سوال : سویابین کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟
عنوان : مفتیان کرام و علماء ذوی الاحترام آپ سب کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ "سویابین” یہ ایک قسم کی سبزی ہے جسکو سالن کے طور پر کھانے میں استعمال کیا جاتا ہے اس کے کھانے کا کیا حکم ہے؟ یعنی از روئے شرع اس کا کھانا درست ہے یا نہیں؟ (کچھ جگہوں پر یہ باتیں مشہور ہیں کہ اسکا کھانا ناجائز و حرام ہے) لہٰذا جواب عنایت فرمائیں، سائل:حافظ شاہنواز عالم، مدارگنج، ارریہ بہار ۔
الجواب بعون الملک الوھاب:
فقہ کا قاعدہ کلیہ ہے”الاصل فی الاشیاء الاباحۃ” چیزوں میں اصل اباحت ہے ۔ جب تک کسی چیز کے متعلق شریعت کی جانب سے حرمت یا عدم جواز کا قول نہ ہو تو وہ چیز جائز و درست ہوتی ہے ۔ شریعتِ مطہرہ کا یہ واضح اور مسلّم اصول ہے کہ نباتات یعنی زمین سے اُگنے والی جتنی چیزیں ہیں وہ سب پاک اور حلال ہیں، اور ان کا کھانا بھی درست ہے۔ سوائے ان نباتات کے جو زہریلی اور مہلک ہوں یا جو نشہ آور ہوں، ان کا کھانا جائز نہیں ہے*
سویابین بھی زمین سے اُگنے والی ایک سبزی ہے جس کے بیج سے تیل نکالا جاتا ہے، اور تیل نکالنے کے بعد اس کا جو بھوسہ ہوتا ہے اسے گوند کر اس کی گولیاں بنالی جاتی ہیں، جو نہ تو زہریلی اور مہلک ہیں اور نہ ہی اس میں نشہ ہے، اسی طرح اس میں کسی ناپاک یا حرام شئے کے ملے ہونے کا یقینی علم بھی نہیں ہے، لہٰذا اس کا کھانا بلا کراہت جائز ہے
قال اللہ تعالٰی: یا ایھا الذین آمنوا کلوا من طیبات مارزقنٰکم
📗البقرہ:۱۷۲
الیقین لا یزول بالشک،
(الاشباہ والنظائر،کتب فقہ) واللہ اعلم بالصواب۔
محمد شمس تبریزقادری علیمی۔صدر و مفتی :قادری دارالافتاء، مدارگنج، ارریہ ،بہار ۔