مخالفین کے چیلنج و اعتراض کا جواب شب معراج کی تاریخ کی تحقیق

مخالفین کے چیلنج و اعتراض کا جواب شب معراج کی تاریخ کی تحقیق اور اس رات شب بیداری بدعت نہیں.

سوال: کئ احباب ویڈیوز اور تصاویر بھیج رہے ہیں جس میں دیوبندیوں وہابیوں غیرمقلدوں اہلحدیثوں کی طرف سے چیلنج و اعتراض کیا جا رہا ہے کہ شب معراج 27 رجب کو نہیں ہے ۔ شب معراج کی تاریخ ثابت نہیں ہے، جب تاریخ ثابت نہیں تو شب معراج منانا کہاں سے ثابت ہو گیا یہ بدعت ہے. اور احباب نے کہا کہ برائے مہربانی جتنا ہوسکے جلد از جلد لکھیں اور خدشات دور کریں ۔
.
جواب و تحقیق:
پہلی بات
تاریخ میں اگرچہ اختلاف ہے مگر قوی راجح مشھور تاریخ شب معراج 27رجب ہے، اسی پر نجدیوں کے قبضہ سے پہلے مسلمانوں اور بالخصوص مکہ مدینہ والوں کا عمل تھا، اسی رات شب بیداری کرتے تھے.چند حوالہ جات ملاحظہ کیجیے.

1) دیوبندی اہلحدیث و اہلسنت سب کی معتبر شخصیت عبدالحق محدث دھلوی فرماتے ہیں:
والمشهور في السابعة والعشرين من رجب، وعليه عمل أهل المدينة ” مشہور بات ہے کہ شب معراج 27 رجب ہے اور اسی پر اہل مدینہ عمل ہے کہ عبادات(شب بیداری )کرتے ہیں ۔
(عبد الحق الدِّهْلوي ,لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح ,9/376)
.

2 ) السابع والعشرين من رجب المعظم – وليلته كانت ليلة المعراج على المشهور من الأقوال ” اقوال میں سے زیادہ مشہور قول یہی ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے ۔ (كتاب مرآة الجنان وعبرة اليقظان3/344)

3 ) وقيل: كان ليلة السابع والعشرين من رجب” وعليه عمل الناس، قال بعضهم: وهو الأقوى، فإن المسألة إذا كان فيها خلاف للسلف ولم يقم دليل على الترجيح واقترن العمل بأحد القولين أو الاقوال، وتلقى بالقبول فإن ذلك مما يغلب على الظن كونه راجحا ”
اور ایک قول یہ ہے کہ شب معراج 27 رجب ہے اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے کہ نیکیاں اور عبادات نوافل وغیرہ شب بیداری کرتے ہیں اور اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ یہی تاریخ قوی ترین تاریخ ہے… کیونکہ اسلاف میں جب کسی تاریخ میں اختلاف ہو اور اس میں اگر کسی ایک قول پر اسلاف کا عمل رہا ہوں اور انہوں نے اس قول کو قبول کر لیا ہو تو غالب گمان ہے کہ وہ تاریخ راجح ہے
(شرح الزرقاني على المواهب 2/71)
.
4) وكان الإسراء به صلّى الله عليه وسلّم والمعراج ليلة سبع وعشرين من رجب ” نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی 27 رجب کو ۔ (كتاب نهاية الإيجاز في سيرة ساكن الحجاز1/138)
.
5 ) قَدِ اشْتَهَرَ بَيْنَ الْعَوَامِّ أَنَّ لَيْلَةَ السَّابِعِ وَالْعِشْرِينَ مِنْ رَجَبٍ هِيَ لَيْلَةُ الْمِعْرَاجِ النَّبَوِيِّ وَمَوْسِمُ الرَّجَبِيَّةِ مُتَعَارَفٌ فِي الْحَرَمَيْنِ الشَّرِيفَيْنِ يَأْتِي النَّاسُ فِي رَجَبٍ مِنْ بَلادٍ نَائِيَةٍ لِزِيَارَةِ الْقَبْرِ النَّبَوِيِّ فِي الْمَدِينَةِ وَيَجْتَمِعُونَ فِي اللَّيْلَةِ الْمَذْكُورَةِ، وَهُوَ أَمْرٌ مُخْتَلَفٌ فِيهِ بَيْنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْمُؤَرِّخِينَ فَقِيلَ كَانَ ذَلِكَ فِي رَبِيعٍ الأَوَّلِ، وَقِيلَ فِي رَبِيعٍ الآخِرَةِ، وَقِيلَ فِي ذِي الْحَجَّةِ وَقِيلَ فِي شَوَّالٍ، وَقِيلَ فِي رَمَضَانَ، وَقِيلَ فِي رَجَبٍ فِي لَيْلَةِ السَّابِعِ وَالْعِشْرِينَ وَقَوَّاهُ بَعْضُهُمْ ۔
مشہور اور متعارف ہے کہ مکہ اور مدینہ کے لوگ 27 رجب کو جمع ہوتے ہیں اور عبادات کرتے ہیں، زیارت قبر نبوی کرتے ہیں اسی وجہ سے عوام میں مشہور ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب شب معراج ہے اگرچہ شب معراج کی تاریخ میں اختلاف ہے بعض نے فرمایا ربیع الاول میں تھی بعض نے فرمایا ربیع الآخر ہے، بعض نے فرمایا ذوالحجہ، بعض نے فرمایا شوال ہے بعض نے رمضان کا کہا ، بعض نے 27 رجب کو شب معراج قرار دیا ہے اور بعض علماء نے اس کو قوی ترین قرار دیا ہے
(كتاب الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص77)
.
6 ) ليْلَة الْإِسْرَاء إِلَى بَيت الْمُقَدّس بِمَكَّة بعد النُّبُوَّة بِعشر سِنِين وَثَلَاثَة أشهر لَيْلَة سبع وَعشْرين من رَجَب
شب معراج 27 رجب ہے ۔ (كتاب الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع2/556)

7 ) السابع والعشرين من رجب ليلة الإسراء والمعراج به- صلى الله عليه وسلم
شب معراج 27 رجب ہے
(المواهب اللدنية بالمنح المحمدية3/145)
.
8) السابع والعشرين من رجب، وكانت ليلة المعراج
27 رجب اور یہ شب معراج ہے
(نزهة الأنظار في عجائب التواريخ والأخبار1/406)
.
9) السَّابِع وَالْعِشْرين من رَجَب…قلت: قَالَ ابْن خلكان وَلَيْلَته لَيْلَة الْمِعْرَاج ” 27 رجب میں مصنف کہتا ہوں کہ ابن خلکان نے کہا ہے کہ یہ شب معراج تھی ۔ (كتاب تاريخ ابن الوردي2/95)
.
10) السابع والعشرين من رجب، وليلته كانت ليلة المعراج ” 27 رجب اور یہ شب معراج تھی (كتاب وفيات الأعيان7/179)
.
11) قاضی سلیمان منصور پوری کو اہل حدیث کے علماء میں شمار کیا جاتا ہے اور دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ میں اسے معتبر عالم کہا گیا ہے انکا نظریہ تھا کہ:
وقال الزرقاني: إن الإمام ابن عبد البر والإمام ابن قتيبة الدينوري والإمام النووي (تبعا للرافعي) حددوا شهر رجب للمعراج.وقال الحافظ عبد الغني المقدسي (ت ٦٠٠ هـ) أن الراجح هو السابع والعشرين من رجب، وذكر أن الاتفاق عملا كان على ذلك دائما (٣).وخلاصة الأقوال السابقة أن واقع المعراج كان في السابع والعشرين من رجب عام ٥٢ من ولادة النبي ۔
علامہ زرقانی علامہ ابن عبدالبر امام ابن قتیبہ امام نووی امام رافعی کے مطابق معراج رجب کے مہینے میں تھی اور امام عبدالغنی مقدسی نے فرمایا کہ راجح یہ ہے کہ 27 رجب میں شب معراج ہے اور مزید فرمایا کہ اس پر ہمیشہ سے عمل ہوتا چلا آرہا ہے کہ لوگ عبادات کرتے ہیں، تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ معراج کا واقعہ 27 رجب میں ہوا تھا
(اہلحدیث غیر مقلدین وغیرہ کی معتبر کتاب رحمة للعالمين ص705)
.
12) ليلة السابع والعشرين من رجب..وهي ليلة المعراج الذي شرف الله به هذه الأمة ” رجب کی ستائیسویں شب…. جو معراج کی رات ہے کہ اللہ نے اس امت کو یہ عظیم الشان رات عطا فرمائی ۔
(تنبيه الغافلين عن أعمال الجاهلين وتحذير السالكين من أفعال الجاهلين ص497)

13) وكان يأتي المدينة ببركة النبي صلى الله عليه وسلم نسيم بارد. وكان انطفاؤها في السابع والعشرين من شهر رجب ليلة الإسراء والمعراج ” ایک طرف یہ بہت بڑی آگ تھی لیکن مدینے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں اور یہ آگ 27 رجب میں بجھ گئی ، 27 رجب کہ جو شب معراج ہے ۔ (إظهار الحق4/1017)
.
14) وقد جرى عملُ المسلمين على متابعة ما اختاره الحافظ عبد الغني المقدسي، فجعلوا ليلة سبع وعشرين من رجب ليلة ذكرى الإسراء، ولعل الله قد وفقهم في هذا العمل فيكون ترجيحًا لذلك الاختيار ۔ امام حافظ عبدالغنی مقدسی نے جو اختیار فرمایا کہ 27 رجب اور شب معراج ہے تو مسلمانوں کا عمل بھی اس پر جاری ہوا… شاید کہ اللہ تعالی نے لوگوں کو اس عمل کی توفیق عطاء فرمائی تو مسلمانوں کا یہ عمل اس بات کی ترجیح ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے ۔
(جمهرة مقالات ورسائل الشيخ الإمام محمد الطاهر ابن عاشور1/481)
.
15) وجزم الحافظ ابن حجر بأنه ليلة السابع والعشرين من رجب، وعليه عمل أهل الأمصار ” امام ابن حجر نے یقین کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے اور اسی پر لوگوں کا ، مسلمانوں کا عمل ہے(کہ 27 رجب کو عبادات کرکے شب بیداری کرکے یہ رات مناتے ہیں)
(كتاب الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي1/654)
.
16) أنه كان في سبعة وعشرين من شهر رجب على وفق ما هم عليه في الحرمين الشريفين من العمل ” ایک قول کے مطابق 27 رجب شب معراج ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ حرمین شریفین مکہ مدینہ کے لوگ اسی رات شب بیداری کرتے ہیں نوافل پڑھتے ہیں عبادات کرتے ہیں ۔
(شرح الشفا للقاری ,1/394)
.
دوسری بات
شب قدر کی تاریخ کنفرم نہیں لیکن قوی امکان کے تحت 27 رمضان کو شب بیداری و عبادات کرنا سب کے ہاں اچھا و بہتر ہے…اسی طرح شب معراج کی تاریخ متعین نہ بھی ہو تو راجح قوی بلکہ ممکنہ تاریخ پر شب بیداری عبادات کرنا جائز و ثواب کہلائے گا اور قوی راجح تاریخ شب معراج کی ستائیس رجب ہے جیسے کہ اوپر بیان ہوا
.
وہابیوں اہلحدیثوں غیر مقلدوں کا معتبر عالم ابن عثیمین لکھتا ہے:
كل هذا ممكن أن تكون فيه ليلة القدر، والإنسان مأمور بأن يحرص فيها على القيام، سواء مع الجماعة إن كان في بلد تقام فيه الجماعة، فهو مع الجماعة أفضل
ممکن ہے کہ 27 رمضان کو شب قدر ہو تو انسان کو یہ حکم ہے کہ اس رات قیام کرے عبادات کرے نوافل پڑھے اکیلے پڑھے یا جماعت کے ساتھ… مل کر عبادات کریں تو یہ افضل ہے
(كتاب مجموع فتاوى ورسائل العثيمين20/66)
.
اس رات کی تعیین میں بھی اختلاف ہے کہ وہ کون سی رات ہے، رمضان کے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں اس کو تلاش کرنا چاہیے، اورتلاش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان راتوں میں جاگ کر انفرادی طور پر نماز، تلاوت اوردعا وذکر کا اہتمام کرنا چاہیے، رمضان کی ستائیسویں شب کو اس کا امکان زیادہ ہے
(دار الافتاء دیوبند جواب نمبر: 16814فتوی(م):1617)
.
یہ مبارک رات رمضان کے آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے کوی ایک ہے بلکہ اس بات کا بھی ظن حاصل ہوتا ہے کہ وہ طاق رات ستائیسویں رمضان کی ہے….اس رات میں بھی دنیا کی رغبتوں سے بے نیاز ہوکر ،اذکار و اعمال میں مشغول رہے کثرت سے نفل نمازیں پڑھے، قرآن کی تلاوت کرے۔ دل کو حسد، بغض، کینہ، عداوت، غرور، تکبر کی آلائشوں سے پاک رکھے
(دیوبند کی کتاب…رمضان المبارک کے فضائل و مسائل جلد دوم ص187..189)
.
ان حوالہ جات میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ غالب گمان کے طور پر شب قدر کی تاریخ مقرر کی گئ اور انفرادی و اجتماعی عبادت کا بھی حکم دیا گیا…. اسی طرح شب معراج میں بھی غالب گمان یہی ہے کہ 27 رجب کو ہے تو اس رات میں بھی عبادت اجتماعی یا انفرادی طور پر کرنی چاہیے
.
#اگر کوئی کہے کہ شب قدر میں عبادات کا حکم حدیث پاک میں ہے لیکن شب معراج میں عبادت کا حکم نہیں….تو اسکا جواب یہ ہے کہ ہر شب نفلی عبادات و درود ذکر اذکار کرنے کی شریعت نے ترغیب دی ہے اور ضعیف حدیث میں شب معراج میں بالخصوص شب بیداری عبادات کی ترغیب ہے اور فضائل میں ضعیف حدیث مقبول و معمول ہے تو لیھذا ستائیس رجب شب معراج کو مطالعہ علم و وعظ و عبادات صدقہ خیرات شب بیداری کرنی چاہیے ۔
🌹الحدیث:
فى رجب يوم وليلة من صام ذلك اليوم وقام تلك الليلة كان كمن صام من الدهر مائة سنة وقام مائة سنة وهو لثلاث بقين من رجب
ترجمہ:
رجب میں ایک ایسا دن ہے اور ایک ایسی رات ہے کہ جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات قیام اللیل(عبادات،شب بیداری) کی تو گویا اس نے زمانے میں سے سو سال روزے رکھے اور سو سال قیام اللیل کیا،اور وہ ستائیس رجب ہے.
(شعب الایمان حدیث3811)
(تبیین العجب ص43)
(كنز العمال حدیث35169)
(فضل رجب لابن عساكر ص315)
(جامع الأحاديث حدیث14813)
.
①امام ابن حجر نے اسکی سند پر تفصیلی کلام کیا…موضوع متھم کذاب وغیرہ کا حکم نہ لگایا بلکہ نکارت ضعیف کا حکم لگایا
(تبیین العجب ص43)
.
②امام ابن عراق نے امام ابن حجر کی جرح کو برقرار رکھتے ہوئے ضعیف قرار دیا
(تنزيه الشريعة المرفوعة2/161)
.
③امام سیوطی نے ضعیف قرار دیا
(الدر المنثور في التفسير بالمأثور4/186)
.
④امام ابن عساکر نے غریب ضعیف قرار دیا
(فضل رجب لابن عساكر ص315)
.
⑤امام فتنی نے متروک ضعیف کہا
(تذكرة الموضوعات للفتني ص116)
.
⑥علامہ لکھنوی نے کذاب یا متھم بالکذب کی جرح نہ کی، ضعیف نکارت کی جرح کو برقرار رکھا
(الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص60)
.
⑦امام بیھقی نے ضعیف قرار دیا
(شعب الإيمان5/345)
.
فضائل میں حدیث ضعیف پے عمل جائز و ثواب ہے
اصول:
يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل
فضائل کے علاوہ میں حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے
(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)
.
قال العلماءُ من المحدّثين والفقهاء وغيرهم: يجوز ويُستحبّ العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً
علماء محدثین فقہاء وغیرہ نے فرمایاکہ فضائل ،ترغیب و ترہیب میں جائز ہے مستحب و ثواب ہے ضعیف حدیث پے عمل کرنا بشرطیکہ موضوع و من گھڑت نہ ہو
(الأذكار للنووي ص36)
.
#لیکن کوئی کہے کہ نفل کی جماعت ثابت نہیں…اجتماعی عبادت ثابت نہیں تو ہم کہیں گے کہ انکی اصل حدیث سے پابت ہے
تو یہ بدعت ہی نہیں یا بری بدعت نہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اجتماعی عبادت جائز و ثواب ہے فرض واجب سنت لازم نہیں…..سنت کی عظمت ہے مگر سنت کے ساتھ ساتھ جائز و مستحب ثواب کو بھی نہیں بھلانا چاہیے
.
مسجد میں جمع ہوکر قرآن و حدیث فقہ وغیرہ کا درس سننا سنانا علم پڑھنا پڑھانا نوافل پڑھنا پڑھانا ذکر و اذکار کرنا ان سب کی اصل یہ دو احادیث مبارکہ بھی ہیں
🌹حدیث①
وما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملائكة، وذكرهم الله فيمن عنده
لوگ جمع ہو کر اللہ کے گھر(مسجد) میں تلاوت کریں، قرآن (اور قرآن کے متعلقات یعنی حدیث فقہ و تصوف وغیرہ کا) درس دیں وعظ و بیان کریں تو ان پر اللہ کی رحمت اترے گی اور رحمت ان کو ڈھانپ لے گی اور فرشتے ان کو گھیر لیں گے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کرے گا اپنے پاس رہنے والوں میں (یعنی فرشتوں میں)
(مسلم حدیث6853)
.
🌹حدیث②
” لا يقعد قوم يذكرون الله عز وجل إلا حفتهم الملائكة، وغشيتهم الرحمة، ونزلت عليهم السكينة وذكرهم الله فيمن عنده "،
‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ(مسجد یا کسی اور جگہ مل)بیٹھ کر اللہ کا ذکر کریں تو ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور سکینہ (اطمینان اور دل کی خوشی) ان پر اترتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے
(مسلم حدیث6855)
.
ان دونوں احادیث مبارکہ اور دیگر احادیث مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہر دن یا کسی وقت یا مخصوص بابرکت عظیم ایام و راتوں میں مسجد یا کسی جگہ مل بیٹھ کر قران پڑھنا سننا، ذکر کرنا وعظ تقریر کرنا سننا، علم پھیلانا، نوافل عبادات پڑھنا پڑھانا وغیرہ یہ سب کچھ بری بدعت نہیں جائز و ثواب ہے…کیونکہ یہ نیا اچھا طریقہ بدعت نہیں کہ اسکی اصل مذکورہ احادیث ہیں، بدعت حقیقتا وہ ہوتی ہے جسکی اصل نہ ہو…
.
🌹①حدیث پاک میں ہے کہ:
وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
ترجمہ:
جس چیز کے متعلق(قرآن و احادیث میں)خاموشی ہو(مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو)وہ معاف ہے، جائز ہے… (ابن ماجہ حدیث3368)
یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے
.
②🌹حدیث پاک میں ہے:
من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء
ترجمہ:
جس نے اسلام میں نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد
جو جو اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی
(مسلم حدیث نمبر1017…6800)
یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے
.
ان دونوں احادیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ:
①جو کام سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا…لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا… ہاں اگر سنت نا ہو اور جائز بھی نا ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت و گناہ کہلائے گا
.
②اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں؟
.
③بے شک سنت کی عظمت ہے مگر اسی سنت نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی کوئی چیز ہے… لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے
.
④ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں….ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہیں ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں… جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ ایصال ثواب شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں..
.
نئے طریقے بدعت نہیں تو #پھرآخربدعتہےکیا…..؟؟
دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں کہتے ہیں کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ کرام نے نا کیا ہو…؟؟
کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے
.
پھر آخر بدعت ہے کیا…..؟؟
آیات تفاسیر احادیث میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ
ترجمہ:

بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئ اصل نا ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے
اور
جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائ کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعۃ شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے”با خلاف لغت(اور ظاہری بدعت) کے”
(فتح الباری 13/253،اصول الایمان ص126
اصول الرشاد ص64 مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار
فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے
جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے
اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام اہلسنت سیدی احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)
.
🌹سیدنا عمر کا فتوی اور جمھور صحابہ کرام کا عدم انکار:
نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ
یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(بخاری جلد2 صفحہ707)
یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے

.سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بدعت کو کیا ہی اچھی بدعت کہا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر کوئی چیز بدعت ہوتی ہے لیکن اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے تو وہ اچھی بدعت کہلاتی ہے اور اس پر جمھور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے انکار بھی نہیں کیا تو اکثر صحابہ کرام کے مطابق بدعت اچھی بھی ہوتی ہے. بعض صحابہ کرام سے جو مروی ہے کہ انہوں نے بعض نیک کاموں کو بدعت کہا تو یہ ان کا غیر مفتی بہ یا مؤول قول کہلائے گا
.
سنی وہابی نجدی شیعہ اہل حدیث وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث” لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث” موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث” کہا جاتا ہے
اسی طرح "اچھی بدعت” حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے… اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں…اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے… بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں”بخلاف لغت کے” الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے
.
وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام ابن تیمیہ پہلے اپنا نظریہ لکھتا ہے اور پھر بطور دلیل یا نقل امام شافعی کے قول کو برقرار رکھتا ہے کہ
وَمَا خَالَفَ النُّصُوصَ فَهُوَ بِدْعَةٌ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِينَ وَمَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ خَالَفَهَا فَقَدْ لَا يُسَمَّى بِدْعَةً قَالَ الشَّافِعِيُّ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: الْبِدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةٌ خَالَفَتْ كِتَابًا وَسُنَّةً وَإِجْمَاعًا وَأَثَرًا عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَذِهِ بِدْعَةُ ضَلَالَةٍ. وَبِدْعَةٌ لَمْ تُخَالِفْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهَذِهِ قَدْ تَكُونُ حَسَنَةً لِقَوْلِ عُمَرَ: نِعْمَتْ الْبِدْعَةُ هَذِهِ هَذَا الْكَلَامُ أَوْ نَحْوُهُ رَوَاهُ البيهقي بِإِسْنَادِهِ الصَّحِيحِ فِي الْمَدْخَلِ
جو نص شرعی یعنی( قرآن و حدیث) خلاف ہو وہ بدعت ہے اس پر سب کا اتفاق ہے اور جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ نص کے خلاف ہے تو اس کو بدعت نہیں کہیں گے.امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعت وہ ہے کہ جو کتاب اللہ اور سنت کے خلاف ہو یا اجماع کے خلاف ہو یا(جمھور) صحابہ کرام کے اقوال کے خلاف ہو تو یہ بدعت گمراہی ہے اور دوسری بدعت وہ ہے کہ جو ان چیزوں کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے، اس قسم کی بات کو امام بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے
( مجموع الفتاوى ابن تيميه20/163)
.
کل بدعۃ ضلالۃ(ہر بدعت گمراہی ہے)کی وضاحت انہی ابن تیمیہ وہابی سے سنیے…لکھتا ہے
عَنْهُ فَيَعُودُ الْحَدِيثُ إلَى أَنْ يُقَالَ: ” كُلُّ مَا نُهِيَ عَنْهُ ” أَوْ ” كُلُّ مَا حُرِّمَ ” أَوْ ” كُلُّ مَا خَالَفَ نَصَّ النُّبُوَّةِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ ” وَهَذَا أَوْضَحُ مِنْ أَنْ يَحْتَاجَ إلَى بَيَانٍ بَلْ كُلُّ مَا لَمْ يُشْرَعْ مِنْ الدِّينِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ. وَمَا سُمِّيَ ” بِدْعَةً ” وَثَبَتَ حُسْنُهُ بِأَدِلَّةِ الشَّرْعِ فَأَحَدُ ” الْأَمْرَيْنِ ” فِيهِ لَازِمٌ: إمَّا أَنْ يُقَالَ: لَيْسَ بِبِدْعَةِ فِي الدِّينِ وَإِنْ كَانَ يُسَمَّى بِدْعَةً مِنْ حَيْثُ اللُّغَةُ. كَمَا قَالَ عُمَرُ: ” نِعْمَت الْبِدْعَةُ هَذِهِ ” وَإِمَّا أَنْ يُقَالَ: هَذَا عَامٌّ خُصَّتْ مِنْهُ هَذِهِ الصُّورَةُ لِمُعَارِضِ رَاجِحٍ كَمَا يَبْقَى فِيمَا عَدَاهَا عَلَى مُقْتَضَى الْعُمُومِ كَسَائِرِ عمومات الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَهَذَا قَدْ قَرَّرْته فِي ” اقْتِضَاءِ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ ” وَفِي ” قَاعِدَةِ السُّنَّةِ وَالْبِدْعَةِ ” وَغَيْرِهِ.
خلاصہ
ہر بدعت گمراہی ہے تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور ایسی ہر بدعت گمراہی ہے اور جس کی اصل ثابت ہو وہ بدعت ہی نہیں ہے تو وہ لغت و ظاہر کے اعتبار سے بدعت ہے اور وہ گمراہی نہیں ہے ، وہ بدعت حسنہ ہے. یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اس عموم سے بدعت حسنہ مستثنی ہے جیسے کہ قرآن و حدیث کے کئ عموم ہوتے ہیں اور اس سے کچھ چیزیں مستثنی ہوتی ہیں
( مجموع الفتاوى ابن تيميه10/370)
.
ابن حزم اور بدعت قولی فعلی بدعت حسنہ
البدعة: كل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل في ما نسب إليه، وهو في الدين كل ما لم يأت [في القرآن ولا] عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا منها ما يؤجر عليه صاحبه ويعذر فيما قصد به الخير، ومنها ما يؤجر عليه صاحبه جملة ويكون حسنا
بدعت ہر اس قول کو کہتے ہیں ہر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو. شریعت میں بدعت وہ ہے کہ جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو. جس کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اس پر اجر دیا جاتا ہے
(رسائل ابن حزم4/410)
.
ابن جوزی اور بدعت
ومتى أسند المحدث إِلَى أصل مشروع لم يذم
جس بدعت کی اصل ثابت ہو اس کی مذمت نہیں ہے( وہ تو دراصل بدعت ہے ہی نہیں اسے تو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت کہا جاتا ہے)(ابن جوزي تلبيس إبليس ص18)
.
.
وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی علامہ ابن حجر کی عبارت لکھتا ہے اور اسکی نفی نہیں کرتا جسکا صاف مطلب ہے کہ یہ عبارت، یہ نظریہ بھی یا یہی نظریہ ٹھیک ہے
وَالتَّحْقِيقُ أَنَّهَا إنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَحْسَنٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ حَسَنَةٌ، وَإِنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَقْبَحٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ مُسْتَقْبَحَةٌ، وَإِلَّا فَهِيَ مِنْ قِسْمِ الْمُبَاحِ، وَقَدْ تَنْقَسِمُ إلَى الْأَحْكَامِ الْخَمْسَةِ
تحقیق یہ ہے کہ جو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت ہو تو اس کی تقسیم کچھ یوں ہوگی کہ اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے تحت اچھی درج ہو سکتی ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے تحت بری ہو تو وہ بری بدعت ہے اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو تو وہ بدعت مباحہ ہے اور بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہے
(كتاب نيل الأوطار3/65)
.
کل بدعۃ ضلالۃ کا جواب و وضاحت
فإن قلت: ففي الحديث: "كل بدعة ضلالة "؟ قلت: أراد بدعة لا أصل لها في الإسلام؛ بدليل قوله: "من سنَّ سُنَّةً حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة
حدیث میں جو ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے تو اس سے مراد وہ ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ گمراہی ہے (کیونکہ بدعت جس کی اصل ثابت ہو وہ گمراہی نہیں)کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اسے اجر ملے گا اور عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملے گا قیامت تک
(الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري4/331)
.
: شر الأمور محدثاتها: يعني: المحدثات التي ليس لها في الشريعة أصل يشهد لها بالصحة والجواز، وهي المسمّاة بالبدع؛ ولذلك حكم عليها بأن كل بدعة ضلالة. وحقيقة البدعة: ما ابتُدئ وافتُتح من غير أصل شرعي، وهي التي قال فيها – صلى الله عليه وسلم -: من أحدث في أمرنا ما ليس منه فهو ردّ
تمام نئے امور میں سے گندی چیز بدعت ہے. نئے امور جو برے ہیں ان سے مراد وہ ہیں کہ جن کی اصل شریعت میں ثابت نہ ہو اسی کو بدعت کہتے ہیں اور اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی ہے یہی بدعت کی حقیقت ہے حدیث پاک میں ہے کہ جو ہمارے دین میں نئی چیز پیدا کرے تو وہ مردود ہے تو اس سے مراد بھی یہی بدعت ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو
(القرطبی..المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم2/508)
.
، ومتى استند المحدث إلى أصل مشروع لم يذم.متى تكون البدعة حسنة؟فالبدعة الحسنة متفق على جواز فعلها والاستحباب لها رجاء الثواب لمن حسنت نيته فيها، وهي كل مبتدع موافق لقواعد الشريعة غير مخالف لشيء
ہر وہ نیا کام کہ جس کی اصل ثابت ہو تو اس کی مذمت نہیں ہے. بدعت کب حسنہ ہو جاتی ہے کہ اس پر عمل جائز ہو جائے اور ثواب کی امید ہو تو بظاہر جو بدعت ہو وہ اگر شرعی قواعد کے موافق ہو تو بدعت حسنہ ہے
(حقيقه السنة والبدعة للسيوطي ص92)
.
ما ليس له أصلٌ في الشرع، وإنما الحامل عليه مجرد الشهوة أو الإرادة، فهذا باطلٌ قطعًا، بخلاف محدَثٍ له أصلٌ في الشرع إما بحمل النظير على النظير، أو بغير ذلك؛ فإنه حسنٌ.فالحاصل: أن البدعة منقسمةٌ إلى الأحكام الخمسة؛ لأنها إذا عرضت على القواعد الشرعية. . لم تخل عن واحدٍ من تلك الأحكام
ہر وہ بدعت کہ جس کی شریعت میں اصل ثابت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے خواہش نفس ہی ہو تو یہ قطعاً باطل بدعت ہے اور وہ نیا کام کہ جو بظاہر بدعت ہو لیکن اس کی شریعت میں اصل موجود ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے… الحاصل بدعت کی پانچ قسمیں ہیں کیونکہ بدعت کو قواعد شریعت پر پرکھا جائے گا تو پانچ قسمیں بنیں گی
(الفتح المبين بشرح الأربعين لابن حجر الہیثمی ص476)
.
وَمَا كَانَ مِنْ بِدْعَةٍ لَا تُخَالِفُ أَصْلَ الشَّرِيعَةِ وَالسُّنَّةِ فَتِلْكَ نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ
وہ بدعت کے جو شریعت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(كتاب الاستذكار لابن عبد البر 2/67)
.
وَصَفَهَا بِنِعْمَتْ لِأَنَّ أَصْلَ مَا فَعَلَهُ سُنَّةً
جس کی اصل سنت سے ثابت ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(شرح الزرقاني على الموطأ1/418)
.
وَإِنْ لَمْ تُوجَدْ فِي الزمان الأول، فأصولها موجودة
بدعت حسنہ کے مروجہ طریقے کہ جو بظاہر پہلے کے زمانے میں نہ تھے لیکن اس کے اصول موجود تھے تو اس لیے یہ اچھی بدعت ہیں
(الاعتصام للشاطبي ت الشقير والحميد والصيني1/48)
.
، وإلا فقد عرفت أن من البدع ما هو واجب. أو مندوب
ورنہ آپ جانتے ہیں کہ بدعت کی ایک قسم واجب بھی ہوتی ہے اور ایک قسم اچھی بھی ہوتی ہے
(عبدالحق محدث دہلوی، لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح1/507)
.
#صلاۃ_التسبیح یا دیگر نوافل کی جماعت کرانے کی اصل یہ حدیث پاک ہے.
بخاری باب نوافل کی جماعت میں ایک واقعے کے ساتھ حدیث پاک ہے کہ ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ بارش سیلاب ندی وغیرہ مجبوریوں کی وجہ سے کبھی مسجد نہیں جا پاتا تو آپ صلی اللہ علیک وسلم میرے گھر تشریف لائیں اور گھر کے ایک مخصوص حصے میں نماز ادا کریں تاکہ اس جگہ.کو میں نماز کے لیے خاص کر دوں.. آپ علیہ السلام اگلے دن سیدنا ابوبکر صدیق کے ہمراہ انکے گھر تشریف لے گئے.. پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کس جگہ نماز پڑھوں.. انہوں نے گھر کا ایک خاص حصہ کی طرف اشارہ کیا.. صحابہ کرام نے صف باندھی اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے نفل کی جماعت کرائی..
(بخاری حدیث1186ملخصا)
.
اس حدیث کے تحت بہت سارے مسائل علماء نے ثابت کیے ہیں.. شارح بخاری علامہ عینی نے کوئی 55فوائد و مسائل ثابت کیے.. ان میں سے چند یہ ہیں
1:نفل کی جماعت کا ثبوت
2:تبرکات کا ثبوت
3:واقعی مجبوری ہوتو گھر میں فرض ادا کرنے کا ثبوت
4:بڑوں،بزرگوں کا ادب اور چھوٹوں پر ماتحتوں پر شفقت
5:سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت
.
نوافل صلاۃ التسبیح وغیرہ الگ بھی پڑھنا چاہیے اور جماعت کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں.. بلکہ دونون پر عمل کرنا چاہیے ڈبل ثواب ہوگا.. ان.شاء.اللہ
فقہ کی تقریبا ہر کتاب مین لکھا ہے کہ:
کبھی کبھار نفل کی جماعت ہوجایا کرے.. یا بغیرتداعی کے نوافل کی جماعت ہوتو جائز و ثواب ہے،اگر تداعی ہو تو مکروہ تنزیھی ہے مگر گناہ نہیں..
(دیکھیے فتاوی شامی جلد2 صفحہ604… فتاوی رضویہ جلد7 صفحہ430)
.
تداعی مطلب خاص نوافل کی جماعت ہی کے لیے بلانا.عام اجتماعات میں خاص نوافل ہی کے لیے نہین بلایا جاتا بلکہ اسلامی محفل کے لیے بلایا جاتا ہے اور ضمنا نوافل کی جماعت کرائی جاتی ہے
لیکن
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ تداعی کے ساتھ جماعت ہو تو بھی عوام کو مت روکو.تداعی کے ساتھ نوافل عبادت کرنے دو، یہی فی زمانہ بہتر ہے کہ ممانعت قطعی نہیں اور ترغیب و تکثیر بھی ہے
.
در مختار اور الحدیقہ الندیہ کے حوالے سے ہےکہ:
ًبہت اکابردین سے جماعت نوافل بالتداعی ثابت ہے اور عوام فعل خیر سے منع نہ کئے جائیں گے علمائے امت وحکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے درمختارمیں ہے:
اما العوام فلایمنعون من تکبیر والتنفل اصلا لقلۃ رغبتھم فی الخیرات(عوام کو تکبیرات اور نوافل سے کبھی بھی منع نہ کیاجائے کیونکہ پہلے ہی نیکیوں میں ان کی رغبت کم ہوتی ہے)حدیقہ ندیہ میں ہے:
ومن ھذا القبیل نھی الناس عن صلٰوۃ الرغائب بالجماعۃ وصلٰوۃ لیلۃ القدر ونحوذلك وان صرح العلماء بالکراھۃ بالجماعۃ فیھا فلایفتی بذلك العوام لئلا تقل رغبتھم فی الخیرات وقد اختلف العلماء فی ذلك فصنف فی جوازھا جماعۃ من المتاخرین وابقاء العوام راغبین فی الصلٰوۃ اولٰی من تنفیرھم
اسی قبیل سے نماز رغائب کاجماعت کے ساتھ اداکرنا اور لیلۃ القدر کے موقع پر نماز وغیرہ بھی ہیں اگرچہ علماء نے ان کی جماعت کے بارے میں کراہت کی تصریح کی ہے مگر عوام میں یہ فتوٰی نہ دیاجائے تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو، علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور متاخرین میں سے بعض نے اس کے جواز پر لکھا بھی ہے، عوام کونماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہوتا ہے
(فتاوی رضویہ جلد 7 ص,465,466, در مختار1/144 الحدیقۃ الندیہ2/150ملتقطا)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

Leave a Reply