سو کر اٹھا اور تری نظر آئ تو ناپاک ہوگا یا نہیں

نیند سے بیدار ہونے پر نظر آنے والی تری کی صورتیں

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کوئی شخص سوتے سے جاگا اور تری کپڑے یا بدن پر پائی یا خواب دیکھا اور تری نہ پائی تو اس پر نہانا واجب ہوا یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

المستفتی:عبدالمالک یاقوت گنج فرخ آباد

الجواب بعون الملک الوہاب ۔

سونے کے بعد بیدار ہونے پر نظر آنے والی تری کے منی یا مذی نہ ہونے کا یقین ہے تو غسل واجب نہیں اگرچہ خواب یاد ہو اور اگر منی ہونا ثابت ہو تو غسل واجب ہے اور اگر منی ہونے کا احتمال ہو یا مذی ہونے کا علم ہو یا مذی نہ ہونا تو معلوم مگر مذی ہونے کا احتمال ہو پس اگر خواب یاد ہو تو بالاتفاق غسل واجب اور اگر خواب یاد نہ ہو تو احتمال منی اور علم مذی کی صورت میں بھی غسل واجب اور احتمال مذی کی صورت میں غسل واجب نہیں۔

خواب دیکھا مگر تری نہ پائی تو غسل واجب نہیں۔

فتاوی رضویہ میں ہے "یہاں چھ صورتیں ہیں اوّل تری کپڑے یا بدن کسی پر نہ دیکھی۔ دوم دیکھی اور یقین ہے کہ یہ منی یا مذی نہیں بلکہ ودی یا بول یا پسینہ یا کچھ اور ہے ان دونوں صورتوں میں مطلقاً اجماعاً غسل اصلا نہیں اگرچہ خواب میں مجامعت اور اس کی لذت اور انزال تک یاد ہو۔

غنیہ میں ہے”تذکر الاحتلام ولم یربللا لاغسل علیہ اجماعا”(غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی طہارۃ الکبرٰی،ص۴۳)

درمختار میں ہے” لا ان تذکر ولو مع اللذۃ والا نزال ولم یربلا اجماعا”

(الدرالمختار کتاب الطہارۃ ۱/ ۳۱)

سوم : ثابت ہو کہ یہ تری منی ہے اس میں بالاتفاق نہانا واجب ہے اگرچہ خواب وغیرہ اصلا یاد نہ ہو۔

فی ردالمحتاریجب الغسل اتفاقا اذاعلم انہ منی مطلقا۔(ردالمحتار کتاب الطہارۃ موجبات الغسل ۱ /۱۱۰)

اب رہیں تین صورتیں (٤) اُس تری کے منی ہونے کا احتمال ہو (٥) مذی ہونے کا علم ہو(٦) منی نہ ہونا تو معلوم مگر مذی ہونے کا احتمال ہو۔پس اگر خواب میں احتلام ہونا یاد ہے تو ان تینوں صورتوں میں بھی بالاتفاق نہانا واجب ہے۔

"فی رد المحتار یجب اتفاقا اذا علم انہ مذی اوشک مع تذکر الاحتلام اھ”(ردالمحتار کتاب الطہارۃ ۱ /۱۱۰)

اور اگر احتلام یاد نہیں تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ان تینوں صورتوں میں اصلا غسل نہیں وھو الاقیس وبہ اخذ الامام الاجل العارف باللّٰہ خلف بن ایوب والامام الفقیہ ابو اللیث السمرقندی کما فی الفتح وغیرہ۔

شکل اخیر یعنی ششم میں طرفین یعنی حضرت سیدنا امام اعظم وامام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی امام ابویوسف کے ساتھ ہیں یعنی جہاں نہ منی کا احتمال نہ مذی کا یقین بلکہ مذی کا احتمال ہے غسل بالاتفاق واجب نہیں فی رد المحتارلایجب اتفاقا فیما اذا شک فی الاخیرین (یعنی المذی والودی) مع عدم تذکر الاحتلام۔(ردالمحتار، کتاب الطہارۃ،۱/ ۱۱۰) اور شکل اول یعنی چہارم میں کہ منی کا احتمال ہو خواہ یوں کہ منی ومذی محتمل ہوں یا منی و ودی یا تینوں (اور ودی سے مراد ہر وہ تری کہ منی ومذی کے سوا ہو) ان سب صورتوں میں دونوں حضرات بالاتفاق روایات غسل واجب فرماتے ہیں۔فی رد المحتار یجب عندھما فیما اذا شک فی الاولین (ای المنی والمذی) اوفی الطرفین (ای المنی والودی)اوفی الثلثۃ احتیاطا ولا یجب عند ابی یوسف للشک فی وجود الموجب۔(ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، ١/ ۱۱۰)

(فتاوی رضویہ،ج١،ص٦٢٤ تا٦٣٢)۔

واللہ تعالی اعلم

 کتبہ : مفتی شان محمدالمصباحی القادری

١٥جون٢٠٢١

Leave a Reply