سیدہ کا بے اجازت ولی خان سے نکاح کرنا کیسا ہے؟
مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
ایک مسئلے کا حل بتائیں عین کرم ہوگا میں ایک لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی میں سید ہوں وہ خان ہیں وہ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن ان کو قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا ہے وہ میرے ہی ابو کی دکان میں کام کرتے تھے میرے ابو ایک بزنس مین ہیں اور ہر جگہ وہ اسٹاف کے نام سے جانے جاتے تھے۔ لوگوں کا سوچ کر میرے گھر والے راضی نہیں تھے۔ اور ایک یہ بھی وجہ تھی کہ وہ غریب تھے۔ گھر والے جب کسی صورت راضی نہ ہوئے، تو میں نے جا کر خود ہی نکاح کرلیا پھر ، بعد نکاح گھر واپس آ گئی کچھ دنوں کے بعد جب گھر والوں کو پتہ چلا تو گھر والوں کا بہت سخت رد عمل ہوا میری امی نے ہر طرح سے مجھے سمجھا کر ڈرا کر خلع کے لئے راضی کرلیا حالانکہ میں خلع کرنا نہیں چاہتی تھی۔ کچھ دن کے بعد قاضی صاحب آئے اور خلع کے پیپر پر سائن کروائے جب میں نے ان کو بتایا کہ میں خلع کے پیپر پر سائن کر چکی ہوں تو انہوں نے کہا کہ وہ مجھے کبھی بھی طلاق نہیں دیں گے۔ کچھ دن کے بعد امی بتائیں کے میرا خلع ہو چکا ہے۔ جب میں نے اس لڑکے سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی نوٹس آیا تھا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ کوئی بھی پارسل یا نوٹس مجھے نہیں ملا ہے۔ گھر والوں نے میری کہیں اور شادی کروا دی ہے۔ میری جب بھی ان سے بات ہوئی تو انہوں نے یہی کہا کہ ہمارا خلع نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کچھ عالم دین سے بھی پوچھا ہمارے مسئلے کے بارے میں تو یہی جواب ملا کے بغیر لڑکے کی اجازت کے نکاح ختم نہیں ہوتا۔ لہذا وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی بھی ان کے نکاح میں ہوں اب مجھے اور زیادہ پریشانی ہوتی ہے کہ پتہ نہیں میرا کونسا نکاح جائز ہے اور کونسا ناجائز خدا کے لئے آپ میری صحیح رہنمائی فرمائیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مسئولہ میں آپ کا دوسرا نکاح صحیح ہے اور پہلا نکاح نہ ہوا تھا کہ وہ خان جاہل لڑکا آپ کاکفو نہیں اور غیر کفو میں جب تک ولی آگاہ ہوکر قبل از نکاح صریح طور پر اجازت نہ دیدے نکاح نہیں ہوتا اور آپ نے اپنے والد صاحب کو بتائے بغیر خود ہی نکاح کرلیا تھا اس لئے اس سے نکاح نہ ہوا۔
اعلی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں: "سیدہ عاقلہ بالغہ اگر ولی رکھتی ہے تو جس کفو سے نکاح کرے گی ہوجائے گا. اور اگر غیر کفو سے بے اجازت صریحہ ولی نکاح کرے گی تو نہ ہوگا جیسے کسی شیخ، انصاری یا مغل، پٹھان سے” اھ (فتاوی رضویہ جدید ملخصاً ج١١، ص٧٣٣، کتاب النکاح، باب الکفائۃ فی النکاح، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں: "اگر اس (یعنی سیدزادی) کا کوئی ولی یعنی باپ ، دادا ، پردادا ، ان کی اولاد ونسل سے کوئی مرد موجود ہے اور اس نے پیش از نکاح اس شخص کو غیر قریش جان کر صراحۃ اس نکاح کی اجازت دے دی ، جب بھی جائز ہوگا، ورنہ بالغہ کا کیا ہوا بھی باطلِ محض ہوگا۔“ (فتاوی رضویہ جدید، ج١١، ص٧١٩، کتاب النکاح ، باب الکفائۃ فی النکاح ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور) واللہ تعالیٰ ورسولہ ﷺ اعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد صدام حسین برکاتی فیضی
٣ذی القعدۃ ١٤٤٤ھ مطابق ٢٤مئی ٢٠٢٣ء