شمع نیازی فرقہ کے عقائد و نظریات اور نماز سے متعلق چند کفری اقوال کی تردید

شمع نیازی فرقہ کے عقائد و نظریات اور نماز سے متعلق چند کفری اقوال کی تردید

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔۔

کیا فرماتے ہیں علماے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زید کہتا ہے کہ قرآن کریم میں نماز قائم کرنے کا حکم آیا ہے ، پڑھنے کا نہیں ” اقیموا الصلوۃ آیا ہے، اقرؤا الصلوۃ ” نہیں ، اور زید یہ بھی کہتا ہے کہ نماز مؤمنین پر فرض ہے ، مسلمانوں پر نہیں کہ قرآن میں ہے سورہ نساء آیت نمبر ۱۰۳ ” ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا ” ۔ نیز یہ بھی کہتا ہے کہ جب دل حاضر ہی نہیں تو نماز کیسی ، حدیث میں آیا ہے ” لا صلوۃ الا بحضور القلب ” ۔

زید کی باتیں سن کر کچھ دوسرے لوگ بھی یہی باتیں بولنے لگے اور کچھ لوگوں نے ان باتوں کو سن کر نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیا اور جو انسان زید کے قریب ہوتا ہے وہ نماز سے دور ہوجاتا ہے جبکہ زید غوث وخواجہ کا عقیدت مند ، درود وفاتحہ، نیاز و چادر چڑھانے والا ہے۔

1 ۔ اس طرح کی باتیں بولنا کیسا ہے؟

2 ۔ کیا ان باتوں سے نماز کی فرضیت کا انکار ہوتا ہے؟

3 ۔ کیا یہ شمع نیازی فرقہ کا عقیدہ ہے ؟ اگر یہ شمع نیازی فرقہ کا عقیدہ ہے تو اس فرقے کے کون کون سے کفریہ عقائد ہیں جن کی وجہ سے علماء اہل سنت نے کفر کا فتویٰ دے کر بد مذہبی کا حکم فرمایا ؟

4 ۔ کیا اس طرح کی بولی بولنے والے کے پاس اٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا، شادی بیاہ میں دعوت دینا ، دعا سلام کرنا جائز ہے؟

5 ۔ کیا قوم مسلم پر زید کا بائیکاٹ کرنا واجب نہیں؟

6 ۔ کیا دل میں ایمان رکھنے سے نماز قائم کرنا ثابت ہوجائے گا؟ ایسا کہنا کیسا ہے؟

7 ۔ کیا اچھی بات کا حکم دینا اور بری بات سے روکنا اور رکنا کا نام نماز قائم کرنا ہے؟

برائے مہربانی ان سوالات کے جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں دے کر ممنون و مشکور فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔۔

المستفتی : حافظ تعریف رضا ۔۔۔ کوٹہ، راجستھان ۔۔۔۔

الجواب بعون اللہ الوھاب

وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

سوال میں مذکور زید کے اقوال نہایت شنیع اور مبنی برکفر وضلالت ہیں، زید بے قید گمراہ و بےدین ہے، اس کے ان اقوال سے نماز جس طرح سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ، تابعین اور جملہ اسلاف کرام سے ثابت ہے اس کا انکار ضرور ثابت ہوتا ہے،جو دراصل ان تمام آیات وأحاديث کا انکار ہے جن سے مخصوص ہیئت کے ساتھ نماز کی فرضیت ثابت ہوتی ہے، وہ کافر ومرتد ہے، اس کے پاس اٹھنا بیٹھنا، اس سے کسی بھی طرح کا تعلق رکھنا ناجائز وحرام ہے، اس کا شرعی بائیکاٹ مسلمانوں پر لازم ہے.

قرآن مجید میں ہے :

وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (الانعام :68)

حدیث شریف میں ہے :

لا تجالسوھم ولا تؤاکلوھم ولا تشاربوھم و اذا مرضوا فلاتعودوھم واذا ماتوا فلا تشھدوھم ولا تصلوا علیہم ولا تصلوا معھم[کنزالعمال باب فضائل صحابہ ،موسسۃ الرسالہ بیروت، ۱۱/ ۴۲،۴۰،۵۲۹]

اب سوال میں مذکور گمراہ کن اقوال سے متعلق کچھ تفصیل پیش ہے:

زید کا یہ کہنا کہ قرآن مجید میں نماز قائم کرنے کا حکم آیا ہے پڑھنے کا نہیں تو یہ اس کی جہالت وضلالت ہے، اب تک تمام امت کا اس پر اجماع رہا ہے کہ "اقامت صلوۃ” کا معنی "اداے صلوۃ” ہے، چنانچہ تفسیر طبری میں "یقیمون الصلوۃ” کی تفسیر میں ہے:

"واقامتھا اداءھا بحدودھا وفروضھا والواجب فیھا، علی مافرضت علیھم کما یقال:أقام القوم سوقهم اذا لم یعطلوھا من البیع والشراء فیھا”

جلالین شریف میں ہے :

"فاقیموالصلوۃ. ادوھا بحقوقھا”.

تفسیر بغوی میں ہے:

"فاقیمواالصلوۃ ای اتموھا اربعا بارکانھا”.

تفسير ابن کثیر میں ہے:

"فاقیمواالصلوۃ ای فاتموھا واقیموھا کما امرتم بحدودھا وخشوعھا وسجودھا ورکوعھا وجمیع شوونھا”.

ان تمام مستند کتب تفسير میں "اقامت صلوۃ” کا معنی نماز کو اس کے ارکان، حقوق، اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا بتایا گیا ہے، اس لئے زید کا یہ کہنا کہ نماز پڑھنے سے مراد نماز کا قائم کرنا مراد ہے ادا کرنا نہیں محض سفاہت و نادانی ہے جو جمہور مفسرین کی تصریح وتفسیر کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے.

زید کا یہ کہنا کہ نماز مومنین پر فرض ہے مسلمانوں پر نہیں یہ غلط اور باعث ضلالت ہے، جمہور علماے اہل سنت اور اہل حق متکلمین کے نزدیک حکم اور مصداق کے اعتبار سے مومن اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں،اور کوئی ایسا مسلم نہیں جو مومن نہ ہو یوں ہی کوئی ایسا مومن نہیں جو مسلم نہ ہو، چنانچہ قرآن مجید میں ہے :

إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ [ آل عمران:١٩]

ارشاد ہے :

: وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ (آل عمران:٨٥)

مزید ارشاد ہے :

وَقَالَ مُوسَى يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُواْ إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ[يونس:٨٤]

ارشاد ہے:

فَأَخْرَجْنَا مَن كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ [ الذاريات:٣٥-٣٦]

شرح عقائد میں ہے:

"والایمان والاسلام واحد” لان الإسلام ھوالخضوع والانقیاد بمعنی قبول الاحکام والاذعان وذالک حقیقۃ التصديق علی ما مر.

وبالجملۃ لا یصح فی الشرع الحکم علی احد بانہ مومن ولیس بمسلم او مسلم ولیس بمومن، ولا نعنی بوحدتھما سوی ھذا……. فالایمان لا ینفک عن الإسلام حکما فلا یتغایران ومن اثبت التغایر یقال لہ ما حکم من آمن ولم یسلم او اسلم ولم یومن؟

فان اثبت لاحدھما حکما لیس بثابت للآخر منھما فبھا ونعم والا فقد ظھر بطلان قولہ”.(ص ١٢٠)

اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان اور مومن میں کوئی فرق نہیں.

مذکورہ نصوص سے ثابت ہوا کہ” تکلیف شرعی” میں ایمان واسلام میں کوئی فرق نہیں، ہاں کچھ اہل علم وتحقيق دونوں میں مفہوم کے اعتبار سے فرق کرتے ہیں کہ ایمان سے مراد باطنی اعمال اور اسلام سے مراد ظاہری افعال ہیں، مگر اس سے ہمارے دعویٰ پر کچھ فرق نہیں پڑے گا.

رہا زید کا یہ کہنا کہ جب دل حاضر ہی نہیں تو نماز کیسی اور دلیل کے طور پر اس کا حدیث رسول علیہ السلام "لا صلوۃ الا بحضور القلب” پیش کرنا یہ بھی اس کی لاعلمی اور گمرہی کی بین دلیل ہے، تمام شارحین حدیث کے نزدیک اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ کامل نماز حضور قلب یعنی خشوع و خضوع کے بغیر نہیں ہے، یہ مطلب نہیں کہ اگر حضور قلب نہ ہو تو نماز ہی نہ پڑھی جائے،اسی لئے فقہاے کرام نے نماز میں خشوع و خضوع کو مستحب قرار دیا ہے.

قرآن مجید میں ہے :

حٰـفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا للہ قٰـنِتِيْنَo

(البقرة، 2/ 238)

سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو۔

مزید ارشاد ہے :

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰـشِعُوْنَo

(المومنون، 23/ 1-2)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بىشک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز مىں گڑ گڑاتے ہىں۔

ان آىاتِ مبارکہ کے تحت مفسر قرآن حضرت علامہ سید محمد نعىم الدىن مراد آبادى علیہ الرَّحمہ فرماتے ہىں:

” ان کے دلوں مىں خدا کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضائے ساکن ہوتے ہىں، بعض مقربىن نے فرماىا کہ نماز مىں خشوع ىہ ہے کہ اس مىں دل لگا ہوا اور دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو اور نظر جائے نما ز سے باہر نہ جائے اور گوشہ چشم سے کسى طرف نہ دىکھے۔

مزید یہ بھی ہے :

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِکْرِ ﷲِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَآءِ الزَّکٰوةِ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُo

(النور، 24/ 37)

(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔

حدیث شریف میں ہے :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُولَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي هٰهُنَا، فَوَﷲِ، مَا يَخْفٰی عَلَيَّ خُشُوعُکُمْ وَلَا رُکُوعُکُمْ، إِنِّي لَأَرَاکُمْ مِنْ وَرَائِ ظَهْرِي.

(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب صفة الصلاة، باب عظة الإمام الناس في إتمام الصلاة وذکر القبلة، 1/ 161، الرقم/ 408)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ میرا رخ اس قبلہ کی طرف ہے؟ اللہ کی قسم! مجھ پر تمہارا خشوع پوشیدہ ہے نہ رکوع۔ بے شک میں تمہیں اپنی پشت کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔

دوسری حدیث میں ہے :

عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ عُثْمَانَ فَدَعَا بِطَهُوْرٍ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَا مِنَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَـلَاةٌ مَکْتُوْبَةٌ، فَيُحْسِنُ وُضُوْئَ هَا، وَخُشُوْعَهَا، وَرُکُوْعَهَا إِلاَّ کَانَتْ کَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنَ الذُّنُوْبِ مَا لَمْ يُؤْتِ کَبِيْرَةً وَذٰلِکَ الدَّهْرَ کُلَّهُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حُمَيْدٍ وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَالْبَزَّارُ.

(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب فضل الوضوء والصلاة عقبه، 1/ 206)

امام اہل سنت ،اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

نماز کا کمال، نماز کا نُور، نمازکی خُوبی فَہَم وتَدَبُّروحُضُورِقلب(یعنی خشوع) پر ہے ْ(فتاوٰی رضویہ ج ۶ ص ۴۰۵)

مذکورہ دلائل سے ثابت ہواکہ حضور قلب نماز کے لئے نہ تو شرط ہے نہ شطر، نہ ہی واجب، ہاں مستحب ہے، جس کا ترک مکروہ ہے.

اب مستفتی کے سوالات کے جوابات حاضر ہیں

١ -اس طرح کی باتیں بولنا کفر وضلالت ہے.

٢ -اس طرح کی باتوں سے ضرور نماز کی فرضیت کا انکار ہوتا ہے.

٣ -مجھے معلوم نہیں، ہاں عہد رسالت سے لے کر اب تک اس طرح کی جاہلانہ باتیں شمع نیازی فرقہ والوں نے ہی کی ہیں، اس فرقہ کے کفریہ عقائد بہت ہیں، چند عقائد یہ ہیں :

خدا دھوکا باز، وعدہ خلاف، لمپٹ باز، اندھیر نگری کا راجہ، کائنات کا مجموعہ۔ رسول عربی صحابی کے کہنے پر حق چھپانے والے ، انبیا دل پھینک عاشق، چکمہ باز، محرم کی پنڈلی کو تاک جھانک کرنے والا، صحابی پیٹو، گناہوں کا خوگر، لڑکیوں کو دیکھ کر رسول عربی کو چھوڑنے والا، نبی کا دین اجاڑنے والا،من مانی شریعت والا، قرآن سلیمان و بلقیس کی عشقیہ داستان، یوسف و زلیخا کی پیار کی کہانی، ردو بدل شدہ، شک و شبہ والا،غیر محفوظ، احادیث غیر معتبر، جھوٹی ، ملاوٹ سے بھر پور، علما فتنہ پرور، بے جا فتوے باز، جھگڑالو، غنڈہ، دین کی حقیقت سے نا آشنا، دین بگاڑنے والے، روزہ بھوک مری نیکی سے خالی، عبادت نہیں، نماز کسرت ہے، عبادت نہیں، ثواب سے خالی جس میں حسن یوسف و زلیخا کی عیاشیوں کی داستان پڑھی جاتی ہے، جنت کوئی حقیقت نہیں، جنت کا کوئی وجود نہیں، دل بہلانے کے لیے صرف خیالی خاکہ، ملائکہ کوئی وجود نہیں، کعبہ قبر آدم ہے، قبلہ عبادت نہیں۔ نعوذباللہ من ذالک(فتاوٰی شارح بخاری ج سوم ص ٥٢٨)

ان عقائد کے تعلق سے شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

"شمع نیاز ی فرقے کے جو عقائد باطلہ فاسدہ سوال میں درج ہیں ان میں تقریباً کل کے کل صریح، قطعی، یقینی،اجماعی کفر ہے، ضلالت و گمراہی سے خالی کوئی نہیں۔ان میں اللہ عزوجل اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی کھلی ہوئی توہین و تنقیص اور تذلیل ہے، اور ضروریات دین کا انکار ہے، جس کی وجہ سے شمع نیازی بلا شبہ یقیناً حتما کافر و مرتد ہے اور جو اس کے عقائد کفریہ پر مطلع ہونے کے بعد اس کو بزرگ اور پیشوا مانے وہ بھی یقیناً حتما کافر و مرتد ہے،بزرگ پیشوا ماننا بڑی بات ہے، اس کو مسلمان ماننا بلکہ اسے کافر نہ جاننا کفر ہے۔

الاشباہ والنظائر در مختار، شفا شریف اور اس کی شروح میں تصریح ہے:

من شک فی کفرہ و عذابہ فقدکفر

جو ایسے کو کافر ہونے اور مستحق عذاب ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ۔(فتاویٰ شارح بخاری جلد سوم ص ١٢٨-٢٩)

٤ -ایسا شخص مرتد وبے دین ہے، اس لیے اس کے پاس اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، شادی کرنا، دعوت دینا اور سلام کرنا ناجائز وحرام ہے،دلیل اوپر گزر چکی.

٥ -بلا شبہہ ایسے شخص کا بائیکاٹ کرنا واجب ہے تا کہ دوسرے مسلمان اس کی گمراہی سے متاثر نہ ہوں اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہو.

٦ -نبی کریم علیہ السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تمام اسلاف عظام کا اس امر پر اجماع رہا ہے کہ نماز کا تعلق محض دل سے نہیں ہے، بلکہ اعضا وجوارح سے بھی ہے، نماز کے ارکان وواجبات محض قلب سے ادا نہیں ہوسکتے، اس کے لیے قلب کے ساتھ ظاہری اعضا کو بھی استعمال میں لانا لازم ہے.

قرآن مجید میں ہے :

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ()

ترجمہ: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :

كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب ()

تفسیر قرطبی میں اس کے تحت ہے:

"قوله تعالى : كلا لا تطعه واسجد واقترب كلا أي ليس الأمر على ما يظنه أبو جهل .

لا تطعه أي فيما دعاك إليه من ترك الصلاة .

واسجد أي صل لله واقترب أي تقرب إلى الله” .

مزید ارشاد ہے :

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ ()

تفسیر طبری میں اس آیت کے تحت ہے:

” القول في تأويل قوله : يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ (43)

قال أبو جعفر: يعني جل ثناؤه بقوله – خبرًا عن قِيل ملائكته لمريم: ” يا مريم اقنتي لربك ". أخلصي الطاعة لربك وحده”

خود نبی کریم علیہ السلام سے مروی ہے :

صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ أُصَلِّیْ․ (صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر اذا کانوا جَماعة، والاقامة الخ، ص:۸۸، ج:۱، قدیمی: کراچی)

یعنی نماز میری طرح پڑھو اور یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے محض دل سے نہیں بلکہ قیام، رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز ادا فرمائی ہے. کما نطقت بہ الأحاديث والآثار.

اس طرح کا قول کرنے والا متعدد آیات وأحاديث کا منکر ہونے کی وجہ سے کافر ومرتد ہے.

٧ -ہرگز نہیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر الگ عمل ہے اور نماز الگ، جیسا کہ متعدد آیات وأحاديث سے ثابت ہے، اس لیے اس طرح کا قول نماز کے متوارث واجماعی مفہوم کا انکار ہے جو صریح کفر ہے.

واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی

/١٧ستمبر ٢٠٢١

١٠/صفر المظفر ١٤٤٣ھ

الجواب صحیح : محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

Leave a Reply