شوہر بیوی سے کتنے دن تک الگ رہ سکتا ہے ؟
سوال : ایک شادی شدہ شوہر اپنی بیوی کو گھر چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ ممبئی میں دنیاوی زندگی گزارنے کی غرض سے ، روپیہ پیسہ کمانے کے لئے رک جاتا ہے، تو شوہر کو شرعی احکام کے مطابق زیادہ سے زیادہ کتنے دن دور رہنے کی چھوٹ ہے ۔ اگر شوہر ایک یا دو سال کے بعد گھر آتا ہے تو اس دوران اگر بیوی گناہ کی مرتکب ہوتی ہے تو کیا شوہر کو گناہ نہیں پڑے گا؟ اور اگر گناہ پڑتا ہےتو وہ گناہ کبیرہ ہوتا ہے، یا گناہ صغیرہ اور اس کی شرعی سزا کیا ہوگی؟
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حاشیہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:
عورت کو چھوڑ کر سفر پر جانا اگر کسی ضرورت سے ہو تو اس سفر کی کوئی حد مقرر نہیں جس قدر میں ضرورت پوری ہو، ہاں ضرورت پوری ہونے کے بعد تعجیل مامور ہے ۔ اور اگر بےضرورت ہو تو چار ماہ سے زائد ہرگز سفر پر نہ ٹھرے ۔ حضرت امیرالمومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی کا حکم فرمایا ۔ ص: 568، ج :5
روپیہ پیسہ کمانا کوئی ایسی ضرورت نہیں جو سال دو سال میں پوری ہو ۔ عام مزدوروں کو ایک دو روز میں اور ملازمین کو ماہ بماہ تنخواہ ملتی رہتی ہے ۔ ممبئی والے ہر چار ماہ پر ایک دو روز کے لیے گھر آسانی کے ساتھ آ سکتے ہیں تو یہ لوگ سال دو سال تک اپنی بیوی سے علیحدہ رہنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے، بیوی گناہ میں ملوث ہوئی تو یہ بھی اس کے گناہ میں شریک قرار پائیں گے ۔
مردوں کو حکم ہے: اسكنوهن من حيث سكنتم: بیویوں کووہیں رکھو جہاں تم رہتے ہو، نیز ارشاد باری تعالی ہے : يآ ايها الذين امنوا قوآ أنفسكم واهليكم نارا ۔
والله تعالى اعلم بالصواب
کتبــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور