انتقال کے دوسرے دن تیجہ اور چوتھے دن چالیسواں کرنا کیسا ہے ؟

انتقال کے دوسرے دن تیجہ اور چوتھے دن چالیسواں کرنا کیسا ہے ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل میں کسی شخص کا انتقال ہوا اور اس کے انتقال کے دوسرے روز ہی اس کے سوئم کی فاتحہ دے دی جاتی ہے اور پھر مرنے کے چوتھے دن چالیسواں کی فاتحہ بھی دے دی جاتی ہے کیا ایسا کرنا درست ہے؟ مرنے کے بعد سوئم کی فاتحہ کتنے روز کے بعد ہونا چاہیے اور چالیسویں کی فاتحہ کب دلوانا چاہیے؟بینوا و توجروا ۔

الجوابــــــــــــــــــــــــــ

انتقال کے بعد خاص کر تیسرے دن سوئم دسویں دن دسواں اور چالیسویں دن چالیسواں کرنا ایک رسمی بات ہے. مردہ ڈوبتے ہوئے آدمی کی طرح ہوتا ہے اسے مدد کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے جتنی جلدی ہو سکے اسے ثواب پہنچایا جائے تو بہتر ہے. حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں ” اموات مسلمین کو ایصال ثواب قطعاً مستحب. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ ” اور یہ تعینات عرفیہ ہیں. ان میں اصلا حرج نہیں جبکہ انہیں شرعاً لازم نہ جانے نا یہ سمجھے کہ انہیں دنوں ثواب پہنچے گا آگے پیچھے نہیں ۔ فتاوی رضویہ جلد چہارم صفحہ 219
اور فقیہ اعظم ہند حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ والرضوان تحریر فرماتے ہیں ” فاتحہ خوانی کے لئے وقت مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ بغیر تعیین وقت لوگوں کو دقت ہو گی مگر یہ ضروریات شرع نہیں بلکہ تخصیص عرفی ہے فتاوی امجدیہ جلد اول صفحہ 347
لہذا انتقال کے دوسرے دن سوئم اور چوتھے دن چالیسواں کے نام پر ثواب کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ۔
واللہ تعالی اعلم

کتبہ : مفتی جلال الدین احمد الامجدی
ماخوذ از فتاویٰ فقیہ ملت صفحہ 282

Leave a Reply