کیا روزہ کی حالت میں نمک چکھنا صحیح ہے ؟

کیا روزہ کی حالت میں نمک چکھنا صحیح ہے ؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ
(١)زید ایک پانی والی جہاز میں نوکری کرتا ہے اور اس کا کام کھانا بنانا ہے اور وہ ہمیشہ رمضان کا روزہ بھی رکھتا ہے اب رمضان المقدس کا مہینہ آنے والا ہے اور اس کو کھانا بنانا پڑتا اور کھانا بناتے وقت نمک کھانے میں کم ہے یا زیادہ پہلے معلوم کرنا رہتا ہے اور دقت یہ ہے کہ اکثر ساتھ میں کام کرنے والے مسلم ہیں وہ بھی روزہ رکھتے ہیں اور جو اس وقت ڈیوٹی پہ نہیں ہوگا وہ کسی صورت میں آ کر نہیں کھانا چکھے گا کہ کھانے میں نمک کم ہے یا زیادہ تو اب زید روزہ رکھنے کے باوجود کیا نمک ٹیسٹ کر سکتا ہے یا نہیں
(٢) نیز کیا وہ جہاز سے اترنے کے بعد روزہ رکھ سکتا ہے یا نہیں ؟

نوٹ: زید جوان ہے شیخ فانی کے لیے اور اوقات میں روزہ رکھنے کا حکم ہے تو کیازید جوان ہونے کے باوجود اور اوقات میں روزہ رکھ سکتا ہے؟

سائل محمد شفیق علیمی سعدی مدرس جامعہ حبیبیہ فیضان جنید چندوہاں الہ آباد یوپی

الجواب

(١): روزہ دار کو بغیر عذر کوئی چیز چکھنا یا چبانا (یعنی کسی سخت چیز کو دانتوں کی مدد سے نرم کرنا)مکروہ ہے۔اور اگر عذر کے ساتھ ہو تو مکروہ نہیں ہے۔ عذر کی درج ذیل مثالیں فقہائے کرام نے ذکر فرمائی ہیں:
(١) نمک وغیرہ کی کمی بیشی کے سبب عورت کو اپنے شوہر یا باندی غلام کو اپنے آقا کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔
(٢) کوئی چیز خریدی اور اس کا چکھنا ضروری ہے کہ نہ چکھے گا تو نقصان ہوگا۔
(٣) چبانے کے لیے یہ عذر ہے کہ اتنا چھوٹا بچہ ہے کہ روٹی نہیں کھا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں ،جو اُسے کھلائی جائے، نہ حیض و نفاس والی یا کوئی دوسرا غیر روزہ دار ایسا ہے جو اُسے چبا کر دیدے، تو بچہ کے کھلانے کے لیے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ نہیں۔
(دیکھیے بہار شریعت ح۵ ص١٠٠٢ ، ١٠٠٣)
لیکن یہاں یہ واضح رہے کہ چکھنا دو معنوں پر بولا جاتا ہے:
(١) چکھنے کا ایک معنی یہ ہے کہ کھانے کی کوئی چیز صرف زبان پر رکھ کر نمک وغیرہ کی مقدار معلوم کرےاور پھر تھوک دے۔ اور مکمل احتیاط رکھے کہ اس کا کوئی جز حلق سے نیچے نہ جانے پائے ۔اسی معنی کے لحاظ سے فقہائے عظام روزہ دار کو بلا عذر کسی چیز کا چکھنا مکروہ لکھتے ہیں۔
(٢) اور چکھنے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ کھانے کی کوئی چیزک تھوڑی مقدار میں کھانا۔ اس معنی کے اعتبار سے چکھنے سے بہر حال روزہ ٹوٹ جائے گا اگرچہ کوئی تلوار لیے سر پہ کھڑا ہو اور دھمکی دے رہا ہے کہ کھاو ورنہ ہم گردن اڑادیں گے۔
متعدد فقہی کتابوں کی طرف رجوع کے بعد بھی اجیر (ملازم) کو روزہ کی حالت میں چکھنے کی بلا کراہت اجازت کا صریح ذکر نظر نہ آیا۔ لیکن واضح رہے کہ روزہ دار کو بلا عذر جو چکھنا مکروہ قرار دیا گیا ہے تو اس مکروہ سے مراد مکروہ تنزیہی ہے جو داخلِ معصیت نہیں ہے۔ اس لیے اگر کسی ملازم کو بھی ملازمت پر رکھنے والے کی ناراضگی کا خوف ہو تو اس کے لیے چکھنے میں حرج نہ ہونا چاہیے۔ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"(قَوْلُهُ: وَكُرِهَ إلَخْ) الظَّاهِرُ أَنَّ الْكَرَاهَةَ فِي هَذِهِ الْأَشْيَاءِ تَنْزِيهِيَّةٌ رَمْلِيٌّ۔”
(رد المحتار، کتاب الصوم)
اور اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے رسالہ مبارکہ موسومہ باسم تاریخی”جمل مجلیة ان المکروہ تنزیھا لیس بمعصیة” اسی امر کی تحقیق میں تحریر فرمایا کہ تمکروہ تنزیہی کا خلاف معصیت نہیں ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
جواب(٢) شیخ فانی(یعنی: ایسا عمر رسیدہ کمزور آدمی کہ نہ اس کو موجودہ وقت میں روزہ کی طاقت ہو اور نہ ہی دوسرے دنوں میں قضا کی امید ہو تو اس ) کے لیے ہر روزہ کے بدلے ایک صدقہ فطر کی مقدار خیرات کرنے کا حکم ہے۔
شیخِ فانی کے لیے اور اوقات میں روزہ رکھنے کا حکم نہیں ہے ۔
ہاں! اگر شیخ فانی کے اندر بعد میں قضا روزہ رکھنے کی طاقت آجائے اگرچہ جاڑے کے چھوٹے اور ٹھنڈے دنوں میں ہی سہی تو اس کے لیے قضا کا حکم ہوگا اور اگر فدیہ دے چکا ہے تو وہ نفلی ہوجائے گا۔لیکن اس صورت میں وہ شیخِ فانی ہے ہی نہیں کما یظھر بما عرّفوہ۔ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہوگئی کہ اب روز بروز کمزور ہی ہوتا جائے گا، جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ اُس میں اتنی طاقت آنے کی اُمید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا، اُسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اورہر روزہ کے بدلے میں فدیہ یعنی دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھانا کھلانا اس پر واجب ہے، یا ہر روزہ کے بدلے میں صدقۂ فطر کی مقدار مسکین کو دیدے۔ اگر ایسا بوڑھا گرمیوں میں بوجہ گرمی کے روزہ نہیں رکھ سکتا، مگر جاڑوں میں رکھ سکے گا تو اب افطار کرلے اور اُن کے بدلے کے جاڑوں میں رکھنا فرض ہے۔
اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ روزہ رکھ سکے ، تو فدیہ صدقۂ نفل ہوکر رہ گیا ان روزوں کی قضا رکھے۔”
(بہار شریعت ح ۵ ص١٠١٢)
اب جب احتیاط سے اس طرح چکھنے میں جس سے کوئی ذرہ حلق سے نیچے نہ جانے پائے روزہ نہیں ٹوٹتا تو پھر دوسرے دنوں میں روزہ کی قضا کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہاں! اگر ایسا آدمی روزہ رکھے ہی نہیں تو قضا کا حکم ضرور ہوگا۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

کتبہ: محمد نظام الدین قادری، خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی۔
٣/رمضان المبارک ١۴۴٣ھ // ۵/اپریل ٢٠٢٢ء

Leave a Reply