مدرسے کا اکاؤنٹ ہوتے ہوئے بھی اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں پیسہ ڈلوانا کیسا ہے ؟

مدرسے کا اکاؤنٹ ہوتے ہوئے بھی اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں پیسہ ڈلوانا کیسا ہے ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
(1) ایک مولوی صاحب ہیں جو اپنے آپ کو مفتی بھی کہلواتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں مسجد کے لیے کچھ جگہ الاٹ کرنے جموں جا رہا ہوں مجھے پانچ ہزار روپے دیے جائیں کمیٹی والوں نے دے دیئے ۔ وہاں جا کر یہ کہا کہ ہمارا مدرسہ اسلامیہ تعلیم القرآن مقروض ہے ۔

لہذا اوقاف سے مدد کی جائے انہوں نے علاقائی اوقاف اسلامیہ کو آرڈر جاری کیا اور مقامی اوقاف سے پچاس ہزار روپے مدرسے کے نام سے حاصل کیے اور مدرسے کا اکاؤنٹ ہوتے ہوئے بھی اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں ڈلوائے ۔

(2) مدرسہ جو اہل سنت والجماعت مسلک اعلی حضرت کے ماننے والوں کا علاقائی سطح کا ایک اہم مرکز ہے اور تمام اراکین کمیٹی خوش عقیدہ سنی مسلمان ہیں اس کے باوجود کمیٹی کے صدر کو رافضی کہا جبکہ انہیں کے ذریعے تنخواہ بھی لیتے ہیں ۔

(3) کمیٹی کے کچھ افراد کے لیے کہتے ہیں کہ یہ منافقین کا ٹولہ ہے ۔

(4) کمیٹی کے افراد سے اور بعض مقتدی حضرات سے نہایت بدتمیزی اوربدسلوکی سے پیش آتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیا ہے ۔

(5) جب کمیٹی والے حضرات آڈٹ کے لئے کہتے ہیں تو قسم قسم کے حیلے بہانے اور گروہ بندی کے ہتھکنڈے اپنا نے لگتے ہیں ۔

(6) پورے علاقے میں نسلی قومی اور لسانی تعصب کے لیے مشہور ہیں بائیں وجوہ جب کمیٹی والوں نے باعزت طریقے سے کہا کہ آپ یہاں سے تشریف لے جائیں اور آپ کے جو معاملات ہمارے ذمہ ہیں ہم وہ ادا کر دیتے ہیں اس پر وہ داداگیری دکھانا شروع کر دیتے ہیں ۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے شخص کی اقتدا میں نماز کا کیا حکم ہے اور ایسا شخص مفتی کہلانے کا اہل ہے یا نہیں۔
بینوا و توجروا ۔

المستفتین: انتظامیہ کمیٹی غوثیہ جامع مسجد و مدرسہ اسلامیہ تعلیم القرآن نزد شیپ ہسبنڈری ، اڑی، مینڈھر پونچھ

بذریعہ محمد سلیم خان چیئرمین کمیٹی

باسمه تعالى وتقدس

الجواب بعون الملك الوهاب

(۱) مقامی اوقاف نے مدرسہ کی امداد کے لیے جو رقم دی ہے وہ مولانا صاحب کے پاس امانت ہے،مدرسہ میں پہنچانا ضروری ہے اس میں کسی طرح ذاتی تصرف جائز نہیں ۔

فتاوی فیض الرسول میں ہے

"مدرسہ کے ذمہ داران کو بھی مدرسہ کی رقم قرض دینا جائز نہیں ۔ کہ وہ مدرسہ کی رقم کو اس کی ضروریات پر خرچ کرنے کے مالک ہوتے ہیں صدقہ کرنے کے مالک وہ بھی نہیں ہوتے ”

(ج ۲ ص۶۳۹/ناشر شبیر برادرز،اردو بازار لاہور)

(۲) جو شخص کسی مسلمان سنی صحیح العقیدہ کو رافضی یا منافق کہے تو اس پر شرعا تعزیر ہے لیکن یہاں چونکہ اسلامی حکومت نہیں اسلئے اسے کون سزا دیےسکتا ہے ایسا شخص حق العبد میں گرفتار ہے اسےچاہیے کہ جن مسلمانوں کے بارے میں ایسے نازیبا کلمات کہا ہے ان سے معافی مانگے ۔

بہار شریعت میں ہے

"رافضی،بدمذہب،منافق،زندیق،
یہودی، نصرانی،نصرانی بچہ،کافر بچہ کہنے پر بھی تعزیر ہے یعنی جبکہ سنی کو رافضی یا بدمذہب یا بدعتی کہا” ۔

(ج ۲ ح ۹ ص ۴۰۹/مكتبة المدينة دعوت اسلامى)

(۳) اس کا جواب سوال ۲ میں گزر چکا ہے

(۴) کسی مسلمان کے ساتھ بدسلوکی وبدتمیزی کے ساتھ پیش آنا اسے اذیت دینا ہے اور کسی مسلمان کو اذیت دینا حرام ہے ۔

حدیث پاک میں ہے"من آذی مسلما فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللہ”

(المعجم الأوسط/الطبراني/ج۴ ص۶۱/المكتبة الشيعية)

امام صاحب کو ایسی رذیل حرکتوں سے باز آنا چاہیے ۔

فتاوی امجدیہ میں ہے

"عالم تو عالم کسی عام مسلمان کو ذلیل کرنا اور اس کی توہین حرام ہے حدیث میں ارشاد فرمایا "من آذی مسلما فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللہ”(ج۴ ص ۱ تا۲/ناشر دائرةالمعارف الامجدیہ-گھوسی-مئو)

مولانا صاحب کو لوگوں نے مدرسہ کی امداد کے لئے جو رقم دی ہے وہ انہیں ذمہ داران کے حوالے کرنا چاہیے نہ کہ حیلے بہانے کرنے چاہیے کیوں ان کے پاس وہ رقم ایک امانت ہے اور امانت میں خیانت حرام ہے ۔

(۶) کسی مسمان کو کسی پر نسب کے اعتبار سے فضیلت حاصل نہیں بلکہ علم،تقوی اور پرہیز گاری کی بنیاد پر ہے اور مسلمان چونکہ آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لیے ان میں پھوٹ ڈالنا جائز نہیں ۔

امام صاحب کو ایسی لایعنی باتوں سے بچناچاہیے۔

اگر سوال میں مذکور باتیں واقعی ہیں تو جب تک امام صاحب ان سے توبہ کرکے باز نہ آجائیں ان کی اقتدا میں نماز جائز نہیں ۔ ایک عالم دین اور مفتی کو اسطرح کی لایعنی باتیں اور رذیل حرکتیں ،زیب نہیں دیتیں ۔

اگر سوال میں مذکور باتیں امام صاحب پر بلا تحقیق اتھام کی بنیاد پر یا بد گمانی کی بنا پر ہیں ۔تو امام صاحب پر بد گمانی ہے اور مسلمان پر بدگمانی حرام ہے ۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب

کتبہ محمدارشاد رضاعلیمی غفرلہ،پلانگڑ تھنہ منڈی راجوری جموں وکشمیر ٧/ذی الحجہ ۱۴۴۱ھ مطابقّ٢٩/جولائی ۲۰۲۰ء

الجواب صحیح
محمد نظام الدین قادری خادم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی ٧/ذی الحجہ 1441ھ

Leave a Reply