سوانح حیات امام زفر رحمتہ اللہ علیہ

سوانح حیات امام زفر رحمتہ اللہ علیہ

نام و نسب:

نام زفر ، کنیت ابو ہذیل اور ایک قول کے مطابق ابو خالد ہے۔ سلسلہ نسب یہ ہے: زفر بن ہذیل بن قیس بن سلیم بن مکمل بن قیس بن ذہل بن ذویب بن جذیمہ بن عمروبن حجنود بن عنبر بن جندب بن عنبر بن عمرو بن تمیم بن مربن اد بن طابخہ بن الیاس بن مضر بن نزاربن معد بن عدنان۔
امام زفربن ہذیل علم اور عبادت کے جامع تھے۔ ابتدا میں وہ حدیث میں مشغول تھے پھر ان پر اجتہادی رنگ غالب آگیا۔ ان کے والد ہذیل اصبہان کے تھے۔

ولادت و وفات :

ان کی ولادت ۱۱۰ھ میں اور وفات شعبان ۱۵۸ ھ میں بصرہ میں خلیفہ مہدی کےابتدائی دور میں ہوئی۔ امام زفر عنبری تھے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ اصبہان کے تھے۔
وصیت:ان کے مرض الموت کے وقت امام ابو یوسف و غیرہ آئے اور ان سے کہا: ابو ہذیل! آپ کوئی وصیت نہیں کریں گے ؟ فرمایا: یہ مال جو تم دیکھ رہے ہو اس عورت کا ہے اور یہ تین ہزار درہم میرے بھتیجے کے ہیں۔ اور نہ میرا کسی پر ایک درہم ہے اور نہ کسی کا مجھ پر ایکدرہم ہے۔ خالد بن حارث کی بہن ان کے نکاح میں تھیں۔

امام زفر محدث تھے ایک بار انھیں اور دیگر محدثین کو ایک مسئلہ پیش آیا جس کےحل سے وہ عاجز رہے۔ تو وہ امام ابو حنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مسئلہ دریافت کیا، انھوں نے اس کا جواب دیا۔ تو ان کی صحبت اختیار کرلی اور ان کے سامنے زانو ے تلمذ تہہ کیا۔ وہ ان دس اکابر فقہا میں سے ہیں جنھوں نے امام ابو حنیفہ کے ساتھ مسائل کیجمع و تدوین کا کام کیا۔
حسن بن زیاد فرماتے ہیں: امام زفر اور داؤد طائی کے درمیان مواخات تھی لیکن داؤد طائی فقہ چھوڑ کر
عبادت کی میں طرف متوجہ ہو گئے۔ جب کہ امام زفر فقہ اور عبادت دونوں کی جامع تھے۔ وہ امام ابو حنیفہ کے سامنے بیٹھے تھے اور امام ابو یوسف ان کے پہلو میں بیٹھتے تھے۔
امام وکیع کہتے ہیں : كان زفر شديد الورع حسن القياس قليل من الكتاب يحفظ ما يكتبه. امام زفر بڑے متقی ، اچھا قیاس کرنے والے ، کم لکھنے والے تھے اور جو کچھ لکھتے اسے یاد کرلیتے۔

وفات کے وقت مالی حیثیت:

اسماعیل بن یحی واسطی سے روایت ہے جو فقہائے کہار میں سے تھے، بلخ میں سب سے پہلے انھوں نے ہی امام ابو حنیفہ کی کتابیں عام کیں، وہ فرماتے ہیں: میں حالت نزع میں امام زفر کے پاس گیا، تو ان سے کہا گیا کہ وصیت کیجیے۔ فرمایا: میں کیا وصیت کروں ؟ میرے ذمہ کسی کا کچھ نہیں اور میرے پاس طاق میں صرف ایک درہم ہے۔ جس کا وزن پانچ دانق اور ایک قول کے مطابق چار دانق تھا۔

اسماعیل بن یحی ہی کا بیان ہے : امام زفر رحمتہ اللہ علیہ گھوڑے پر سوار ہو کر امام ابو حنیفہ کے پاس آتے جاتے تھے۔ پھر تقوی کے بلند مقام پر فائز ہوگئے۔ مروی ہے کہ جب ان کی رات ہوئی تو ترکہ میں نصف درہم بھی نہ چھوڑا تھا۔ وہ فرمایا کرتے کہ میں اپنی موت کے بعد کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑوں گا جس کے حساب کا مجھے خوف ہو۔ موت کے بعد ان کے گھر کے اثاثے کا اندازہ لگایا گیاتو اس کی قیمت تین درہم تک بھی نہ پہنچی۔
ابو معاذ اور شداد بلخی کا بیان ہے کہ ہمارے اندازے کا مطابق امام زفر کے کپڑوں کی قیمت سات یا نو درہم تھی۔ شداد کہتے ہیں کہ جب امام زفر نماز عید کے لیے جاتے تو تین سودر ہم قیمت کے کپڑے پہنے ہوتے۔ انہی کا بیان ہے کہ میں نے اسد بن عمر سے پوچھا کہ امام افر اور امام ابویوسف میں کون بڑا فقیہہے؟ فرمایا: دونوں میں امام زفر زیادہ تقوی شعار ہیں۔ میں نے کہا کہ میں فقہ کے بارے میں سوال کر رہا ہوں، فرمایا: وہ زیادہ متقی ہیں اور تقوی ہی سے انسان بلند ہوتا ہے۔
ابو مطیع بلخی کہتے ہیں: امام زفر عمل کے معاملے میں لوگوں کے لیے ان کے اور اللہ کےدر میان حجت ہیں۔

امرا سے دوری:

ابو عاصم کا بیان ہے کہ امام زفر بصرہ آئے تولوگوں نے ان سے کہا کہ امیر آپ کو یاد کر رہا ہے ،چاہتا ہے کہ آپ اس سے ملاقات کریں۔ فرمایا: یہ کبھی نہیں ہوسکتا، میں علم کے ذریعے دنیا حاصل نہیں کرنا چاہتا، اگر میں دنیا حاصل کرنا چاہتا تو عظمت و بزرگی سے حاصل کرلیتا۔ ابن زیاد کا بیان ہے کہ زفر امام ابو حنیفہ کی مجلس میں سب سے آگے بیٹھتے تھے اور ان کے تلامذہ کے دل ان کی جانب زیادہ مائل تھے۔

ائمہ کی نظر میں:

ابو معاذ بھی کہتے ہیں: لو جمع عقل أهل بلخ لكان زفر أعقل منه. اگربلخ والوں کی عقل جمع کی جائے تو امام ز فران میں سب سے زیادہ عقل مند ہوں گے۔خالد بن صبیح کا بیان ہے کہ میں امام ابو حنیفہ کے پاس جانے کے لیے نکلا۔ راستہ میں مجھے ان کی وفات کی خبر ملی ، یہ سن کر میں مسجد کوفہ میں داخل ہوا ، وہاں میں نے دیکھا کہ سارے لوگ امام زفر کی طرف متوجہ ہیں اور امام ابو یوسف کے پاس صرف دو تین لوگ ہیں۔ شدادکہتے ہیں کہ زفر کا کیا کہنا! وہ بڑے متقی اور پرہیز گار ہیں! میں نے ہمیشہ ان کے ہونٹ ہلتےہوئے دیکھے یا تو وہ کسی علمی بات میں غور و خوض کرتے ہیں یا تسبیح پڑھتے ہیں۔ لوگوں نے ان کو منصب قضا کالالچ دیا، انھوں نے اسے ٹھکرادیا یہاں تک کہ ان کا مکان مسمار کر دیا گیا۔
عبد اللہ بن المبارک فرماتے ہیں: ماكان أحد من أصحاب أبي حنيفۃ آخذ بالأثر من زفر. امام ابو حنیفہ کے تلامذہ میں امام زفر سے زیادہ حدیث پر عمل کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
ابو سلیمان قطان کا بیان ہے کہ میں امام ابو حنیفہ کی صحبت میں رہتا تھا توامام ز فرنےنکاح کیا اور امام ابوحنیفہ کو اس میں بلایا اور ان سے گزارش کی کہ وہ خطبہ دیں تو امام اعظم فال ابو حنیفہ نے [ خطبہ دیا اور اس کے دوران ] فرمایا: هذا إمام من أئمة المسلمين في حسبه و شرفه و علمه [ یہ اپنے حسب و نسب ، شرافت و بزرگی اور علم کے اعتبارے مسلمانوں کے امام ہیں ۔تو امام زفر کے خاندان کے ایک شخص نے ان سے کہا: آپ کےچچیرے بھائی اور قوم کے شرفا یہاں حاضر ہیں پھر بھی آپ نے ابو حنیفہ سے خطبے کی گزارش کی۔ یہ سن کر امام زفر نے فرمایا کہ اگر میرے والد بھی یہاں حاضر ہوتے تب بھی میں امام ابوحنیفہ کو ان پر ترجیح دیتا۔

جب امام ابو حنیفہ کو منصب قضا پیش کیا گیا اور قبول نہ کرنے کی صورت میں ڈرایا دھمکایا گیا تو انھوں نے اپنے تلامذہ سے اس سلسلے میں مشورہ لیا۔ سب نے تو منصب قبول کرنے کا مشورہ دیا لیکن امام زفر اس پر راضی نہ تھے تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا: صحیح رائے وہی ہے جو ز فرنے دی۔

بشر بن ولید کا بیان ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ابو یوسف اورزفر میں کون بڑا فقیہ ہے؟ فرمایا : ما مثل أبي يوسف من زفر إلا كمثل ما يرفع بينه و ما يوضع فيه، و ما مثل زفر إلا كمثل بحر يغترف منه لا ینقص منه شيء.یعنی امام زفر کے سامنے امام ابو یوسف کی مثال اس چیز کی طرح ہے جس میں سے کچھ اٹھالیا جائے لیکن رکھا نہ جائے اور امام زفر کی مثال اس سمندر کی طرح ہے جس سے چلو سے پانی پیا جائے اور اس میں کچھ بھی کمی نہ ہو۔

یحیی بن معین فرماتے ہیں: زفر صاحب الرأي ثقة مامون . زفر ثقہ اور مامون مجتہد تھے۔امام زفر فرماتے ہیں: كنت من أبلد القوم في أصحاب أبي حنيفة إلا أنه نفعتني المواظبة جالست أبا حنيفة خمسا وعشرين سنة ما فاتني منه أضحى ولا فطر.میں امام ابو حنیفہ کے تلامذہ میں سب سے زیادہ کند ذہن تھا، لیکن پابندی کے ساتھ درس سے مجھے فائدہ ملا، میں پچیس سال ان کے حلقہ درس میں شریک رہا، عید الفطر اور عیدالاضحی میں بھی درس نہ چھوٹا۔

جب امام ابو حنیفہ سوار ہونا چاہتے تو امام زفر ان کی رکاب پکڑ لیتے۔ اس پر ان کے قرابت دار انھیں ملامت کرتے ، تو وہ فرماتے : اگر مجھے تمہارے پاس وہ چیزمل جاتی جو ان کے پاس ملتی ہے تو میں تمہارے اس اقدام کی تحسین کرتا۔

شداد کہتے ہیں: امام اعظم ابو حنیفہ کے تلامذہ میں امام زفر کی حیثیت وہی ہے جو نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی ہے ۔ وہ ان میں سب سے بڑے عالم اور فقیہ تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی طرح کبھی کسی کے قول کی طرف رجوع نہیں کیا۔

Seerat o Sawaneh Imam Zufar Rahmatullahi Alaih

Leave a Reply

%d bloggers like this: