ماہ رمضان المبارک میں فجر کی اذان وقت سے پہلے نہ دیں
فرض نماز پنجگانہ مع جمعہ جماعت مستحبہ کے لئے مسجد میں علی الوقت اذان دینا سنت موکدہ ہے اور اس کا حکم مثل واجب کے ہے اوراگر وقت سے قبل اذان دی گئی اذان نہ ہوئی وقت رہتے ہوئے اذان کا اعادہ ضروری ہے کیوں وقت پر اذان سنت موکدہ جسے سنن الہدی بھی کہتے ہیں اسے ادا کرنا ضروری ہے اسے ادا کرنے میں بہت بڑا ثواب ہے آقا علیہ السلام اسے ہمیشہ کئے ہیں البتہ کبھی ترک بھی کئے ہیں اتفاقیہ طور پر بھی ترک کرنے والے پر اللہ و رسول کا عتاب ہوگا ،اور دائمی چھوڑ نے والا مستحق عذاب جہنم ہوگا کیونکہ اس کا حکم قریب واجب ہے ۔اگر لوگ عمدا دائمی(جان بوجھ کر ہمیشہ) ایسا ہی کرتے ہیں اور اسی اذان سے جماعت پڑھتے ہیں،توبہ کریں اور آئندہ وقت پر اذان دینے کا اہتمام کریں ۔پھر جماعت سے نماز پڑھی جائے ۔
✍واجب کی شریعت میں اتنی اہمت ہے کہ اس کا کرنا ضروری ہے ،کیونکہ شرعا وجوب کا ثبوت دلائل ظنیہ شرعیہ سے ہوتا ہے، واجب کا انکار کرنے والا گمراہ بد مذہب ہے، بغیر کسی عذر شرعی کے اس کا تارک فاسق اور عذاب جہنم کا مستحق ہے، واجب کو قصدا ایک بار چھوڑنا،گناہ صغیرہ اور چند بار ترک گناہ کبیرہ ہے.
مصنف بهار شريعت رحمة الله عليه📚 فرماتے ہیں .
فرض پنج گانہ کہ انھیں میں جمعہ بھی ہے، جب جماعت مستحبہ کے ساتھ مسجد میں وقت پر ادا کیے جائیں تو ان کے لیے اَذان سنت مؤکدہ ہے اور اس کا حکم مثل واجب ہے کہ اگر اذن نہ کہی تو وہاں کے سب لوگ گنہگار ہوں گے، یہاں تک کہ امام محمد رحمہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا اگر کسی شہر کے سب لوگ اَذان ترک کردیں،تو میں ان سے قِتال کروں گا اور اگر ایک شخص چھوڑ دے تو اسے ماروں گا اور قید کروں گا۔
(بہار شریعت ح ٣ص ٤٦٨)
الفتاوی الھندیۃ کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول، ج ۱ص۵۳۔و الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ج ۲ص ۶۰ و الفتاوی الخانیۃ کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ج ١ ص ۳۴۔
الفتاوی الھندیۃ ‘کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان،الفصل الأول، ج ۱ ص ۵۴)
وقت ہونے کے بعد اَذان کہی جائے، قبل از وقت کہی گئی یا وقت ہونے سے پہلے شروع ہوئی اور اَثنائے اَذان میں وقت آگیا، تو اعادہ یعنی اذان دوبارہ دی جائے.
(ایضا ح ٣ ص ٤٦٩،الھدایۃ کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ج ۱ ،ص ۴۵)📚
اگر وقت سے پہلے کہیں بھی اذان دی جائے تو اس مقام پرجب وقت ہوجائے تو پھرسے اذان دینا ہوگا،۔
(الھدایۃ،ج/1،ص/91)۔
اذان کے سلسلہ میں حکم شریعت یہ ہیکہ وقت شروع ہونے کے بعد اذان کہی جائے ،اگر وقت شروع ہونے سے پہلے اذان کہہ دی جائے تو وہ معتبر نہ ہوگی،دوبارہ اذان کہنی چاہئے،اگر واقعۃ نماز کا وقت شروع ہونے سے پہلے اذان کہہ دی گئی ہو تو وقت شروع ہونے کے بعد نماز کی ادائیگی سے قبل اذان کہنی چاہئیے،اگر وقت سے قبل اذان کہنے کی صورت میں بعد میں اعادہ نہ کیا جائے تو اذان کہنا جو سنت مؤکدہ وشعائر اسلام سے ہے‘ کی خلاف ورزی عمل میں آئے گی جو کہ سخت گناہ ہے۔
رمضان المبارک میں صبح صادق کے طلوع ہونے کا یقین ہونے کے بعد فجر کی اذان دے دینی چاہیے، نقشے میں درج صبح صادق کے وقت کے دو تین منٹ بعد بھی دی جاسکتی ہے، البتہ احتیاطاً صبح صادق کے وقت کے پانچ منٹ بعد فجر کی اذان دی جائے، اگر اس سے زیادہ تاخیر کی جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے.
ختم سحر اور اذانِ فجر کے درمیان پانچ چھ منٹ کا فاصلہ احتیاط کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ فجر کی اذان کا وقت کے اندر ہونا متیقن ہوجائے، ورنہ سحرکا وقت ختم ہوتے ہی فجر کاوقت شروع ہوجاتا ہے، لہٰذا اگر سحر کا وقت ختم ہوتے ہی فجر کی اذان دیدی گئی تو اذان صحیح ہوگئی، اس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں، ہاں اگر فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہی اذان ہوجائے تو وقت شروع ہونے کے بعد اس کو لوٹانا ضروری ہے، لیکن اگر دہرائے بغیر ہی نماز پڑھ لی گئی تو نماز کے بعد دوبارہ اذان نہیں دی جائے گی: قال الحصکفي: ووقتُ الفجر من طلوع الفجر الثاني إلی طلوع ذکاء (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۱۴، کتاب الصلاة) وقال ابن عابدین تحت حد الصوم: وہو الیوم أی الیوم الشرعی من طلوع الفجر إلی الغروب (رد المحتار کتاب الصوم: ۳/۳۳۰، زکریا) وقال الحصکفي: فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامة وقال: وہو سنة للرجال ․․․ موٴکدة للفرائض الخمس․ (الدر المختارمع رد المحتار: ۲/۴۸-۵۰،کتاب الصلاة، )
فجر کی جماعت میں مستحب یہ ہے کہ اسفار (روشنی) میں شروع کی جائے اور اِسفار ہی میں ختم کی جائے یعنی: طلوع فجر سے تقریباً تیس منٹ پہلے نماز شروع کی جائے، قال الحصکفي: والمستحب للرجل الابتداء في الفجر بإسفار والختم بہ (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۲۴، کتاب الصلاة)
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
کتبہ : مفتی محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں