سسر پر زنا کا الزام لگایا تو اس کے شوہر کا نکاح باقی رہا یا نہیں ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ افسانہ کوثر زوجہ محمد آصف نے عطر پرویز پر زنا بالجبر کا الزام لگایا ہے ۔ عطر پرویز افسانہ کوثر کا رشتے میں سسر لگتا ہے ۔ پھر افسانہ کوثر نے اپنے شوہر کے ہمراہ تھانہ پولیس مہنڈر میں جاکر عطر پر 376 کا پرچہ بھی لگوادیا ۔ جسکا تحریری ثبوت بھی سائل کے پاس موجود ہے ۔
لہذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر بقول زوجین عطر پرویز پر زنا کا الزام ہے تو اس صورت میں آصف کی بیوی افسانہ کوثر اس پر جائز رہی یا نہیں ۔ اگر زنا کا الزام جھوٹا ہے محض عطر پرویز کو سماج میں ذلیل کرنے کے لیے 376 کا کیس لگا کرکچھ رقم وصول کرنے کے لیے ایسا گھناؤنا وگندہ الزام لگایا ہے تو ایسی صورت میں زوجین کے لیے شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں ۔
المستفتی:عطر پرویز قوم جنجوعہ ساکن اڑی مہنڈر
باسمه تعالى وتقدس
الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
صورت مسؤلہ میں عورت اور اسکے شوہر کے بیان سے ثبوت زنا نہ ہوگا کیونکہ شرعا ثبوت زنا کے لیے چار عادل گواہوں کا ہونا ضروری ہے یا یہ کہ زانی خود ہی اقرار کرلے ۔ اسکے علاوہ کسی طرح بھی زنا کا ثبوت نہیں ہوسکتا ۔ البتہ شوہر کے اپنی بیوی کے ذریعہ لگائے گیے الزام کی تصدیق کرنے کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ۔ اور عورت شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی ۔
ارشاد باری تعالی ہے"ولا تنكحوا ما نكح آبائکم من النساء” ۔ (سورة النساء: آیت:۲۲)
تفسیر مدارک میں ہے”
وقیل المراد بالنكاح الوطء أى لا تطؤا ماوطی آبائکم وفیه تحريم وطء موطوأة الاب بنكاح او بملك يمين او بزنا كما هو مذهبنا وعليه كثير من المفسرين ۔ (ج۱ص۲۱۴ المكتبة الشيعيه)
اور فتاوی عالمگیری میں ہے "تحرم المزني بها على آباءالزانى وأجداده وان علوا وابنائه وان سفلوا كذا فى فتح القدير”(ج۱ص۳۳۹دار الفكر)
اور شوہر پر لازم ہے کہ "متارکہ” کرے۔ یعنی یہ کہے کہ میں نے اس کو چھوڑا۔ بغیر متارکہ کے دوسرے سے نکاح نہیں کرسکتی۔متارکہ کے بعد عدت گزار کرعورت کسی دوسرے شخص سنی صحیح العقیدہ سے نکاح کرسکتی ہے ۔
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:
"اس فعل سے عورت اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے مگر نکاح زائل نہیں ہوتا۔ نہ عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے جب تک شوہرمتارکہ نہ کرے، ،مثلاً کہے میں نے تجھے چھوڑا، اور عدت گزرے اس کے بعد نکاح دوسرے سے کرسکے گی،درمختار میں ہے:بحرمہ المصاہرۃ لایرتفع النکاح حتی لایحل لہا التزوج بآخر الا بعد المتارکۃ وانقضاء العدۃ۔ عورت کا بیان کوئی چیز نہیں جب تک شوہر اس کی تصدیق نہ کرے۔درمختار میں ہے:لان الحرمۃ لیست الیھا قالو اوبہ یفتی فی جمیع الوجوہ بزازیہ”۔
(فتاوی رضویہ ج۵ص۳۰۴تا۳۰۵)
اب اگر یہ معاملہ دخول یا خلوت صحیحہ کے بعد پیش آیا ہے اور عورت کا مہر مقرر ہے تو مقررہ مہر ورنہ مہر مثل دینا شوہر پر واجب ہوگا،اگر دخول یا خلوت صحیحہ سے پہلے پیش آیا اور مہر مقرر ہے تو اس کا نصف ورنہ متعہ شوہر پر واجب ہوگا،متعہ تین کپڑے ہیں (۱)کرتہ (۲)پاجامہ(۳)دوپٹا،یہ مرد اور عورت کی حیثیت کے مطابق ہوگا۔
لیکن یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب ثبوت زنا نہ ہوا تو حرمت مصاہرت کیسے ثابت ہوگئی اس کا حل یہ ہے کہ”اقرار”حجت قاصرہ ہے-چنانچہ اقرار کی بنا پر آدمی اپنی ذات کی حد تک ماخوذ ہوتا ہے لیکن اس اقرار کا اثر دوسرے پر مرتب نہیں ہوتا ہے-
فتاوی رضویہ میں ہے
"اور یہ کوئی نئ بات نہیں کہ اقرار واحد من جهةمقبول اور من جهة مردود ہو اقرار حجت قاصرہ ہے ہمیشہ اس کی یہی شان ہوتی ہے کہ جہاں تک مقر پر اس کا ضرر ہے ماخوذ اور جتنا دوسرے پر الزام ہے منبوذ،ولہذا اگر کسی کی کنیز سے نکاح کیا اس نے پیش از دخول اس کے پسر کا بوسہ لیا شوہر کہتا ہے بوسہ بشہوت تھا حرمت ثابت ہوگئی مگر حق اسقاط مہر میں مسموع نہ ہوگا نصف مہر دینا آئیگا جبکہ مولی شہوت کنیز وقصد افساد کو نہ مانتا ہو ۔
ہندیہ میں ہے"تزوج بامة رجل ثم أن الامة قبلت ابن زوجها قبل الدخول بها فادعى الزوج انها قبلته بشهوة وكذبه المولى فانها تبين من زوجها لاقرارالزوج انها قبلت بشهوة ويلزمه نصف المهر بتكذيب المولى اياه انها قبلته بشهوة ولا يقبل قول الامة فى ذالك لو قالت قبلته بشهوة كذا فى المحيط”
(ج ۵ ص ۲۳۴)
جب یہ بات معلوم ہوگئ کہ بغیرثبوت شرعی کے ثبوت زنا نہیں ہوسکتا تو عورت کے سسر پر بظاہر شرعا کوئی سزا یا تعزیر نہیں۔لیکن اگر یہ الزام درست ہو تو اسکو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں صدق دل سے توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے-
شرعی طور پر ثبوتِ زنا کے بغیر مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ مسؤل عنہ کے متعلق کسی طرح کی کوئی بدگمانی رکھیں کیونکہ کسی بھی مسلمان کے ساتھ بدگمانی رکھنا حرام ہے،اور رہی بات مسؤل عنه کو سماج میں ذلیل کرنے کے لیے کیس کرکے کچھ رقم حاصل کرنے کی تو یہ نہایت قبیح حرکت ہے اور ایسی رقم حاصل کرنا حرام سخت حرام ہے ۔ تعزیر بالمال منسوخ ہے اور اس پر عمل کرنا حرام۔ اگر حاصل کرچکے ہوں تو لوٹانا ضروری ہے ۔
واللہ تعالی اعلم بالحق والصواب
کتبہ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ خادم دار العلوم نظامیہ نیروجال راجوری جموں وکشمیر.
۴/ربیع الثانی ۱۴۴۳ھ مطابق ۱۰/نومبر ۲۰۲۱ء۔
الجواب صحيح
محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی