شئر بازار میں کاروبار کرنا کیسا ہے از مفتی محمود اختر القادری

شئر بازار میں کاروبار کرنا کیسا ہے از مفتی محمود اختر القادری

سوال:۔ میں شیئر بازار میں کاروبار کرنا چاہتا ہوں، اس کارو بار میں فائدہ و نقصان دونوں ہے ، غیر مسلم کمپنی کا بھی شیئر ہوتا ہے ، چونکہ شیئر بازار کا کاروبار سود یا کسی فائدہ سے ہوتاہے لہٰذا بتایئے کہ یہ کاروبار میں کرسکتا ہوں یا نہیں؟

٭ ہمیں گھر کے لئے لون لینا ہے اور گھر لے کر اس میں رہنا ہے یا کرایا دینا ہے ،حکم شرع سے آگاہ فرمائیں ۔

المستفتی: ناصر حسن، لکی کمپائونڈ بائیکلہ ممبئی۔


الجواب بعون الملک الوھاب:۔

کمپنی کے حصص کو شیئرز کہتے ہیں اور کسی بھی کمپنی کی حصہ داری دراصل اس کمپنی کی شرکت ہے اور کمپنیاں عموما ًسودی کاروبار کرتی ہیں ۔ان میں سودی لین دین ہوتا ہے اور شیئر ہولڈر (حصہ دار) اس کمپنی کا شریک ہوتا ہے ، لہٰذا وہ کمپنی کے سودی کاروبار اور سودی لین دین میں شریک ہوا اسی لئے فقہائے کرام نے شیئر خرید نے سے منع فرمایا ہے کہ کمپنی سے مشارکت فتحِ بابِ معصیت ہے اس لئے ناجائز ہے۔ ویسے بعض علما نے کمپنی کے مساواتی حصص یعنی ایکویٹی شیرز(Equity Shares)کی اجازت دی ہے مگر محتاط علمائے کرام نے اس کو بھی ناجائز کہا ہے ۔ لہٰذا ترجیحی حصص یعنی پریفرینس شیرز کی طرح مساواتی حصص یعنی ایکویٹی شیرز بھی نہ لئے جائیں۔

٭ یہاں کے کفار حربی ہیں یہ اپنی مرضی سے جو زائد رقم قرض وغیرہ پر دیں اس کا لینا جائز ہے کہ وہ زیادتی شرعا سود نہیں کیونکہ حدیث شریف میں ہے ’’لاربوا بین المسلم و الحربی فی دار الحرب‘‘ مسلمان اور حربی کافر کے درمیان سود نہیں ،لہٰذا ان سے زیادتی لینا مسلمان کو جائز وحلال اور کافروں سے رقم لے کر انہیں اس سے زائد دینا ناجائز کہ حربی کو نفع پہنچانا ہے جس کی شرعا اجازت نہیں ، مکان وغیرہ کے لئے لون لینے کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ اس میں بھی اصل رقم سے زائد کافر کودینا ہوگا اور اگر مسلم بینک سے لون لے تو اس پر زائد رقم دینا کھلا ہوا سود ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔ ہاں! اگر بینک خود مکان فروخت کرے اور اس مکان کی قیمت زیادہ لگائے جو قسطوں میں ادا کرنی ہوتو زائد قیمت پر مکان وغیرہ خریدنا جائز ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم ۔


Leave a Reply