سنت کے مطابق حق مہر کتنا ہوتا ہے ؟

سنت کے مطابق حق مہر کتنا ہوتا ہے ؟

سائل : صلاح الدین انصاری

بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب

اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

سنت کے مطابق حق مہر پانچ سو (500) درہم ہیں، جو ایک سو اکتیس (131) تولے اور تین (3) ماشے چاندی کے برابر ہیں، جو پاکستان میں آج کی تاریخ (26/03/2021) کے مطابق تقریباََ ایک لاکھ ستتر ہزار ایک ستاسی (177187) روپے بنتے ہیں  ۔ کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطھرات اور بناتِ مکرمات رضی اللہ عنھن کا حق مہر اتنا ہی مقرر کیا تھا، لہٰذا یہ سنت حق مہر ہے لیکن بہتر و مستحب یہی ہے کہ اپنی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے اتنا حق مہر مقرر کیا جائے جسے بآسانی ادا کیا جاسکے ۔

نوٹ :

حق مہر کی کم از کم رقم دس (10) درہم ہے جو دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی کے برابر ہے، جو پاکستان میں آج کی تاریخ (26/03/2021) کے مطابق تقریباً تین ہزار پانچ سو چوالیس (3544) روپے بنتے ہیں ۔

چنانچہ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا (اپنی ازواج کے لئے) مہر کتنا تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا :

"کَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَةً وَنَشًّا۔ قَالَتْ : أَتَدْرِي مَا النَّشُّ ؟ قَالَ : قُلْتُ : لَا۔ قَالَتْ نِصْفُ أُوقِيَة۔ فَتِلْکَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ۔ فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ ﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِأَزْوَاجِهِ”

یعنی حضور نبی مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج کے لئے مہر بارہ اوقیہ اور ایک نُش تھا، (پھر) فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ نش کی کتنی مقدار ہے ؟ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی : نہیں۔ تو انہوں نے فرمایا : نصف اوقیہ۔ پس یہ (ساڑھے بارہ اوقیہ) پانچ سو درہم (کے برابر) ہیں اور یہی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج کے لئے مہر ہے۔

(صحيح مسلم، کتاب النکاح، باب الصّداق و جواز کونہ۔۔الخ، صفحہ 530، رقم الحدیث : 78- (1426)، دارالکتب العلمیہ بيروت، لبنان)

محمد بن ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

"صَدَاقُ بَنَاتٍ النَّبِيِّ وَصَدَاقُ نِسَائِهِ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ”

یعنی نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بناتِ مکرمات اور ازواجِ مطھّرات کا مہر پانچ سو درہم تھا۔

ابن سعد نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے :

"اِثْنَيْ عَشَرَ أَوْقِيَةَ وَنِصْفًا”

یعنی ساڑھے بارہ اوقیہ تھا.

(المصنف ابن ابي شيبة، جلد 3، صفحہ 493، رقم الحدیث : 16373، مکتبة الرشد الرياض، الطبقات الکبری، جلد 8، صفحہ 22، دار صادر بيروت)

لہٰذا معلوم ہوا ایک (1) اوقیہ چالیس (40) درہم کا ہے، اس طرح بارہ اوقیہ چار سو اسّی (480) درہم اور ساڑھے بارہ اوقیہ پانچ سو (500) درہم کے برابر ہوئے۔

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"بہتر یہ کہ شوہر اپنی حیثیت ملحوظ رکھے کہ یہ اس کے ذمہ دین (یعنی قرض) ہے، یہ نہ سمجھے کہ کون دیتا ہے کون لیتا ہے، اگر یہاں نہ دیا تو آخرت کا مطالبہ سر پر رہا، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی ازواجِ مطھرات و بنات مکرمات کا مہر پانچ سو درہم باندھا، اگر چاہے تو یہ مقدار رکھے کہ سنت ہے۔”

(فتاوی امجدیہ جلد دوم صفحہ 144 مکتبہ رضویہ کراچی)

فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"دس درہم چاندی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ کے برابر ہوتی ہے، لہذا اتنی چاندی نکاح کے وقت بازار میں جتنے کی ملے کم سے کم اتنے مہر کا ہوسکتا ہے، اس سے کم کا نہیں۔”

(فتاوی فیض الرسول جلد 1 صفحہ713 شبیر برادرز لاہور)

مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں :

"مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے ( 30.618 گرام ) چاندی ہے اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے، زیادہ جتنا بھی مقرر کیا جائے اتنا ہی دینا واجب ہے البتہ مہر میں مستحب یہ ہے کہ اتنا رکھا جائے جو اداکرنے میں آسان ہو۔”

(فتوی نمبر :Aqs:1041، تاریخ اجراء : 03 شعبان المعظم 1438ھ/ 30 اپریل 2017ء، دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply