شادی سے پہلے منگیتر سے بات کرنا کیسا ہے ؟
نکاح سے پہلے کسی اجنبیہ سے بات کرنے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسٔلہ میں کہ زید ہندہ سے سچی محبت کرتا ہے لیکن ابھی شادی کا کوئ ارادہ نہیں ۔ قریب دس سال بعد شادی کریگا ۔ تو کیا زید ہندہ سے بات کر سکتا ہے ۔ اس مسٔلہ میں رہنمائ فرماکر عند اللہ ماجور ہوں ۔
فقط والسلام ۔
محمد نعمان بختیار
سرس کھیڑہ مرادباد
الجواب بعون الملک الوھابــــــــــــ
زید کا جب تک ہندہ سے نکاح نہ ہو جائے اس کے حق میں ہندہ اجنبیہ ہے اور بلا حاجت اجنبیہ سے بات چیت کرنا ناجائز ہے ۔ ہاں! اگر کوئی سن رسیدہ بوڑھی عورت سلام کرے تو اس طرح جواب دے کہ وہ بھی سنے ۔ یوں ہی اگر کسی بوڑھی اجنبیہ عورت نے چھینک آنے پر الحمد للہ کہا تو جواب میں"یرحمک اللہ” کہے ۔ لیکن جوان اجنبیہ عورت کے سلام یا چھینک کا زبانی جواب اس کو سنا کر دینے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے :
{ إنَّ السَّمْعَ وَالبَصَرَ والفُؤادَ كُلُّ أُولئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولاً } [ الإسراء : ٣٦]
حدیث شریف میں ہے :
وعن أَبي هريرة – رضي الله عنه أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم، قَالَ : (( كُتِبَ عَلَى ابْن آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِكُ ذَلِكَ لا مَحَالَةَ : العَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ ، وَالأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الاسْتِمَاعُ، وَاللِّسَانُ زِناهُ الكَلاَمُ، وَاليَدُ زِنَاهَا البَطْشُ، وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الخُطَا، والقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى، وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الفَرْجُ أَوْ يُكَذِّبُهُ )). متفق عَلَيْهِ. هَذَا لفظ مسلمٍ”
(ریاض الصالحين للنووی (٢/٢٢٨)
درمختار مع ردالمحتار میں ہے :
"ولايكلم الأجنبية إلا عجوزاً عطست أو سلّمت فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا”
(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزاً بل شابةً لا يشمّتها، ولا يرد السلام بلسانه.(٦/ ٣٦٩)
اگر عورت اجنبیہ نے مرد کو سلام کیا اور وہ بوڑھی ہو تو اس طرح جواب دے کہ وہ بھی سنے اور وہ جوان ہو تو اس طرح جواب دے کہ وہ نہ سنے” (بہار شریعت ح ١٦ص ۴٦۴)
اسی میں ہے:
"عورت کو چھینک آئی اگر وہ بوڑھی ہے تو مرد اس کا جواب دے، اگر جوان ہے تو اس طرح جواب دے کہ وہ نہ سنے ۔ مرد کو چھینک آئی اورعورت نے جواب دیا، اگر جوان ہے تو مرد اس کا جواب اپنے دل میں دے اور بوڑھی ہے تو زور سے جواب دے سکتا ہے ۔”
(ایضا ص۴٨٠)
علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"(قَوْلُهُ وَصَوْتِهَا) مَعْطُوفٌ عَلَى الْمُسْتَثْنَى يَعْنِي أَنَّهُ لَيْسَ بِعَوْرَةٍ ح (قَوْلُهُ عَلَى الرَّاجِحِ) عِبَارَةُ الْبَحْرِ عَنْ الْحِلْيَةِ أَنَّهُ الْأَشْبَهُ. وَفِي النَّهْرِ وَهُوَ الَّذِي يَنْبَغِي اعْتِمَادُهُ. وَمُقَابِلُهُ مَا فِي النَّوَازِلِ: نَغْمَةُ الْمَرْأَةِ عَوْرَةٌ، وَتَعَلُّمُهَا الْقُرْآنَ مِنْ الْمَرْأَةِ أَحَبُّ. قَالَ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ» فَلَا يَحْسُنُ أَنْ يَسْمَعَهَا الرَّجُلُ. اهـ. وَفِي الْكَافِي: وَلَا تُلَبِّي جَهْرًا لِأَنَّ صَوْتَهَا عَوْرَةٌ، وَمَشَى عَلَيْهِ فِي الْمُحِيطِ فِي بَابِ الْأَذَانِ بَحْرٌ ۔
قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَعَلَى هَذَا لَوْ قِيلَ إذَا جَهَرَتْ بِالْقِرَاءَةِ فِي الصَّلَاةِ فَسَدَتْ كَانَ مُتَّجَهًا، وَلِهَذَا مَنَعَهَا – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – مِنْ التَّسْبِيحِ بِالصَّوْتِ لِإِعْلَامِ الْإِمَامِ بِسَهْوِهِ إلَى التَّصْفِيقِ اهـ وَأَقَرَّهُ الْبُرْهَانُ الْحَلَبِيُّ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ الْكَبِيرِ، وَكَذَا فِي الْإِمْدَادِ؛ ثُمَّ نَقَلَ عَنْ خَطِّ الْعَلَّامَةِ الْمَقْدِسِيَّ : ذَكَرَ الْإِمَامُ أَبُو الْعَبَّاسِ الْقُرْطُبِيُّ فِي كِتَابِهِ فِي السَّمَاعِ: وَلَا يَظُنُّ مَنْ لَا فِطْنَةَ عِنْدَهُ أَنَّا إذَا قُلْنَا صَوْتُ الْمَرْأَةِ عَوْرَةٌ أَنَّا نُرِيدُ بِذَلِكَ كَلَامَهَا، لِأَنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِصَحِيحٍ ۔
فَإِذًا نُجِيزُ الْكَلَامَ مَعَ النِّسَاءِ لِلْأَجَانِبِ وَمُحَاوَرَتِهِنَّ عِنْدَ الْحَاجَةِ إلَى ذَلِكَ، وَلَا نُجِيزُ لَهُنَّ رَفْعَ أَصْوَاتِهِنَّ وَلَا تَمْطِيطَهَا وَلَا تَلْيِينَهَا وَتَقْطِيعَهَا لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ اسْتِمَالَةِ الرِّجَالِ إلَيْهِنَّ وَتَحْرِيكِ الشَّهَوَاتِ مِنْهُمْ، وَمِنْ هَذَا لَمْ يَجُزْ أَنْ تُؤَذِّنَ الْمَرْأَةُ. اهـ. قُلْت: وَيُشِيرُ إلَى هَذَا تَعْبِيرُ النَّوَازِلِ بِالنَّغْمَةِ”۔
(رد المحتار: باب شروح الصلاة)
مذکورہ بالا نصوص سے واضح ہوا کہ نکاح سے قبل زید کا ہندہ سے بلا حاجت بات چیت کرنا، خاص کر ایسی بات چیت جس سے دل بہلے اور لذت پائے ناجائز ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
کتبہ : کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی
١٩ جمادی الأولی ١٤٤٣ ھ/ ٢٣ دسمبر ٢٠٢١.
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی