اور کسی امر ناجائز کی طرف مؤدی نہ ہو جائز ہے اور اگر چھتوں پر چڑھ کر اڑائے کہ مسلمانوں کی عورات پر نگاہ پڑے یا ان کے اڑانے کو کنکریاں پھینکے جو کسی کا شیشہ توڑیں یا کسی کی آنکھ پھوڑیں یا کسی کا دم بڑھائے اور تماشا ہونے کیلئے دن بھر انہیں بھوکا اڑائے جب اترنا چاہیں نہ اترنے دیں ایسا پالنا حرام ہے ۔ (المرجع السابق)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ✍ العبد الاثیم محمد امیر حسن امجدی رضوی خادم الافتا والتدریس الجامعة الصابریہ پریم نگر نگرہ جھانسی یوپی