جس جانور کی سینگ ٹوٹی ہو یا کچھ کان کٹا ہو اس کی قربانی کیسی ہے؟ از مفتی محمد نظام الدین قادری

جس جانور کی سینگ ٹوٹی ہو یا کچھ کان کٹا ہو اس کی قربانی کیسی ہے؟

 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ اگر (١)قربانی کے جانور کی ایک سینگ آدھی کے قریب ٹوٹی ہو یا (٢)کسی ایک کان کا کچھ حصہ کٹا ہو تو ایسے جانوروں کی قربانی درست ہے یا نہیں؟

سائل

محمد ادریس رضا (پینڑا، بستی)

الجواب:

(١) جس جانور کی سینگ آدھی کے قریب ٹوٹی ہو اس کی قربانی ہوسکتی ہے، ہاں! آگر سینگ جڑ تک ٹوٹی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں ۔ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

"قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیے اور تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی، مگر مکروہ ہوگی۔ اور زیادہ عیب ہو تو ہوگی ہی نہیں ۔ جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اس کی قربانی جائز ہے ، اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گیا اور مینگ تک ٹوٹا ہے تو ناجائز ہے، اس سے کم ٹوٹا ہے تو جائز ہے” (بہار شریعت ح ١۵ص ٣۴٢)

(٢) کسی جانور کا کوئی کان کٹا ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ تہائی یا اس سے کم کٹا ہے یا تہائی سے زیادہ کٹا ہے۔ اگر تہائی یا اس سے کم کان کٹا ہے تو قربانی جائز ہے اور تہائی سے زیادہ کٹا ہے تو ناجائز ہے۔ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

"جس کے کان یا دم یا چکی کٹے ہوں یعنی وہ عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔ اور اگر کان یا دم یا چکی تہائی یا اس سے کم کٹی ہو تو جائز ہے”

(بہار شریعت ح ١۵ ص٣۴٣)۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری، خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی۔

٢٨/ذو القعدہ ١۴۴٢ھ//١٠/جولائی ٢٠٢١ء


جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہو کیا اس کے باپ کا نام ذکر کرنا ضروری ہے؟

اگر ایک گھر میں کئی فرد مالک نصاب ہوں تو کیا سب پر قربانی واجب ہے؟

Leave a Reply