شب برات میں آتش بازی کا شرعی حکم

شَبِّ بَرَاءَت (یعنی شعبان المعظم کی پندرہویں رات) میں جو مُرَوَّجَہ آتَش بازِی چھوڑی جاتی ہے، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

الجواب بعون الملک الوہاب:

شَبِّ بَرَاءَت میں جو مُرَوَّجَہ آتَشبازِی چھوڑی جاتی ہے چونکہ اس کا مقصد کھیل کود اور تفریح ہوتا ہے لہذا یہ فضول خرچی، ناجائز و گناہ اور جہَنَّم میں لے جانے والا کام ہے اور ایسی آتشبازی کا بنانا، خریدنا اور بیچنا بھی منع ہے ۔

البتہ کچھ صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں آتشبازی چھوڑنا جائز ہے یعنی وہ صورتیں کہ جو کھیل کود اور فضول خرچی سے خالی ہوں جیسے چاند نظر آنے کا اعلان کرنے کے لیے، جنگل یا شہر میں تکلیف دینے والے جانوروں کو بھگانے کے لیے، کھیت یا میوے کے درختوں سے جانوروں اور پرندوں کو بھگانے اور اڑانے کے لئے پٹاخے وغیرہ چھوڑنا سب جائز ہے اور ایسی آتشبازی کا سامان بنانا، بیچنا اور خریدنا بھی جائز ہے ۔

چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"آتَشبازی جس طرح شادیوں اور شب بَراءَت میں رائج ہے بیشک حرام اور پورا جُرْم ہے کہ اس میں تضییعِ مال (یعنی مال کو ضائع کرنا) ہے ۔ "

(فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 279 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

ایک اور مقام پر آپ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"(آتَشبازی بنانا اور چھوڑنا) ممنوع و گناہ ہے مگر جو صورتِ خاصّہ لَھْو و لَعِب و تَبْذِیْر و اِسْرَاف سے خالی ہو (یعنی اس خاص صورت میں جائز ہے جو کھیل کود اور فضول خرچی سے خالی ہو) جیسے اِعْلاَنِ ہِلال (یعنی چاند نظر آنے کا اعلان کرنا) یا جنگل میں یا وَقْتِ حاجَت شَہر میں بھی دَفْعِ جانورانِ مُوْذِی (یعنی ایذا دینے والے جانوروں کو بھگانے کے لیے) یا کھیت یا میوے کے درختوں سے جانوروں (اور پرندوں) کے بھگانے اڑانے کو ناڑیاں، پٹاخے تُومْڑیاں چھوڑنا ۔”

(فتاویٰ رضویہ جلد 10 صفحہ 290 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

فتاوی اجملیہ میں ہے :

"(شَبِّ بَرَاءَت کی مُرَوَّجَہ) آتشبازِی کا چھوڑنا بلاشک اِسراف اور فُضول خرچی ہے لہذا اِس کا ناجائز و حرام ہونا اور اسی طرح آتش بازی کا بنانا اور بیچنا، خریدنا سب شرعاً ممنوع ہیں.”

(فتاوی اجملیہ جلد 4 صفحہ 52 3شبیر برادر لاہور)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply