مسئلہ افضلیت میں احادیث شریفہ اورائمہ دین کے اقوال وفیصلے

مسئلہ افضلیت میں احادیث شریفہ اورائمہ دین کے اقوال وفیصلے

حضورتاجدارختم نبوتﷺکافیصلہ
عَنْ أَبِی عُثْمَانَ، قَالَ:حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ العَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، بَعَثَہُ عَلَی جَیْشِ ذَاتِ السُّلاَسِلِ، فَأَتَیْتُہُ فَقُلْتُ:أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْکَ؟ قَالَ:عَائِشَۃُ، فَقُلْتُ:مِنَ الرِّجَالِ؟ فَقَالَ:أَبُوہَا، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ فَعَدَّ رِجَالًا۔
ترجمہ :حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ توآپﷺنے فرمایا:عائشہ (رضی اللہ عنہا) میں نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!مردوں میں کون ہے ؟ توآپﷺنے فرمایا: ابوبکر(رضی اللہ عنہ) میں نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!پھران کے بعد کون ہے؟ توآپﷺنے فرمایا: پھرعمر( رضی اللہ عنہ) پھراس طرح اوربھی مردوں کے نام ارشادفرمائے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۵)
حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کافیصلہ
فَقَالَ عُمَرُ:بَلْ نُبَایِعُکَ أَنْتَ، فَأَنْتَ سَیِّدُنَا، وَخَیْرُنَا، وَأَحَبُّنَا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ عُمَرُ بِیَدِہِ فَبَایَعَہُ، وَبَایَعَہُ النَّاسُ۔
ترجمہ :حضرت سیدتناعائشۃ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ سقیفۂ بنی ساعدہ کے موقع پر امیر المومنین حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا :آپ ہمارے سردار، ہم میں سب سے بہتر اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ملخصاً۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۶)
حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کافیصلہ مقدسہ
وَابْن عَسَاکِر أَن عمر صعد الْمِنْبَر ثمَّ قَالَ أَلا إِن افضل ہَذِہ الْأمۃ بعد نبیہا أَبُو بکر فَمن قَالَ غیر ہَذَا فَہُوَ مفتر عَلَیْہِ مَا علی المفتری۔
ترجمہ :امام ابن عساکررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ منبرپرجلوہ فرماہوئے اورفرمایاکہ خبردار!حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ ہیں ، جس نے اس کے خلاف بات کی تومیں اس پرمفتری کی سزاجاری کروں گا۔
(الصواعق المحرقہ:أحمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی السعدی الأنصاری(۱:۱۹۶)

حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کافیصلہ مقدسہ

عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِیَّۃِ، قَالَ:قُلْتُ لِأَبِی أَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَبُو بَکْرٍ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ عُمَرُ، وَخَشِیتُ أَنْ یَقُولَ عُثْمَانُ، قُلْتُ:ثُمَّ أَنْتَ؟ قَالَ:مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ المُسْلِمِینَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ سے جب ان کے صاحبزادے حضرت سیدنا محمد بن الحنفیہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد لوگوں میں کون سب سے بہتر ہے.؟ تو حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، میں نے پھرسوال کیاکہ ان کے بعد کون ہے ؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاپھرعمررضی اللہ عنہ ہیں ، میں نے پھرسوال کیاکہ ان کے بعد آپ ہیں؟توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں تواہل اسلام میں سے ایک فردہوں۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۷)

حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کافرمان عالی شان

عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ، قَالَ:سَمِعْتُ عَلِیًّا، یَقُولُ:َٔلا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا؟ أَبُو بَکْرٍ ثُمَّ قَالَ:َٔلا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ أَبِی بَکْرٍ، عُمَرُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوجحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کوفرماتے ہوئے سناکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں،پھرآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں تم کو یہ خبرنہ دوں کہ اس امت میں حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ وہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ہیں۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲:۲۰۰)

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کافیصلہ

ونقر بأن أفضل ہذہ الأمۃ بعد نبیہا محمد علیہ أفضل الصلاۃ والسلام أبو بکر ثم عمر ثم عثمان، ثم علیّ رضی اللہ عنہم أجمعین.
ترجمہ :حضرت سیدناامام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اقرارکرتے ہیں کہ اس امت میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد سب سے افضل حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں،ان کے بعدحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ ، ان کے بعد حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ ہیں۔
(شرح الفقہ الأکبرا لملاعلی قاری حنفی : ۱۰۸)

امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کافیصلہ مقدسہ

وَقد سَأَلَ الرشید مَالک بن أنس عَن منزلہ أبی بکر وَعمر من النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم فَقَالَ منزلتہما مِنْہُ فِی حَیَاتہ کمنزلتہما مِنْہُ بعد مماتہ۔
ترجمہ :حضرت سیدناہارون الرشیدرحمہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ سے حضرت سیدناابوبکروعمررضی اللہ عنہماکے متعلق سوال کیاتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ شیخین کریمین رضی اللہ عنہماکامقام حضورتاجدارختم نبوتﷺکے نزدیک آپﷺکی حیات مبارکہ میں وہی تھاجوآج آپﷺکے وصال شریف کے بعدہے۔
(المنتقی:شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۱:۵۹۵)
امام شافعی رضی اللہ عنہ کافیصلہ
افضل الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أبو بکر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علی رضی اللہ عنہم۔
ترجمہ :امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد سب سے افضل حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے بعدحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ ہیں۔
(مناقب الإمام الشافعی:محمد بن الحسین بن إبراہیم بن عاصم، أبو الحسن الآبری السجستانی:۶۸)الدار الأثریۃ

إمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

وخیر الأمۃ بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم أبو بکر، وعمر بعد أبی بکر، وعثمان بعد عمر، وعلی بعد عثمان ووقف قوم علی عثمان وہم خلفاء راشدون مہدیون۔
ترجمہ :اوراس امت میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعدسب سے افضل حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بعد حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے بعدحضر ت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے بعد حضر ت سیدنامولاعلی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اوریہ سب کے سب خلفاء راشدین مہدیین ہیں ۔
(طبقات الحنابلۃ:أبو الحسین ابن أبی یعلی، محمد بن محمد (ا:۳۱۳)

حضرت سیدنایوسف بن عدی رحمہ اللہ تعالی کافیصلہ

وَہْبٌ قَالَ: وَحَدَّثَنِی اِبْنُ وَضَّاحٍ قَالَ: سَأَلْتُ یُوسُفَ بْنَ عَدِیٍّ فَقُلْتُ لَہُ: أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ أَفْضَلُ ہَذِہِ اَلْأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَاﷺقَالَ: نَعَمْ، وَلَیْسَ یَخْتَلِفُ فِی ذَلِکَ إِلَّا مَنْ لَا یُعْبَأُ بِہِ، وَإِذَا أَرَدْتَ فَضْلَہُمَا فَانْظُرْ إِلَیْہِمَا مِمَّا جَعَلَہُمَا اَللَّہُ مَعَ نَبِیِّہِ فِی قَبْرٍ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام وہب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سیدناوضاح رحمہ اللہ تعالی نے بیان کیاکہ میں نے حضرت سیدنایوسف بن عدی رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیاکہ کیاحضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ اس امت میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد افضل ہیں؟ توانہوںنے فرمایاکہ ہاں۔ اوراس مسئلہ میں سوائے فتنہ پرورشخص کے کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا، اورجب توچاہے کہ شیخین کریمین رضی اللہ عنہماکامقام ملاحظہ کرے توپھران دونوں کامزاردیکھ آج بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پہلواقدس میں آرام کررہے ہیں۔
(أصول السنۃ:أبو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن عیسی بن محمد المعروف بابن أبی زَمَنِین المالکی(۲۷۲)

امام أبو العون السفارینی الحنبلی المتوفی : ۱۱۸۸ھ) کافیصلہ مقدسہ

وَہُوَ أَفْضَلُ الصَّحَابَۃِ وَخَیْرُہُمْ بِإِجْمَاعِ أَہْلِ السُّنَّۃِ، فَقَدْ أَجْمَعَ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ عَلَی أَنَّ أَفْضَلَ الصَّحَابَۃِ وَالنَّاسِ بَعْدَ الْأَنْبِیَاء ِ عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَبُو بَکْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ عَلِیٌّ، ثُمَّ سَائِرُ الْعَشَرَۃِ، ثُمَّ بَاقِی أَہْلِ بَدْرٍ، ثُمَّ بَاقِی أَہْلِ أُحُدٍ، ثُمَّ بَاقِی أَہْلِ بَیْعَۃِ الرِّضْوَانِ، ثُمَّ بَاقِی الصَّحَابَۃِ، ہَکَذَا إِجْمَاعُ أَہْلِ الْحَقِّ، فَأَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ أَفْضَلُ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُنَازِعُ فِی ذَلِکَ إِلَّا زَائِغٌ۔

ترجمہ :امام أبو العون محمد بن أحمد بن سالم السفارینی الحنبلی المتوفی : ۱۱۸۸ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں افضل ہیں اورسب سے بہترہیں ، اس پرتمام اہل سنت وجماعت کااجماع ہے کہ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہم حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد سب سے افضل ہیں ، ان کے بعد حضر سیدناعمررضی اللہ عنہ ، ان کے بعد حضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ ، ان کے بعد حضر ت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ ، پھرسارے عشرہ مبشرہ ، پھران کے بعد باقی اہل بدر، پھران کے بعداہل احدشریف ، پھران کے بعدباقی بیعت رضوان والے ،پھرباقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اوراسی طرح اہل حق کااجماع ہے کہ حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں افضل ہیںاوراس مسئلہ میں سوائے بددماغ شخص کے کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا۔
(لوامع الأنوار البہیۃ:شمس الدین، أبو العون محمد بن أحمد بن سالم السفارینی الحنبلی (۲:۳۱۲)
افضلیت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کاعقیدہ رکھناواجب ہے
اعْلَمْ أَنَّ الْوَاجِبَ اعْتِقَادُہُ أَنَّ أَفْضَلَ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْخُلَفَاء ُ الرَّاشِدُونَ الْأَرْبَعَۃُ: أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ ۔
ترجمہ :امام أبو العون محمد بن أحمد بن سالم السفارینی الحنبلی المتوفی : ۱۱۸۸ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تویہ یقین کرلے کہ یہ عقیدہ رکھناواجب ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد سب سے افضل حضرات خلفاء اربعہ راشدین رضی اللہ عنہم ہیں:حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ، حضر ت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ ،حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ ۔
(لوامع الأنوار البہیۃ:شمس الدین، أبو العون محمد بن أحمد بن سالم السفارینی الحنبلی (۲:۳۱۲)م
امام ابوجعفرالطحاوی الحنفی المتوفی : ۳۲۱ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
ونشہد ونؤمن أن أفضل ہذہ الأمۃ بعد نبیہا صلی اللہ علیہ وسلم ہو أبو بکر الصدیق فعمر بن الخطاب فعثمان فعلی۔
ترجمہ :امام ابوجعفرالطحاوی الحنفی المتوفی : ۳۲۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں اورایمان رکھتے ہیں کہ اس امت میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے بعد سب سے افضل حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، پھران کے بعدحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ، پھران کے بعد حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں اوران کے بعد پھرحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ ہیں ۔
(القضایا الکلیۃ للاعتقاد فی الکتاب والسنۃ:عبد الرحمن بن عبد الخالق الیوسف:۵۵)

سیدناعبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

مُوسَی بْنَ مُحَمد بْنِ حَیَّانَ یَقُولُ:سَمعتُ عَبد الرَّحْمَنِ بْنَ مَہْدِیٍّ یَقُولُ:أَفْضَلُ ہَذِہِ الأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا أَبُو بَکْرٍ ثُمَّ عُمَر ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ یَقِفُ.
ترجمہ :حضرت سیدناموسی بن محمدبن حیان رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناعبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ تعالی کوفرماتے ہوئے سنا کہ اس امت میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد سب سے افضل حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ ہیں ، اس کے بعد وہ خاموش ہوجاتے تھے ۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال:أبو أحمد بن عدی الجرجانی (۱:۲۰۲)

سیدناعبدالرحمن بن صالح الازدی الکوفی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

عبد الرحمن بن صالح الأزدی، أبو محمد الکوفی.وقال البغوی:سمعتہ یقول:أفضل ہذہ الأمۃ بعد نبیہا أبو بکر وعمر.
ترجمہ :امام بغوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ میں نے حضرت سیدناعبدالرحمن بن صالح الازدی الکوفی رحمہ اللہ تعالی سے سناکہ اس امت میں سب سے افضل حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے بعدحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ہیں ۔
(میزان الاعتدال فی نقد الرجال:شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی (۲:۵۵۹)

امام النووی المتوفی : ۶۸۶ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

وَاتَّفَقَ أَہْلُ السُّنَّۃِ عَلَی أَنَّ أَفْضَلَہُمْ أَبُو بَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ۔
ترجمہ:امام أبو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف النووی المتوفی : ۶۸۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں ۔
(المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج:أبو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف النووی (۱۵:۲۴۸)
امام أبو محمد الحسین البغوی الشافعی المتوفی : ۵۱۶ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
وَالْحَدِیثُ یَدُلُّ عَلَی تَفْضِیلِ الْخُلَفَاء ِ الرَّاشِدِینَ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ مِنَ الصَّحَابَۃِ، وَہُمْ: أَبُو بَکْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِیٌّ، فَہَؤُلاء ِ أَفْضَلُ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِیِّینَ وَالْمُرْسَلِینَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِمْ، وَتَرْتِیبُہُمْ فِی الْفَضْلِ، کَتَرْتِیبِہِمْ فِی الْخِلافَۃِ، فَأَفْضَلُہُمْ أَبُو بَکْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ عَلِیٌّ۔
ترجمہ :امام أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی المتوفی : ۵۱۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، عمر فاروق، عثمان غنی، علی رضی اللہ عنہم حضرات انبیاء ومرسلین کریم علیہم السلام کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل ہیں ، اور پھر ان چاروں میں افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب سے ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ ہیں لہٰذا وہ سب سے افضل ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ، ان کے بعد حضرت سیدنا مولاعلی رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔
(شرح السنۃ:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی(۱:۲۰۸)

امام ابن حجر العسقلانی الشافعی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

وَأَنَّ الْإِجْمَاعَ انْعَقَدَ بِآخِرِہِ بَیْنَ أَہْلِ السُّنَّۃِ أَنَّ تَرْتِیبَہُمْ فِی الْفَضْلِ کَتَرْتِیبِہِمْ فِی الْخِلَافَۃِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ۔
ترجمہ :امام أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اہل سنت وجماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفاء راشدین میں فضیلت اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے خلافت ہے(یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں کہ وہ سب سے پہلے خلیفہ ہیں ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا مولاعلی رضی اللہ عنہم ہیں
(فتح الباری شرح صحیح البخاری:أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی(۷:۳۴)

امام جلال الدین السیوطی المتوفی : ۹۱۱ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

أجمع أہل السنۃ أن أفضل الناس بعد رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام أبو بکر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علی، ثم سائر العشرۃ، ثم باقی أہل بدر، ثم باقی أہل أحد، ثم باقی أہل البیعۃ، ثم باقی أہل الصحابۃ۔
ترجمہ :امام عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی المتوفی : ۹۱۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :اہل سنت وجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی، پھر حضرت سیدنا مولاعلی رضی اللہ عنہم ہیں ۔
(تاریخ الخلفاء :عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی:۱۳۷)

امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

اہْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِیمَ صِراطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ یَدُلُّ عَلَی إِمَامَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، لِأَنَّا ذَکَرْنَا أَنَّ تَقْدِیرَ الْآیَۃِ:اہْدِنَا صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ وَاللَّہُ تَعَالَی قَدْ بَیَّنَ فِی آیَۃٍ أُخْرَی أَنَّ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مَنْ ہُمْ فَقَالَ:فَأُولئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ (النساء :۶۹) الآیۃ وَلَا شَکَّ أَنَّ رَأْسَ الصِّدِّیقِینَ وَرَئِیسَہُمْ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، فَکَانَ مَعْنَی الْآیَۃِ أَنَّ اللَّہَ أَمَرَنَا أَنْ نَطْلُبَ الْہِدَایَۃَ الَّتِی کَانَ عَلَیْہَا أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ وَسَائِرُ الصِّدِّیقِینَ، وَلَوْ کَانَ أَبُو بَکْرٍ ظَالِمًا لَمَا جَازَ الِاقْتِدَاء ُ بِہِ، فَثَبَتَ بِمَا ذَکَرْنَاہُ دَلَالَۃُ ہَذِہِ الْآیَۃِ عَلَی إِمَامَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عنہ۔

ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ :یہ آیت مبارکہ{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِم }حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی امامت پر دلالت کرتی ہیں ، کیونکہ ان دونوں آیتوں کا معنی ہے کہ اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا کہ جن پر تیرا انعام ہوا۔اور دوسری آیت مبارکہ میں فرمایا:{اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ}یعنی اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام اور صدیقین پر انعام فرمایا۔اور اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں کہ صدیقین کے امام اور ان کے سردار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہی ہیں ۔تو اب آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وہ ہدایت طلب کریں جس پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور تمام صدیقین تھے،کیونکہ اگر وہ ظالم ہوتے توان کی اقتداء جائز ہی نہ ہوتی، لہٰذا ثابت ہوا کہ سورۃ الفاتحہ کی یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی امامت پر دلالت کرتی ہے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱:۲۲۱)

امام أحمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی المتوفی : ۹۷۴ھ) کانظریہ

اعْلَم أَن الَّذِی أطبق عَلَیْہِ عُظَمَاء الْملَّۃ وعلماء الْأمۃ أَن أفضل ہَذِہ الْأمۃ أَبُو بکر الصّدیق ثمَّ عمر۔
ترجمہ :امام أحمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی السعدی الأنصاری المتوفی : ۹۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علماء اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس اُمت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔
(الصواعق المحرقۃ:أحمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی السعدی الأنصاری(۱:۱۶۹)

حضرت سیدنامجددالف ثانی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

وافضلیت حضرات خلفاء اربعہ بترتیب خلافۃ ایشان است ، چہ اجماع اہل حق است کہ افضل است بشربعدپیغمبران صلوات اللہ تعالی وتسلیماتہ سبحانہ علیہم اجمعین ، حضرت سیدناصدیق است رضی اللہ عنہ بعدازان حضرت سیدنافاروق رضی اللہ عنہ۔

ترجمہ :خلفاء اربعہ کی افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے (یعنی امام برحق اور خلیفہ مطلق حضور تاجدارختم نبوتﷺکے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان ذو النورین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور اُن کے بعد حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں )تمام اہل حق کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہیں ۔
(مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، مکتوب۱۷، عقیدہ چھاردھم:۴۴)

الملا الہروی القاری المتوفی : ۱۰۱۴ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
امام علی بن سلطان محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری المتوفی : ۱۰۱۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ قول جس پر میرا اعتقاد ہے اللہ کے دین پر میرا مکمل اعتماد ہے کہ افضلیت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ قطعی ہے اس لیے کہ نبی اکرم ،نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوبطریق نیابت امامت کا حکم دیا اور یہ بات دین سے معلوم ہے کہ جو اِمامت میں اولی ہے وہ افضل ہے حالانکہ وہاں حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی موجود تھے اور اکابر صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَا ن بھی۔ اس کے باوجود نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو امامت کے لیے معین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ افضلیت صدیق اکبر نبی کریم روفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم میں تھی یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مصلی مبارک سے پیچھے ہٹے اور حضرت سیدنا عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو آگے کیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:ابوبکر کے سوا کوئی اور امامت کرے اللہ اور سب مومن انکار کرتے ہیں ۔
(شرح الفقہ الاکبرلملاعلی قاری حنفی :۱۲۴)

امام أحمد بن محمد بن أبی بکر بن عبد الملک القسطلانی المتوفی: ۹۲۳ھ) کانظریہ
أفضل ہذہ الأمۃ بعد نبیہا أبو بکر وعمر وعثما ن رضی اللہ عنہم ۔
ترجمہ :امام أحمد بن محمد بن أبی بکر بن عبد الملک القسطلانی المتوفی: ۹۲۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد ساری مخلوق میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔
(إرشاد الساری:أحمد بن محمد بن أبی بکر بن عبد الملک القسطلانی أبو العباس، شہاب الدین (۶:۱۰۹)

میرسید عبد الواحد بلگرامی حنفی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

میرسید عبد الواحد بلگرامی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :اس پر بھی اہل سنت کا اجماع ہے کہ انبیا ء کرام علیہم السلام کے بعد دوسری تمام مخلوق سے بہتر حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں اُن کے بعد حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ ان کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور اُن کے بعد سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ ہیں ۔
(سبع سنابل از سیدمیرعبدالواحد بلگرامی :۷)

شیخ محقق علی الاطلاق رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں خلفاء اَربعہ رضی اللہ عنہم کی افضلیت اُن کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے یعنی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پھر سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ پھرسیدنا مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ ہیں ۔(تکمیل الایمان لشیخ عبدالحق محدث دہلوی :۱۰۶)مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہورپاکستان

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حنفی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پھر حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
(تفھیمات الٰھیہ از شاہ ولی اللہ دہلوی (۱:۱۲۸)
علامہ عبدالعزیزپرہاروی حنفی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
صوفیاء کرام کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس امت میں سب سے افضل ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پھر حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
(النبراس شرح شرح العقائد،از مولاناعبدالعزیزپرہاروی :۶۹۲)

حضرت اعلی پیر مہر علی شاہ حنفی گولڑوی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

مجاہدختم نبوت حضرت اعلیپیر مہر علی شاہ حنفی گولڑوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :آیت{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٓ اَشِدَّآء ُ عَلَی الْکُفَّارِ}ترجمہ کنزالایمان:مُحَمَّد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ۔میں اللہ تعالٰی کی طرف سے خلفائے اربعہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی ترتیب خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ چنانچہ{ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ }سے خلیفہ اول (حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مراد ہیں ){اَشِدَّآء ُ عَلَی الْکُفَّار}سے خلیفہ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ){رُحَمَآء ُ بَیْنَھُم }سے خلیفہ ثالث(حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)اور{ تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً}۔۔۔اِلَخ سے خلیفہ رابع(حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم )کے صفات مخصوصہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ معیت اور صحبت میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، کفار پر شدت میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، حلم وکرم میں حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور عبادت واخلاص میں حضرت سیدنا مولا علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ خصوصی شان رکھتے تھے۔
(مِھر منیرسوانح حیات پیرمہرعلی شاہ رحمہ اللہ تعالی :۶۹۶)

امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

اعلی حضرت ، عظیم البرکت، مجدددین وملت ، پروانہ شمع رسالت، حضرت امام احمد رضا حنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :حضرات خلفاء اربعہ رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن تمام مخلوق الٰہی سے افضل ہیں ، پھر ان کی باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی پھر مولا علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی الماتریدی ( ۲۸:۶۷۸)
سیدی نعیم الدین مرادآبادی حنفی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
صدرالافاضل حضرت مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْہَادِی فرماتے ہیں :اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام عالم سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اُن کے بعد حضرت عمر اُن کے بعد حضرت عثمان اور اُن کے بعد حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔
(سوانح کربلااز سید نعیم الدین حنفی مرادآبادی :۳۸)

صدرالشریعہ مولاناامجدعلی اعظمی حنفی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ

صدر الشریعہ حضرت مولانا مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :بعد انبیاء ومرسلین، تمام مخلوقات الٰہی انس وجن وملک (فرشتوں )سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھرعمر فاروق اعظم، پھر عثمان غنی، پھر مولا علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔
(بہار شریعت از مولاناامجدعلی اعظمی (۱:۲۶۱)
حضرت سیدناابوبکروعمررضی اللہ عنہماکی افضلیت قطعی ہے
امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ (حضرت سیدنا صدیق وعمرکی افضلیت پر)جب اجماع قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیل شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا ؟ ہمارا اور ہمارے مشائخ طریقت وشریعت کا یہی مذہب ہے۔
(مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین:۸۱) مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی

جہاں نہایتیں و غایتیں ختم وہاں مقام صدیق شروع

امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں اور تحقیق یہ ہے کہ تمام اجلہ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مراتب ولایت میں اور خلق سے فنا اور حق میں بقا ء کے مرتبہ میں اپنے ماسوا تمام اکابر اولیاء عظام سے وہ جو بھی ہوں افضل ہیں اور ان کی شان ارفع واعلی ہے ا س سے کہ وہ اپنے اعمال سے غیر اللہ کا قصد کریں ، لیکن مدارج متفاوت ہیں اور مراتب ترتیب کے ساتھ ہیں اور کوئی شے کسی شے سے کم ہے اور کوئی فضل کسی فضل کے اوپر ہے اور صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا مقام وہاں ہے جہاں نہایتیں ختم اور غایتیں منقطع ہوگئیں ، اس لیے کہ صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ امام القوم سیدی محی الدین ابن عربی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی کی تصریح کے مطابق پیشواوں کے پیشوا اور تمام کے لگام تھامنے والے اور ان کا مقام صدیقیت سے بلند اور تشریع نبوت سے کمتر ہے اور ان کے درمیان اور ان کے مولائے اکرم مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درمیان کوئی نہیں ۔
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی الماتریدی ( ۲۸:۶۸۷)

معارف ومسائل

(۱) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد کائنات کے سب سے افضل و اعلی اور اللہ تعالی کے محبوب لوگ تھے،جنہیں اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکی رفاقت کے لئے منتخب فرمایا،اور ان کے ذریعے اپنے حبیب کریم ﷺکی مدد فرمائی۔ دین اسلام اگر بحفاظت ہم تک پہنچا ہے تو وہ انہی کی محنتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کرنا درحقیقت دین میں نقب لگانا ہے۔
ہم پر واجب ہے کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین سے محبت کریں، ان کا احترام کریں ، ان کی عزتوں کا دفاع کریں او ر جو ان کے آپس میںمشاجرات ہوئے ہیں ان کے بارے میں خاموش رہیں۔ جو ان کو گالی دے اس کو کافر سمجھیں کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کی جرأت وہی کرتا ہے جو کفرونفاق کی نجاست میں لتھڑا ہوا ہو (العیاذ باللہ )ورنہ وہ کیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دے سکتا ہے ؟
اور صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کو گالی دینا درحقیقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تو طعن ہے بلکہ ، شریعت ، اللہ تعالی کے رسول کریم ﷺ اور اللہ تعالی کی حکمت میں بھی طعن ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں طعن ہونا تو بالکل واضح بات ہے ۔اور شریعت میں طعن اس طرح کہ ہمارے لیے شریعت کے ناقلین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی تو ہیں ، جب ناقل شریعت ہی کو مستحق سب وشتم قرار دے دیاجائے تو لوگوں کا اللہ تعالی کی شریعت سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا ۔ اور اسی لیے بعض لوگ تو (العیاذ باللہ )صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فاجر و فاسق اور کافر تک قرار دیتے ہیں او ر گالی دیتے ہوئے حضرت سیدناابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے اشرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔
اورحضورتاجدارختم نبوتﷺ میں طعن اس طرح ہے کہ آدمی اپنے دوست کے حال پر سمجھا جاتا ہے دونوں کی قدرو منزلت کا ایک دوسرے سے اندازہ ہوتا ہے چنانچہ لوگ جب کسی کو کسی فاسق شخص کا دوست پاتے ہیں تو ان کا اس سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔
اور اللہ تعالی کی حکمت میں طعن یوں بنتاہے کہ کیا اللہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺجوکہ اشرف الخلق ہیں ان کی صحبت کے لیے ایسے فاجر و فاسق او رکافر لوگوں کا انتخاب کیا ہے (العیاذ باللہ )۔ اللہ تعالی کی قسم یہ حکمت نہیں ہو سکتی ۔
۲)صحابہ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے بلکہ یہ ارتداد عن الاسلام ہے پس جو شخص ان کو گالی دے گا اور ان سے بغض رکھے گا وہ مرتد ہے ، کیونکہ وہ ناقلین شریعت ہیں انہوں نے حدیث و سنت رسول کریمﷺ کو ہم تک پہنچایا ، وہ ناقلین وحی ہیں انہوں نے قرآن کریم ہم تک پہنچایا ، جو شخص ان کو گالی دے یا ان سے بغض رکھے یا ان کے فسق کا عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔
(۳)اس آیت کریمہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت و رفعت روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے کہ وہ ہمیشہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر خیر ہی کرے۔لہٰذا جو لوگ تاریخی روایات کا سہارا لے کر ان نفوس قدسیہ رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع یا بے سروپا اعتراضات کرتے ہیں انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے اور سوئے خاتمہ سے ڈرنا چاہیے نیز ان کا یہ عمل قرآن و سنت کے احکامات سے لاعلمی اور واضح جہالت کا ثبوت ہے اور سخت گناہ کا کام ہے۔
(۴)فقہائے کوفہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینے والے کو قتل کرنے اور روافض کو کافر قرار دینے کا قطعی فتویٰ دیا ہے امام محمد بن یوسف فریابی رحمہ اللہ تعالی سے حضرت سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کوگالی دینے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا وہ کافر ہے ، اسکا جنازہ نہیں پڑھا جا ئے گا ، نہ ہاتھ لگایا جائے گا بلکہ اسے کسی لکڑی کے ذریعے گڑھے میں ڈال کر بند کردیا جائے گا قاضی ابو یعلیٰ رحمہ اللہ تعالی نے کہا ہے فقہاء کے نزدیک جو شخص حلال سمجھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دے وہ کافر ہے اور جو حلال تو نہ سمجھے مگر گالی دے ،وہ فاسق ہے۔
(۵)امام ابو زرعہ جن کا امام مسلم کے سب سے بڑے شیوخ میں شمار ہوتا ہے نے فرمایا:جب بھی کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی کوئی خامی تلاش کر رہا ہے تو سمجھو کہ وہ زندیق (بے دین)ہے، اس لئے کہ قرآن کریم حق ہے، حضورتاجدارختم نبوتﷺ حق ہیں اورحضورتاجدارختم نبوتﷺ کی لائی ہوئی شریعت حق ہے، یہ سب کو معلوم ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی لائی ہوئی تعلیمات کو ہم تک پہنچانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں۔ لہٰذا ان پر جرح کرنا دراصل اسلامی تعلیمات و کتاب و سنت کو باطل قرار دینا ہے۔ لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جرح کرنے والے کو زندیق و گمراہ کہنا برحق ہے۔

Leave a Reply