روحانیت سے مادیت تک کاسفرکیسے طے ہوا؟

روحانیت سے مادیت تک کاسفرکیسے طے ہوا؟

مولانامحمد آفتاب عالم مصباحی سیتامڑھی حفظہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ زمانے میں جوں جوں انگریزی تعلیم وتعلم کا دامن وسیع ہوتاگیا،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا،عوام الناس میں بھی بڑی سرعت سے ذہنی وفکری تبدیلی آنی شروع ہوگی اورمادیت پسندی کا رجحان ترقی پاتا گیا۔اخلاقی قدروں سے بے اعتنائی برتی جانے لگی،قدیم تہذیب وثقافت اور ایک صالح معاشرہ کے اوپر سے وثوق واعتماد اٹھتا گیا۔ہر قدیم طریق کار اور اصول کو بدلنے اورجدیدیت کو فروغ دینے کے لیے مختلف صورتوں سے اسباب وتدابیر فراہم کرنے لگے۔رہن سہن، مکان لباس، کھان پان،عادت واعتبار،طرزِتکلم،اندازِبیاں اور عام معمولات زندگی میں مادی تہذیب کا اثر و رسوخ ہوگیا۔زیادہ کمانے دولت وثروت جمع کرنے عمدہ ولذیذکھانے پینے قیمتی اور زرق برق لباس زیب تن کرنے نیزسوسائٹی میں نمایاں مقام حاصل کرنیکاعمل تیزی سے بڑھتاگیا،یہاں تک کہ مذہب کی روحانی قدرومنزلت سے لوگ بیزارہوگئے،اس پرمستزادسائنس اور جدیدسہولیات کی ترقی،علمِ جدید کاکھلا چیلینج اورایجادواختراع میں غیرمعمولی پیش رفت،انسانوں کے لیے مادیت کی نئی دنیا دریافت کرنے میں سنگ میل ثابت ہوگئی۔اب سواے مادیت پرستی اوراس راہ میں ہرطرح کی توانائی صرف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ رہ گیا۔اس راہ میں ایک ریس شروع ہوئی اورایک دوسرے پرسبقت لے جانے کاسلسلہ اس قدردرازہواکہ مادیت پسندی ہی دراصل ہمارا نصب العین اورحصولِ زندگی بن گیا۔مادی وسائل کی فراوانی مال و دولت کی ریل پیل ٹیکنالوجی اور صنعت وحرفت کی بے حساب ترقی،اقوامِ مشرق کے لئے پیامِ رحمت نہ ثابت ہو سکی اس کے نتیجہ میں اخلاقی انحطاط شروع ہوگیاہے۔جن باتوں کو سماج ومعاشرہ میں لوگ معیوب گردانتے تھے آج وہی ہنر اور لائق تحسین قرارپاگئی۔جہاں حمیت وہمدردی تھی وہاں بے رحمی وبے رخی،جہاں نرم گوئی ونرم خوبی تھی وہاں درشتی اورسخت خونی کا دور دورہ ہو گیا اور جہاں الفت و محبت کی شاخ لگائی گئی تھی وہاں آج نفرت وعداوت کا بیج بو دیا گیا ہے۔مادیت پرستی کی بو ہر چہارجانب پھیلی ہوئی ہے۔آج مادیت پرستی بڑی تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔

مادیت پرستی سے انگریزی تعلیم یافتہ لوگ زیادہ متاثرہوئے ہیں

آج کی تیز رفتار دنیا بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کے بلند مقام پرپہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آرام وآسائش کی جدیدترسہولیات حاصل ہوگئی ہیں، انسان دنیا کو اپنی مٹھی میں کر نے اورچاندپر گھر بسانے کی سوچ رہاہے۔ لیکن دوسری طرف وہ اخلاق کی اتنی پستی میں جاگرا ہے کہ اسے انسان کہنا گویالفظ انسان کی توہین ہے۔ اگر ہم اخلاقی گراوٹ کے اسباب پر نظر ڈالیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسان خدا ترس ہونے کے بجائے مادہ پرست ہوگیاہے۔
مال ودولت کا حصول اور مادہ پرستی، دو الگ الگ چیزیںہیں۔ مال جو انسان کی ضرورت ہے۔ کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت اور ان کی ضرورت کی خاطر پیداکی گئی ہیں مگر خود انسان اپنے مالک کی عبادت اور اس کی اطاعت کے لیے پیدا کیاگیاہے۔ اس طرح مال کا حصول اس کی ضرورت ہے مگر مادہ پرستی اللہ کی عبادت و اطاعت کے خلاف ہے۔ اس صورت میں انسان اپنے خالق و مالک کی مرضی کو بھول کر وہ تمام کام کرتا ہے جو خود اس کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ اس کو اس مثال کے ذریعے بہت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کشتی خشکی میں توچلتی نہیں ،اسے پانی پر ہی چلایاجاتا ہے لیکن اگر کشتی میں پانی لبالب بھر جائے تو یہی پانی اس کشتی کو غرقاب کردیتا ہے۔
مادہ پرستی وہ مہلک مرض ہے جو انسانی اخلاق و کردار اور سماج کو متاثر کرتا ہے،پھر یہی بد اخلاق و بد کردار شخص رفتہ رفتہ الحاد کی طرف چلا جاتاہے اور اس کی عاقبت خراب ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس سے انسان کو متنبہ کیا ہے مادیت اور مادیت پرستی کو اسباب فریب قراردیتے ہوئے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی مزین بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔ (آل عمران)

مادہ پرستی نے انسان کے اخلاق کوبری طرح متاثرکیا ہے ،جس سے پورا معاشرہ فساد و بگاڑ کی آماج گاہ بن گیاہے۔ انسان ہر چیز میں مادی مفاد کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ مادہ پرست انسان مادی ترقی، مال و زر اور اسباب کی کثرت کو زندگی کا معراج تصورکرتا ہے۔ اگر چہ وہ خدائی ضابطوں،انسانی رشتوں اور اخلاقی قدروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ انسانی زندگی میں توازن ، اعتدال اور ہم آہنگی قائم رکھنا دشوار ہورہاہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگرعلم عام ہوجائے ،لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوجائیں تو سماجی زندگی بہترہوجائے۔ مگریہ بات حقیقت سے پرے معلوم ہوتی ہے۔ اس دورمیں علم پہلے کے مقابلہ میں زیادہ عام ہے۔ تعلیم کا درجہ بڑھ رہاہے۔ مگر اخلاق و کردار کا درجہ نیچے جارہاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں اخلاقی تعلیم پرکم مادہ پرستی اور مادی تعلیم پر زیادہ زور دیاجارہاہے۔ گویا تعلیمی مراکز انسانوں کو مشین بنانے کی فیکٹریاں ہیں،جہاں انسانی جذبات نہیں ہوتے بلکہ مادیت اور ان میںزیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے گرسکھائے جاتے ہیں۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی نے مادہ پرستی کے غلبے کو دیکھتے ہوئے اس کی خامی کو کچھ اس طرح پیش کیاہے
یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
معاشرے میں جھوٹ،رشوت ،دھوکہ دھڑی ، لوٹ کھسوٹ اورحقوق کی پامالی اسی مادہ پرستی کے کرشمے ہیں۔ کل تک لوگ غریبوں کی مدد کے لیے آگے آتے تھے، ان کی ضروریات کی تکمیل کوانسانی فریضہ سمجھتے تھے،غریبوں کوکھانا دینے کے بعدہی کھاتے تھے۔ ہر کس و ناکس سے گفتگو کے دوران نرم لہجہ اختیار کرتے تھے۔ اس سے ان کے اخلاق کی بلندی کا اظہار ہوتا تھا، مگر اب عالم یہ ہے کہ لوگ غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ مزدوروںکا خون چوس لینے کے بعد بھی ان کوپوری مزدوری نہیں دیتے۔ گفتگو کے دوران ایسا سخت لہجہ استعمال کرتے ہیں کہ بسا اوقات معاملہ لڑائی تک جاپہنچتا ہے۔ رشتہ داری نبھانا تو درکنار اپنے والدین پر خرچ کرنے کو بھی اپنامادی نقصان تصور کرنے لگتے ہیں ، اولاد ہوتے ہوئے بھی والدین بے سہاراہوتے ہیں۔ جب کہحضورتاجدارختم نبوتﷺ کی ہدایت ہے کہ گفتگو میں نرمی رکھی جائے، مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی مزدوری دی جائے ،کسی پر ظلم نہ کیاجائے، کسی کے ساتھ دھوکہ نہ کیاجائے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے۔ یہ وہ ا خلاقی تعلیمات ہیں، جنھیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ایمان کا حصہ قرار دیاہے۔

مادہ پرستی نے انسانوںکو خونخوار حیوان بنادیا ہے۔ بچوںکو اغواکرنا ، اس کے عوض ان کے والدین سے کثیر رقم کا مطالبہ کرنا ، ان کے ہاتھ پیر کاٹ کران سے بھیک منگوانا۔ یہ سارے کام مال و دولت کے حصول اور مادہ پرستی کے جذبے سے ہی انجام دیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر ی کی تعلیم حاصل کرنے کا مقصدعام لوگوں کو علاج معالجہ کے ذریعہ امراض سے شفایاب کرنا ہے،مگر مادہ پرستی نے ڈاکٹروں پر بھی ایسا جادو کیا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو بھول جاتے ہیںاور مریضوں کے ساتھ ایک جلاد کی طرح معاملہ کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ علاج کے نام پر ان کے خون پسینے کی کمائی کو چوس لتے ہیں، بلکہ بسا اوقات ان کا غیرضروری آپریشن کرکے ان کے گردے تک نکال لیتے ہیں۔
مادہ پرستی نے خواتین کو بھی اپنے جھانسے میں لے لیاہے اور انھیں مستقبل کے سبزباغ دکھاکر سماج میں ذلیل اور رسوا کیاہے،اس بنا پرازدواجی زندگی تلخ ہورہی ہے۔ مغرب کے تیار کردہ آزادی نسواں اور مساوات کے پر فریب جال میں پھنس کرعورتیں سرِراہ اپنے جسموں کی نمائش کرتی پھرتی ہیں۔ معمولی معمولی چیز وں پر ان کی فحش تصاویراس بات کا بین ثبوت ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوںمیںچند ٹکوں کے عوض ان سے خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
مادیت کے غلبے نے انسان کو اندھا ،گونگا ،بہرہ بنادیاہے۔ آنکھوں کو خیرہ کردینے والی مرغوباتِ دنیا نے مادیت پرستی میں ایسا اضافہ کیا ہے کہ انسان اپنا چین و سکون کھوبیٹھا ہے،اس کے پاس نہ وقت ہے اورنہ سوچنے کے لیے خالی دماغ !معیار زندگی کو بلند سے بلند کرنے کے خیال نے اسے بے حال اورپرملال کردیاہے۔ اسے غم ہے توصرف اس بات کا کہ وہ دوسروںکی طرح امیرکیوںنہیں ہے؟ جب کہ وہ بھول گیا ہے کہ اس کائنات کے خالق عزوجل کی ہر وقت اس پر نگاہ ہے۔ اگرانسان یہ سمجھتاہے کہ مال وزر کی کثرت اسے معاشرے میں باوقار بنائے گی اور اس سے وہ ہر طرح کی راحت و اطمینان کو خرید سکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے ۔
آج اگر انسانوں کو سکون و اطمینان نصیب ہوسکتا ہے تو وہ مال و دولت کے ڈھیر اکٹھا کرکے اور مادیت میں غرق ہوکر نہیں، بلکہ اپنے اخلاق وکردار کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی شریعت حقہ کے تابع کرکے ہی نصیب ہوسکتاہے۔

Leave a Reply