Social Media Ka Galat Istemal
سوشل میڈیا کا غلط استعمال اور ہمارے بچوں کےحال و استقبال۔۔۔!!
محمد مکی القادری
دوستان محترم! آج کے عہد میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور طاقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کےاس دورمیں جہاں سوشل میڈیا کےفائدے ہیں تو نقصانات بھی بہت ہیں ۔ایسے میں ضروری ہے کہ اس کے مضر اثرات اور نقصانات سے نئی نسل کو نہ صرف واقف کرایا جائے ، بلکہ بچایا بھی جائے ۔ بتاتا چلوں کہ بچے ہمارا نسلی تسلسل ہیں۔ مسلمان والدین کا فرض ہے، کہ وہ اپنے بچوں کو ایمان سکھائیں اور دین سکھائیں۔ اللہ ، رسول ، قرآن ودیگر دینی شعائر کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کی محبت ان کے دلوں میں پیوست کردیں۔ ان کی زندگی میں دینی ویلیوز کو پروان چڑھائیں۔ یہی وہ چیز ہے جو مسلمان والدین کرناچاہتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سےان تمام چیزوں کے سامنے بدترین رکاوٹ اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ پر موجود دین بیزار مواد اور وہ ویڈیوگیمز ہیں جن میں دینی شعائر کی توہین کی جاتی ہے۔ اور ان کی محبت واہمیت کو غیر محسوس طریقے سے بچوں اور نئی نسل کے دلوں سے اتارنے کی باضابطہ کوشش بھی کی جانی چاہیے۔ سوشل میڈیا کے نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ ایسی تدابیر اور ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ہم اپنی ضرورت کی اس چیز کو استعمال تو کریں مگر اس کے بچوں پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچایا جا سکے۔ آج آپ دیکھیں دو سال کا بچہ موبائل اور لیپ ٹاپ کو کھول لیتا ہے اور ان میں اس جگہ تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی پسند کی تصویر، گیم یا ویڈیو پڑا ہو اہے۔ اس کی وجہ صاف ہے، اس بچے کو یہ سب آنکھ کھولتے ہی مل گیا اور اس کا استعمال اس نے والدین کی گود میں کھیلتے کھیلتے سیکھ لیا اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری والدین کی ہے کہ وہ بچوں کے ہاتھوں میں موبائل دینے سے پہلے اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آیا ان کے بچوں کو موبائل کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جا ئے کہ بچے موبائل کا استعمال کس طرح سے کر رہے ہیں؟ کس سے بات کر رہے ہیں؟ کیا بات کر رہے ہیں؟ بچوں کی غیر موجودگی میں ان کے موبائل کو دیکھیں کہ بچے موبائل فونز کا غلط استعمال تو نہیں کر رہے ہیں کیونکہ آج جو آپ کے بچوں کے پاس موبائل ہے خاص طور پر لڑکیوں کے پاس اور وہ عشقیہ سیریلز اور فلموں کو دیکھ رہی ہیں تو آپ مکمل طور سے ایکٹیو ہوجائیں اور بچوں کو بتائیں کہ یہ لوگ پیدائشی بے غیرت ہیں۔ جن کے لئے پیسہ ہی دین ایمان ہے۔ ٹک ٹاک پر فیمس ہونے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے واہیات کپڑے اور واہیات زبان پہلے ان لوگوں نے لیو ان ریلیشن شپ کو فروغ دیا۔۔اسکے بعد زندگی بھر چلنے والی شادیوں کی تقریبات اور اس میں برانڈز اور چیزوں کی پروموشن کے ساتھ لوگوں کو ان چیزوں کی طرف راغب کرنا جو ان کی حیثیت سے باہر ہے ۔۔صحیح اور غلط کا فرق ختم کرنا اور ماں باپ بہن بھائیوں کا ایک ساتھ مجرے کرنا ان کا پسندیدہ کام ہے کیونکہ یہ لوگ ماڈرن ہیں ۔
یہ لوگ اتنے ماڈرن ہیں کہ کسی عام شو میں بلالیں تو ان کے جسم کے پرایویٹ پارٹ صاف نظر آتے ہیں اپنی فضول کی ویڈیوز میں اپنے آپ کو دکھا دکھا کر حرام کا پیسہ کمانے کے بعد اب لوگوں کو حرام کاموں کی طرف راغب کر رہے ہیں
بچے ٹک ٹاکر اور یو ٹیوبر اس لئے بننا چاہتے ہیں کہ اس فیلڈ میں پیسہ بہت ہے۔ لیکن یہ پیسہ صرف اور صرف دکھا کر کمایا جاسکتا ہے۔ خود کی نمائش لگا دیں
اپنے گھر ۔بیڈ روم۔ ، بچوں کی ۔بیوی کی ۔ رشتے داروں کی۔۔ پیسہ کہی نہیں گیا لیکن ہم اور آپ محنت کرکے رزق حلال کما کر اپنے بچوں کو کھلا رہے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ان کے موبائل فونز میں ایک راؤنڈ لگا کر دیکھ لیں۔ ان کی سرچ ہسٹری دیکھ لیں۔
اپنے بچوں کو ان سوشل میڈیائی نوکروں سے بچا لیں۔۔ ورنہ کل آپ کا گھر۔ آپ کی زندگی۔ آپ کی پرسنل لائف اور آپ کا بیڈروم بھی کانٹینٹ بن کر دوسروں کے گھروں میں ہوگا۔
پہلے والدین سکھاتے تھے کہ گھر کی بات باہر نہ جائے ۔ آج بے غیرتیوں کی حد کردی ہے کہ الٹراساؤنڈ کی پہلی رپورٹ سے لیکر بچہ کی ڈیلیوری تک دکھائی جارہی ہےان کا بس نہیں چل رہا ہے ورنہ الف سے لے کر ے تک دکھا دیں سب ان لوگوں نے ذہن سازی شروع کردی ہے کہ پیسہ ہی مائی باپ ہے پیسہ پھینکو تماشہ دیکھو
فلسطین میں لوگوں کو مارا جارہا ہے نا۔ وہاں جان باقاعدہ لی جارہی ہے مگر ہمارے یہاں ضمیر مارے جارہے ہیں ۔ زندہ لوگوں کے دل مرگئے ہیں۔
ایسی دو کوڑی کی انٹر پاس لڑکیوں کے دو ملین فولور کیوں ہوتے ہیں کہ ان پاس ایک جسم ہے جسے کیش کروانا ان کو آتا ہے یہ وہ خواتین ہیں جن کی وجہ سے اچھے گھروں کی خواتین بھی ان ایپس پر کوئی کام نہیں کر سکتی۔ کیونکہ ٹک ٹاکروں کو تو لوگ باقاعدہ طوائفیں کہتے ہیں۔ جی ہاں وہی تو کہتے ہیں جو ان کو فالو کرتے ہیں۔
اب بس اس دن کا انتظار کریں کہ جب یہ لوگ سیکس کو پروموٹ کر رہے ہوں گے کیونکہ ہم اور آپ صرف یہ سمجھ کر نہیں بولیں گے کہ ہمارے بولنے سے کونسا اثر ہوگا ۔۔لیکن یہ لوگ وہ وہ کام کر جائیں گے کہ ہماری نسل پر اثر ہوگا۔
پوری دنیا میں یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر علم بانٹا جارہا ہے۔ ہنر بانٹا جارہا ہے۔ مگر ہمارے یہاں بے غیرتیاں بانٹ رہے ہیں ماڈرنزم کے نام پر ایک دوسرے کے لحافوں میں گھس کر ویڈیو بنانا۔۔
عورتیں بھی اور ان کے مرد بھی اپنے بچوں کو ان پیدائشی حرام خوروں سے بچائیں۔ اچھی چیزیں دکھائیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اچھے کاموں میں لگائیں۔ ہنر مند بنائیں۔ پوری دنیا کا علم ہے اس انٹرنیٹ کر مگر ہمارے بچے ٹک ٹاک کیوں دیکھتے ہیں کہ ان کو پتہ ہے کامیابی صرف ٹک ٹاکروں کو ملتی ہے۔پتہ نہیں ہمارے یہاں کسی فلم سٹار کسی ڈرامہ اسٹار کے تصوریں بنانا یا ان کے ساتھ کام کرنا کیوں شہرت اور برتری والا کام مانا جانا ہے میڈیا کانٹیکٹس کو یا کسی میڈیا میں کام کرنا صرف ایک پیشہ نہیں سمجھا جاتا۔ ایک غرور سمجھا جاتا ہے پتہ ہے کیوں ؟
کیونکہ میڈیا پیسہ دیتا ہے بے حساب دیتا ہے اور بے وقت دیتا ہے یہ انسٹاگرام پر بلاگرز کی تعداد کیوں بڑھ گئی ہے ۔۔پیسہ آرہا ہے۔
ایک فضول ویڈیو بنا لو ۔۔پارٹی ہورہی ہے ۔۔اگلے سال کا سوشل میڈیا سنسیشن کا لکس سٹائل ایوارڈ تمہارا۔ ڈرامے تمہارے پیسہ تمہارا شہرت تمہاری۔
پلیز ہوش کے ناخن لیں اپنی نسلوں کو بچائیں۔ یہ ناسور ہے جو ہمارے بچوں میں پھیل گیا تو ہم لاعلاج ہوجائیں گے اور وہ مضمون جو کچھ دن پہلے لوگوں کی نظروں سے گزری لڑکی! کاش تیرے باپ کا نمبر ہوتا۔۔اس طرح کے معاملات آۓ دن دیکھنے ، پڑھنے کو ملتے رہیں گے اور جس طرح محرر موصوف سواۓ افسوس کے کچھ نہ کرسکے یہی حال ہم سبھوں کا ہوگا اس پہلے کی ہم اپنی نسلوں کی تربیت صحیح ڈھنگ سے کر لیں،کیونکہ : سوشل میڈیا سے فحش مواد تک رسائی ہوتی ہے آپکے بچے کے پاس اسمارٹ فون ہو اور وہ بھی انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہو، تو فحش مواد تک رسائی ہونا لازمی امر ہے۔اور والدین اپنے بچوں کو معصوم سمجھ کر یہ انتہائی حساس معاملہ نظرانداز کردیتے ہیںَ۔ جو نہایت خطرناک ہے۔اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ذکر کیا گیا کہ ابتدا شاید بچہ گیم اور ویڈیوز کے چکر میں ان چیزوں کی طرف رجحان نہیں دیتا۔ لیکن باربار ایسی فحش چیزوں کے سامنے آنے پر بچے کا تجسس بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ اس پر ایک کلک کرلیتا ہے۔ ہوتا یہ ہیکہ انٹرنیٹ الگوریتھم اپنے اصول کے مطابق اس بچے کے سامنے اور بھی فحش مواد کھول کررکھنا شروع کر دیتاہے۔یہ فحش مواد اس بچے کی معصومیت کے لئے زہر قاتل بن جاتاہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بچہ ان غلط چیزوں میں پوری طرح دلچسپی لینے لگتا ہے۔ وہ ایسی چیزوں میں پڑجاتا ہے جو فحش اوراخلاق باختہ ہونے کے ساتھ طبعی عمر سے پہلے ہی اس میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والی ہوتی ہیں۔ یوں بچہ پختگی سے پہلے بالغ ہوجاتا ہے۔ اور زندگی میں مقصدیت کی تلاش چھوڑ کر تسکین نفس کے غلط راستے ڈھونڈنا شروع کردیتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا انتہائی دانشمندی سے استعمال کریں اور کروائیں کوشش کریں کہ اس کا استعمال ضرورت کے لئے ہی ہو اور زیادہ سے زیادہ وقت اپنے سماجی حلقے میں گزاریں۔ہم نے اگر ایسا نہیں کیا تو ہماری سماجی زندگی تو متاثر ہوگی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سماج کے کئی اہم ستون گر جائیں گے اور ترقی کے منفی اثرات مثبت پہلوؤں پر حاوی ہو جائیں گے۔آخر میں سب سے اہم بات اللہ کی طرف رجوع کا مشورہ ہے۔ اپنے بچوں کے لئے والدین اللہ سے خوب دعامانگیں۔ فتنوں کے اس زمانے میں دعاہی ایک مسلمان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی چیز گمراہ نہیں کرسکتی۔ اور جسے اللہ ہدایت نہ دے تو ابوجہل خانہ کعبہ میں پیدا ہوکربھی بدنصیب رہا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے مشکلات کو ہم سبھوں کےلئے آسان بنادے اور ہماری نسل کو ہدایت کے نور سے نوازے ۔
از۔۔محمد مکی القادری (گورکھپوری)