صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پسندیدہ امور
مجھے ساری دنیابھی مل جائے تواتنی خوشی نہ ہوگی
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ:کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَعَرَّسَ مِنَ اللَّیْل فَرَقَدَ، فَلَمْ یَسْتَیْقِظْ إِلَّا بِالشَّمْسِ ، قَالَ:فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلالًا فَأَذَّنَ، فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا تَسُرُّنِی الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا بِہَا یَعْنِی الرُّخْصَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکسی سفرمیں تھے ، رات کے آخری حصے میں آپﷺنے پڑائوکیااورسوگئے، اورآنکھ اس وقت تک نہیں کھلی جب تک سورج نہیں نکل گیا۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت سیدنابلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیاانہوں نے اذان دی ، پھرآپﷺنے دورکعتیں پڑھائیں ۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے تھے کہ رخصت کی جوسہولت ہمیں دی گئی ہے مجھے اس کے بدلے میں اگردنیابھی دے دی جائے تومیں خوش نہیں ہوں گا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال(۴:۱۸۱)
ایک حدیث شریف سرخ اونٹوں سے بھی بہتر
عَنْ عِکْرِمَۃَ، قَالَ:کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ زَیْدِ بْنِ عَلِیٍّ بِالْمَدِینَۃِ، فَمَرَّ شَیْخٌ یُقَالُ لَہُ:شُرَحْبِیلُ أَبُو سَعْدٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا سَعْدٍ مِنْ أَیْنَ جِئْتَ؟ فَقَالَ:مِنْ عِنْدِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، حَدَّثْتُہُ بِحَدِیثٍ، فَقَالَ:لَأَنْ یَکُونَ ہَذَا الْحَدِیثُ حَقًّا، أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ یَکُونَ لِی حُمْرُ النَّعَمِ، قَالَ:حَدِّثْ بِہِ الْقَوْمَ، قَالَ:سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ،یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُدْرِکُ لَہُ ابْنَتَانِ، فَیُحْسِنُ إِلَیْہِمَا مَا صَحِبَتَاہُ أَوْ صَحِبَہُمَا إِلَّا أَدْخَلَتَاہُ الْجَنَّۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم مدینہ منورہ میں حضرت سیدنازید بن علی رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، وہاں سے ایک بزرگ گزرے ، جن کانام حضرت سیدناابوسعید شرحبیل رضی اللہ عنہ تھا، حضرت سیدنازید رضی للہ عنہ نے ان سے پوچھاکہ اے ابوسعید !آپ کہاں سے آرہے ہیں؟ انہوںنے کہا: امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کے پاس سے آرہاہوں۔ میںنے انہیں ایک حدیث شریف بیان کی اگریہ حدیث شریف سچی ہوتومیرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بھی بہترہے ، انہوںنے فرمایاکہ لوگوںکوبھی یہ حدیث شریف بیان کریں ۔ انہوں نے کہاکہ میں نے حضر ت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکویہ فرماتے ہوئے سناہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: جس شخص کی دوبیٹیاں ہوں اوروہ جب تک ا س کے پاس رہیں، ان کے ساتھ اچھاسلوک کرتارہے تووہ ان دونوں کی برکت سے جنت میں داخل ہوگا۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۳:۳۸۴)
محافظ ناموس رسالتﷺ کے پاس بیٹھنامیرے لئے ساری دنیاسے بہترہے
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ:سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، یَقُولُ:شَہِدْتُ مِنَ المِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ مَشْہَدًا، لَأَنْ أَکُونَ صَاحِبَہُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا عُدِلَ بِہِ، أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَدْعُو عَلَی المُشْرِکِینَ، فَقَالَ:لاَ نَقُولُ کَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَی:اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ، وَلَکِنَّا نُقَاتِلُ عَنْ یَمِینِکَ،وَعَنْ شِمَالِکَ، وَبَیْنَ یَدَیْکَ وَخَلْفَکَ فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشْرَقَ وَجْہُہُ وَسَرَّہُ۔
ترجمہ :حضر ت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنامقدادبن اسود رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھااورمجھے ان کی صحبت میں بیٹھنادوسری تمام چیزوں سے زیادہ محبوب تھا، وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورمشرکین کے خلاف دعائے جلال کرکے عرض کرنے لگے : یارسول اللہ ﷺ!خداتعالی کی قسم !ہم اس طرح نہیں کہیں گے جیسے بنی اسرائیل نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام سے کہاتھاکہ آپ اورآپ کارب تعالی جاکرلڑے ، ہم یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپﷺکے دائیں بائیں اورآگے پیچھے سے ہرطرف سے دفاع کریں گے۔ میں نے دیکھاکہ آپﷺکارخ انورخوشی سے چمک اٹھاتھا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۷۳)
کیونکہ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺبدرکے لئے روانہ ہونے لگے توتب حضرت سیدنامقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے یہ باتیں کیں کہ یارسول اللہ ﷺ!ہم آپﷺکے دفاع میں تمام اطراف سے لڑیں گے ۔ صرف یہی وجہ تھی کہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ مجھے ان کی صحبت میں بیٹھناسارے جہان سے افضل لگتاہے ۔مگرآج بے دینی کایہ عالم ہے کہ جوبھی شخص ناموس رسالت ﷺکی بات کرتاہے اس کو پکڑکرتختہ دار پرلٹکادیاجاتاہے ۔
میرافیصلہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فیصلے کے موافق ہوگیا!
عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ خِلَاسٍ، وَأَبِی حَسَّانَ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّہُ قَالَ:اخْتَلَفُوا إِلَی ابْنِ مَسْعُودٍ فِی ذَلِکَ شَہْرًا أَوْ قَرِیبًا مِنْ ذَلِکَ، فَقَالُوا:لَا بُدَّ مِنْ أَنْ تَقُولَ فِیہَا؟ قَالَ:فَإِنِّی أَقْضِی لَہَا مِثْلَ صَدُقَۃِ امْرَأَۃٍ مِنْ نِسَائِہَا، لَا وَکْسَ وَلَا شَطَطَ، وَلَہَا الْمِیرَاثُ، وَعَلَیْہَا الْعِدَّۃُ ، فَإِنْ یَکُ صَوَابًا، فَمِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنْ یَکُنْ خَطَأً، فَمِنِّی وَمِنَ الشَّیْطَانِ، وَاللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَرَسُولُہُ بَرِیئَانِ، فَقَامَ رَہْطٌ مِنْ أَشْجَعَ ، فِیہِمُ الْجَرَّاحُ، وَأَبُو سِنَانٍ فَقَالُوا:نَشْہَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَضَی فِی امْرَأَۃٍ مِنَّا یُقَالُ لَہَا: بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ، بِمِثْلِ الَّذِی قَضَیْتَ، فَفَرِحَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِذَلِکَ فَرَحًا شَدِیدًا، حِینَ وَافَقَ قَوْلُہُ قَضَاء َ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگوں نے آکریہ مسئلہ دریافت کیاکہ اگرکوئی شخص کسی عورت کے ساتھ نکاح کرے اورمہرمقررنہ کیاہواورخلوت صحیحہ ہونے سے پہلے وہ فوت ہوجائے توکیاحکم ہے ؟ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس وہ لوگ تقریباًایک مہینہ تک آتے رہے ، ان کایہی کہناتھاکہ آپ کو اس مسئلہ کاجواب ضروردیناہوگا، انہوں نے فرمایاکہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے جس نتیجے تک پہنچاہوں ، وہ آپ کے سامنے بیان کردیتاہوں ، اب میراجواب صحیح ہواتواللہ تعالی کی توفیق سے ہوگااوراگرغلط ہوگاتومیری جانب سے ہوگا۔ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺاس سے بری ہیں ۔ فیصلہ یہ ہے کہ اس عورت کو اس جیسی عورتوں کاجومہرہوسکتاہے وہ دیاجائے گا، اسے میراث بھی ملے گی اوراس پرعدت بھی واجب ہوگی۔ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کافیصلہ سن کرقبیلہ اشجع کاایک گروہ کھڑاہوا، جن میں حضرت سیدناجراح رضی اللہ عنہ اورحضر ت سیدناابوسنان رضی اللہ عنہ بھی تھے اورکہنے لگے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ہماری ایک عورت کے متعلق یہی فیصلہ فرمایاتھا، جس کانام بروع بنت واشق تھا۔ اس پرحضرت سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے کہ ان کافیصلہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فیصلے کے موافق ہوگیا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال(۷:۳۰۸)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکاایک لفظ میرے لئے ساری دنیاسے بہترہے
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ عُمَرَ اسْتَأْذَنَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْعُمْرَۃِ فَأَذِنَ لَہُ فَقَالَ:یَا أَخِی أَشْرِکْنَا فِی صَالِحِ دُعَائِکَ وَلَا تَنْسَنَا ،قَالَ:عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِی حَدِیثِہِ:فَقَالَ: عُمَرُ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِہَا مَا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضورتاجدارختم نبوتﷺسے عمرہ پرجانے کی اجازت مانگی توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کو اجازت دیتے ہوئے فرمایا: بھائی !ہمیں اپنی نیک دعائوں میں یادرکھنا، بھول نہ جانا۔ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگراس ایک لفظ ’’یااخی‘‘ کے بدلے مجھے وہ سب کچھ دے دیاجائے جن پرسورج طلوع ہوتاہے یعنی پوری دنیاتومیں اس ایک لفظ کے بدلے میں ساری دنیاکوپسندنہیں کروں گا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال(۹:۱۸۶)
تمھاراحضورتاجدارختم نبوتﷺکے سامنے بولنامیرے لئے فلاں فلاں چیز سے افضل تھا
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا شَجَرَۃٌ لَا یَسْقُطُ وَرَقُہَا وَہِیَ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ؟ أَوْ قَالَ: الْمُسْلِمِ قَالَ:فَوَقَعَ النَّاسُ فِی شَجَرِ الْبَوَادِی، قَالَ ابْنُ عُمَرَ:وَوَقَعَ فِی نَفْسِی أَنَّہَا النَّخْلَۃُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:ہِیَ النَّخْلَۃُ قَالَ:فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِعُمَرَ، فَقَالَ:لَأَنْ تَکُونَ قُلْتَہَا، کَانَ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ کَذَا وَکَذَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:درختوں میں ایک ایسا درخت بھی ہے جو کبھی پت جھڑ نہیں ہوتا اور مسلمان کو اس سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، مگر میں (کہتے ہوئے)شرما گیا۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!آپﷺ فرمائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:وہ کھجور کا درخت ہے۔میںنے حضر ت سیدناعمررضی اللہ عنہ سے اس بات کاتذکرہ کیاتوانہوںنے فرمایاکہ اس موقع پرتمھارابولنامیرے نزدیک فلاں فلاں چیز سے بھی زیادہ پسندیدہ تھا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال(۹:۲۰۸)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مجلس سرخ اونٹوں سے افضل ہے
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ:لَقَدْ جَلَسْتُ أَنَا وَأَخِی مَجْلِسًا مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِہِ حُمْرَ النَّعَمِ أَقْبَلْتُ أَنَا وَأَخِی وَإِذَا مَشْیَخَۃٌ مِنْ صَحَابَۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُلُوسٌ عِنْدَ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِہِ، فَکَرِہْنَا أَنْ نُفَرِّقَ بَیْنَہُمْ، فَجَلَسْنَا حَجْرَۃً، إِذْ ذَکَرُوا آیَۃً مِنَ الْقُرْآنِ، فَتَمَارَوْا فِیہَا، حَتَّی ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمْ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا، قَدِ احْمَرَّ وَجْہُہُ یَرْمِیہِمْ بِالتُّرَابِ، وَیَقُولُ: مَہْلًا یَا قَوْمِ، بِہَذَا أُہْلِکَتِ الْأُمَمُ مِنْ قَبْلِکُمْ، بِاخْتِلَافِہِمْ عَلَی أَنْبِیَائِہِمْ، وَضَرْبِہِمُ الْکُتُبَ بَعْضَہَا بِبَعْضٍ، إِنَّ الْقُرْآنَ لَمْ یَنْزِلْ یُکَذِّبُ بَعْضُہُ بَعْضًا، بَلْ یُصَدِّقُ بَعْضُہُ بَعْضًا، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْہُ، فَاعْمَلُوا بِہِ، وَمَا جَہِلْتُمْ مِنْہُ، فَرُدُّوہُ إِلَی عَالِمِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اورمیرابھائی ایسی مجلس میں بیٹھے ہیں کہ اس کے بدلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی ملناپسندنہیں ہیں ، ایک دفعہ میں اپنے بھائی کے ساتھ آیاتوکچھ بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد نبوی شریف کے کسی دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، ہم نے ان کے درمیان گھس کرتفریق کرنے کواچھانہیں سمجھا، اس لئے ایک کونے میں بیٹھ گئے ، اس دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم کی آیت کریمہ کاتذکرہ چھیڑااوراس کی تفسیرمیں ان کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا، یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلندہونے لگیں ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺانتہائی جلال کی حالت میں باہرتشریف لائے ، آپﷺکاچہرہ مبارک سرخ ہورہاتھا، اورآپﷺمٹی پھینک رہے تھے اورفرمارہے تھے لوگو!رک جائو!تم سے پہلی امتیں بھی اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوںنے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے سامنے اختلاف کیااوراپنی کتابوں کے ایک حصے کودوسرے حصے پرمارا۔قرآن کریم اس طرح نازل نہیں ہواکہ اس کاایک حصہ دوسرے کی تکذیب کرتاہوبلکہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتاہے ، اس لئے تمھیں جتنی بات کاعلم ہواس پرعمل کرلواورجومعلوم نہ ہوتواسے اس کے عالم سے معلوم کرلو۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال(۹:۲۰۸)
مجھ سے بڑاحدیث شریف کاعاشق کوئی نہیں تھا
عَنْ قَیْسٍ، قَالَ:نَزَلَ عَلَیْنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ بِالْکُوفَۃِ، قَالَ:فَکَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ مَوْلَانَا قَرَابَۃٌ قَالَ سُفْیَانُ:وَہُوَ مَوْلَی الْأَحْمَسِ فَاجْتَمَعَتْ أَحْمَسُ، قَالَ قَیْسٌ:فَأَتَیْنَاہُ نُسَلِّمُ عَلَیْہِ وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً:فَأَتَاہُ الْحَیُّ ، فَقَالَ لَہُ أَبِی:یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ، ہَؤُلَاء ِ أَنْسِبَاؤُکَ أَتَوْکَ یُسَلِّمُونَ عَلَیْکَ، وَتُحَدِّثُہُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. قَالَ:مَرْحَبًا بِہِمْ وَأَہْلًا، صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ سِنِینَ، لَمْ أَکُنْ أَحْرَصَ عَلَی أَنْ أَعِیَ الْحَدِیثَ مِنِّی فِیہِنَّ، حَتَّی سَمِعْتُہُ یَقُولُ:وَاللَّہِ لَأَنْ یَأْخُذَ أَحَدُکُمْ حَبْلًا فَیَحْتَطِبَ عَلَی ظَہْرِہِ، فَیَأْکُلَ وَیَتَصَدَّقَ، خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَأْتِیَ رَجُلًا أَغْنَاہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَضْلِہِ، فَیَسْأَلَہُ، أَعْطَاہُ أَوْ مَنَعَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقیس رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضر ت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوفہ میں ہمارے یہاں مہمان بنے ، ان کے ہمارے آقائوں کے ساتھ تعلقات قرابتداری کے تھے ، ہم ان کے پاس سلام کرنے کے لئے حاضرہوئے تومیرے والد ماجد نے ان سے عرض کیا: اے ابوہریرہ !یہ آپ کے ہم نسب لوگ آپ کی خدمت میں حاضرہوئے ہیںتاکہ آ پ کو سلام عرض کریں اورآپ ان کو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی کوئی حدیث شریف سنائیں ۔ حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم کو خوش آمدیدکہااورفرمایاکہ میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت اقدس میں تین سال رہاہوں ، جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ان تین سالوں کے درمیان حدیث شریف کو یادکرنے کامجھ سے بڑاعاشق کوئی نہیں رہا۔ میں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ خداتعالی کی قسم !تم میں سے کوئی آدمی رسی لے اوراس میں لکڑیاں باندھ کراپنی پیٹھ پرلادے اوراس کی کمائی خود بھی کھائے اورصدقہ بھی کرے یہ اس سے بہت بہترہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس جائے جسے اللہ تعالی نے اپنے فضل سے مال ودولت عطافرمارکھاہواوراس سے جاکرسوال کرے ، اس کی مرضی ہے کہ اس کو دے یانہ دے ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال(۱۳:۳۸۶)
مجھے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فرمان شریف کے مطابق مرناپسندہے
عَنِ الزُّہْرِیِّ، سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ المُسَیِّبِ، یَقُولُ:قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لِلْعَبْدِ المَمْلُوکِ الصَّالِحِ أَجْرَانِ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْلاَ الجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ، وَالحَجُّ وَبِرُّ أُمِّی، لَأَحْبَبْتُ أَنْ أَمُوتَ وَأَنَا مَمْلُوکٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:نیک غلام کے لیے دوہرا ثواب ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اگر اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنا اور حج بیت اللہ نیز والدہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا نہ ہوتا تو میں یہ پسند کرتا کہ میں کسی کا مملوک(غلام)رہ کر مرتا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۳:۲۴۹)
تین آیات کریمہ حاملہ اونٹنیوں سے زیادہ افضل
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَی أَہْلِہِ أَنْ یَجِدَ فِیہِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ فَثَلَاثُ آیَاتٍ یَقْرَأُ بِہِنَّ أَحَدُکُمْ فِی صَلَاتِہِ خَیْرٌ لَہُ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،انھوں نے کہا:حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ جب وہ(باہر سے)اپنے گھر واپس آئے تو اس میں تین بڑی فربہ حاملہ اونٹنیاں موجود پائے؟ہم نے عرض کی:جی ہاں!آپ ﷺنے فرمایا:تین آیات جنھیں تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں پڑھتا ہے۔وہ اس کے لئے تین بھاری بھرکم اور موٹی تازی حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۵۵۲)
میراحضورتاجدارختم نبوتﷺسے سوال کرناسرخ اونٹوں سے بہترہے
عَنْ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْکَلالَۃِ، فَقَالَ:تَکْفِیکَ آیَۃُ الصَّیْفِ فَقَالَ: لَأَنْ أَکُونَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہَا أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ یَکُونَ لِی حُمْرُ النَّعَمِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺسے کلالہ کے بارے میں سوال کیاتوآپﷺنے فرمایاکہ تجھے آیۃ الصیف ہی کافی ہے ، پھرفرمایاکہ میں حضورتاجدارختم نبوتﷺسے سوال کروں یہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے بہترہے۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال(۱:۳۷۰)