شادی اور جہیز کے اخراجات کی وجہ سے لڑکی کو اپنے باپ کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے

شادی اور جہیز کے اخراجات کی وجہ سے لڑکی کو اپنے باپ کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ :
زید کے چار لڑکے اور دو لڑکی ہے ایک کا نام زینب ہے ۔ زیدکا ایک چھوٹا گھر ہے جس کی قیمت 10 لاکھ ہوگی ۔ زید کے چاروں لڑکوں نے مل کر زینب کی شادی کروائی ۔ جس میں کافی خرچ ہوا زینب کو جھیز کے طور پر 3 تولا سونا اور
fridge, washing machine sewing machine , bed and cubord۔
دیا گیا جس کی قیمت کم و بیش 2.15 لاکھ ہے۔
زینب کے شوہر کے کہنے پر زینب نے اپنے مائکہ میں اپنے حصہ کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ جس سے اسکے بھائی سب ناراض ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ہمارے پاس صرف یہ گھر ہی تو ہے اور ہم سب نے مل کر تمہاری شادی کروائی ہے۔ جس پر زینب کہتی ہے شادی آپ لوگوں کی ذمہ داری تھی اور میں اپنا حصہ مانگ رہی ہوں۔
اسپر ایک بھائی غصے میں کہتا ہے ذمہ داری تو ابا جان کی تھی اگر ابا صرف اپنے پیسوں سے تمھاری شادی کرواتے تو تمہیں اتنی چیزیں نہیں ملتی۔ دریافت طلب امر یہ ہے کی کیا زینب کا مطالبہ صحیح ہے یا نہیں؟ اور اگر صحیح ہے تو زینب کے بھائیوں کے لئے کچھ نصیحت فرمائیں۔

محمد یاسین ممبئی سے۔

الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اگر زید ابھی باحیات ہے تو اس کی زندگی میں اس گھر میں زینب کو مطالبہ کا حق نہیں ہے . ہاں!اگر زید کا انتقال ہوگیا ہو تو زید کی ملکیت والے گھر میں اس کے چاروں بیٹوں کے ساتھ اس کی دونوں بیٹیوں کا بھی حصہ ہے ۔ یعنی:سوال میں زید کے جتنے لڑکے اور لڑکیاں مذکور ہیں اگر صرف یہی زید کے شرعی وارث ہیں اور ان کے علاوہ اس کا اور کوئی وارث مثلا بیوی یا ماں یا باپ وغیرہ نہیں ہے تو اس گھر کے دس حصے کیے جائیں گے جن میں ایک ایک حصہ کےحق دار اس کی بیٹیاں ہیں اور دو دو حصوں کے حق دار اس کے بیٹے ہوں گے۔

لہذا از روئے شرع زینب کا اپنے والد کے چھوڑے ہوئے گھر میں حصہ کا مطالبہ درست اور بجا ہے۔اور شادی میں زیور اور جہیز کے سامان نیز دیگر اخراجات کی وجہ سے زینب کو باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ وراثت کا تعلق مرنے کے وقت یا مرنے کے بعد چھوڑی ہوئی دولت سے ہے ، زندگی میں کسی وارث کو جو کچھ دے دیا جائے یا خرچ ہوجائے تو اتنا حصہ ترکہ سے گھٹایا نہیں جائے گا۔مان لیجیے کہ ایک آدمی کے دو بیٹے ہوں اور اس آدمی کا ایک بیٹا سخت بیمار ہوگیا جس کے علاج میں اس آدمی کی نوے فی صد جائیداد خرچ ہوگئی تو کیا اس ادمی کی موت کے بعد اس بیمار ہونے والے لڑکے کو یہ کہہ کر باقی بچے دس فی صد جائیداد میں کوئی حصہ نہیں دیا جائے گا کہ تمھارے اوپر تو نوے فی صد جائیداد پہلے ہی خرچ ہوگئی؟۔ایسا نہیں ہے بلکہ دونوں بھائی دس فی صد بچی ہوئی جائیداد میں برابر کےحصہ دار ہوں گے۔

زینب کے بھائیوں نے اپنی کمائی سے بہن کی شادی کے جو انتظامات کیے یا جو سامان دیا اس کا صلہ انھیں رب العالمین عطا فرمائے گا۔زینب اگر مطالبہ نہ بھی کرتی تب بھی اس گھر میں اس کا حصہ دینا ضروری ہوتا، اسی طرح اس دوسری بہن کا بھی اس گھر میں حصہ ہے۔

ہاں! اگر زینب اس پر راضی ہو جائےکہ گھر میں جو اس کا حصہ ہوتا ہے اس حصہ کے عوض ترکہ سے کچھ لے کر پورے ترکہ سے دست بردار ہوجائے تو شرعا اس کی گنجائش ہے۔

مثلاً: میت کے ترکہ سے کوئی سامان دیکر اس کو اس بات پر راضی کرلیا جائے کہ وہ ترکہ کے اپنے حصہ سے دست بر دار ہوجائے۔تو پھر وہ گھر چاروں بھائیوں اور ایک بہن میں تقسیم ہوگا۔

اللہ عز و جل کا ارشاد ہے: "يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۚ۔۔۔” (سورہ نساء: ١١)

امام اہل سنت اعلی حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"وناکتخدا ماندن بعض اولاد بحیات مورث موجب زیادت حصہ ایشاں بر کتخدایان نیست ۔ فان الارث انما یکون بعدالموت اوعندہ علٰی اختلاف العلماء، لا قبلہ بالاجماع، فما وصل الٰی بعضھم من قبل علٰی جھۃ تبرع من المورث لایمکن ان یحسب من الارث وسببہ ھی الوصلۃ المعلومۃ وھم فیھا سواء”

(فتاوی رضویہ ج١٠ص٣٣٦)
مدقق علامہ علاو الدین حصکفی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:
"(أَخْرَجَتْ الْوَرَثَةُ أَحَدَهُمْ عَنْ) التَّرِكَةِ وَهِيَ (عَرَضٌ أَوْ) هِيَ (عَقَارٌ بِمَالٍ) أَعْطَاهُ لَهُ (أَوْ) أَخْرَجُوهُ (عَنْ) تَرِكَةٍ هِيَ (ذَهَبٌ بِفِضَّةٍ) دَفَعُوهَا لَهُ (أَوْ) عَلَى الْعَكْسِ أَوْ عَنْ نَقْدَيْنِ بِهِمَا (صَحَّ) فِي الْكُلِّ صَرْفًا لِلْجِنْسِ بِخِلَافِ جِنْسِهِ (قَلَّ) مَا أَعْطَوْهُ (أَوْ كَثُرَ) لَكِنْ بِشَرْطِ التَّقَابُضِ فِيمَا هُوَ صَرْفٌ (وَفِي) إخْرَاجِهِ عَنْ (نَقْدَيْنِ) وَغَيْرِهَا بِأَحَدِ النَّقْدَيْنِ لَا يَصِحُّ (إلَّا أَنْ يَكُونَ مَا أُعْطِيَ لَهُ أَكْثَرَ مِنْ حِصَّتِهِ مِنْ ذَلِكَ الْجِنْسِ) تَحَرُّزًا عَنْ الرِّبَا، وَلَا بُدَّ مِنْ حُضُورِ النَّقْدَيْنِ عِنْدَ الصُّلْحِ وَعِلْمِهِ بِقَدْرِ نَصِيبِهِ شُرُنْبُلَالِيَّةٌ وَجَلَالِيَّةٌ وَلَوْ بِعَرَضٍ جَازَ مُطْلَقًا لِعَدَمِ الرِّبَا۔”
(در مختار، کتاب الصلح، فصل فی التخارج)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔یوپی۔

غرةجمادی الآخرة ١۴۴٣ھ//۴/دسمبر٢٠٢٢ء

Leave a Reply