رضاعت کتنے سال تک ثابت ہوتی ہے ؟

رضاعت کتنے سال تک ثابت ہوتی ہے ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا بیٹا سید بدر الدین گیلانی جس کی عمر تقریباً ایک سال تھی، میری طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے بدر الدین گیلانی کی دادی اماں نے اپنے پوتے کو اپنی گود میں لے لیا اور ایک سال سے زائد عرصہ تک اپنا دودھ پلایا جبکہ اس وقت سید بدر الدین گیلانی کی دادی اماں کی عمر تقریباً ساٹھ سال کے لگ بھگ تھی، بعد ازاں جب خاندان میں اس بات پر بحث و تکرار ہوئی تو دادی اماں نے کہا کہ اس وقت اس کی ماں کا دودھ نہیں تھا تو شیرخوارگی کی عمر میں ایک سال سے زائد عرصہ تک بچے کی دادی اماں نے اپنے پوتے کو دودھ پلانے کے عمل کو جاری رکھا، اب اس مذکورہ صورت حال میں کیا اس عمر میں رضاعت شرعاً ثابت ہو گی کہ نہیں اور سید بدر الدین گیلانی اپنے چچا کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں اور اگر وہ اپنے چچا کی بیٹی سے نکاح کر لے تو اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہو گا ؟

سائلہ : سیدہ بلقیس گیلانی زوجہ سید شبیر حسین شاہ (مرحوم)

بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب

اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

جب آپ کے بیٹے سید بدرالدین گیلانی کو اس کی دادی نے مُدتِ رضاعت میں اپنا دودھ پلا دیا تو دادی آپ کے بیٹے کی رضاعی ماں بن گئی اور چچا آپ کے بیٹے کا رضاعی بھائی بن گیا اور چچا کی بیٹی آپ کے بیٹے کی رضاعی بھتیجی بن گئی تو جس طرح نسبی بھتیجی سے نکاح کرنا حرام ہے، اسی طرح رضاعی بھتیجی سے بھی نکاح کرنا حرام ہے، لہٰذا آپ کے مذکورہ بیٹے کا اپنے چچا کی بیٹی جو کہ اس کی رضاعی بھتیجی ہے، اس سے نکاح کرنا ناجائز و حرام ہے، اور اگر نکاح کر لیا تو ہرگز یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا اور ان کا ایک ساتھ میاں بیوی کی طرح رہنا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہوگا، لہٰذا نکاح کی صورت میں فوراً ان کو جدا کر دیا جائے۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :

"یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب”

یعنی جو کچھ نسب سے حرام ہے وہ دودھ سے بھی حرام ہے.

(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، جلد 1، صفحہ 467، قدیمی کتب خانہ کراچی)

تو جب نسبی بھتیجی حرام ہے تو رضاعی (دودھ کے رشتہ والی) بھتیجی بھی یقیناً حرام ہے۔

امیرالمومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی :

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! حضور کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی قریش میں سب سے زائد خوبصورت نوجوان ہیں، حضور چاہیں تو ان سے نکاح فرما لیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :

"انھا لاتحل لی انھا ابنۃ اخی من الرضاعۃ و یحرم من الرضاعۃ مایحرم من الرحم”

یعنی وہ میرے لئے حلال نہیں، وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، اور جو کچھ نسبی رشتہ سے حرام ہے وہ دودھ سے بھی حرام ہے.

(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، جلد 1، صفحہ 467، قدیمی کتب خانہ کراچی)

اس حدیثِ مبارکہ سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ رضاعی بھائی کی بیٹی سے نکاح کرنا حرام ہے تو تو جب آپ کے بیٹے نے اپنی دادی کا دودھ پیا تو اس کا چچا اس کے لئے رضاعی بھائی بن گیا اور اس کی بیٹی رضاعی بھائی کی بیٹی، لہٰذا آپ کے بیٹے کے لیے اپنے چچا کی بیٹی سے نکاح کرنا حرام ہوا۔

تبیین الحقائق میں ہے :

"یحرم علیہ جمیع من تقدم ذکرہ من الرضاع و ھی امہ و اختہ و بنات اخوتہ الخ۔”

یعنی جتنی عورتیں ذکر کی گئیں، سب دودھ کے رشتہ سے بھی حرام ہیں، رضاعی ماں اور بیٹی اور بہن اور رضاعی بہن اور بھائی کی بیٹیاں۔

(تبیین الحقائق، فصل فی المحرمات، جلد 2، صفحہ 103، مطبع الکبری الامیریہ مصر)

امام ابوبکر بن علی بن محمد زبیدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"و بنات اخیہ وبنات اختہ من الرضاعۃ، لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام : یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب”

یعنی نسبی کی طرح رضاعی بھائی بہن کی بیٹیاں بھی حرام ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جو نسب سے حرام ہے وہ دودھ سے بھی حرام ہے۔

(الجوہرۃ النیرۃ، کتاب النکاح، جلد 2، صفحہ 110، مکتبہ رحمانیہ لاہور)

برجندی شرح نقایہ میں ہے :

"بنت الاخ تشتمل البنت النسبیۃ للاخ الرضاعی”

یعنی رضاعی بھائی کی بیٹی بھی بھتیجی میں داخل ہے۔

(شرح نقایہ للبرجندی، کتاب النکاح، جلد 2، صفحہ 6، مطبوعہ منشی نولکشور لکھنؤ)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجدی علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"بچہ کو دو برس تک دودھ پلایا جائے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو برس تک اور لڑکے کو ڈھائی برس تک پلا سکتے ہیں، یہ صحیح نہیں۔ یہ حکم دودھ پلانے کا ہے اور نکاح حرام ہونے کے لیے ڈھائی برس کا زمانہ ہے یعنی دو ۲ برس کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے مگر ڈھائی برس کے اندر اگر دودھ پلا دے گی، حرمت نکاح ثابت ہو جائے گی اور اس کے بعد اگر پیا،

تو حرمت نکاح نہیں اگرچہ پلانا جائز نہیں.”

(بہارِ شریعت، جلد 2، حصہ ہفتم (7)، صفحہ 36، مکتبۃ المدینہ کراچی)

علامہ ابوبکر علاؤالدین الکاسانی تحریر فرماتے ہیں :

"قال ابو حنيفة ثلاثون شهراً و لايحرم بعد ذٰلک سوء فطم او لم يفطم”

یعنی امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (مدتِ رضاعت) تیس مہینے ہے، اس کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوگی، چاہے بچے کا دودھ چھڑایا گیا ہو یا نہ چھڑایا گیا ہو۔

(بدائع اصنائع، جلد 4، صفحہ 6، دارالکتاب العربی بيروت)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ

ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply