رفع یدین جائز ہے یا نہیں اور شرعی حکم کیا ہے ؟

رفع یدین جائز ہے یا نہیں اور شرعی حکم کیا ہے ؟

سائل : محمد جاوید پنجاب پاکستان
بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

احناف کے نزدیک نماز میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنا سنت ہے اور کرنا خلافِ سنت اور مکروہِ تنزیہی ہے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ رفع یدین کرنا ثابت نہیں بلکہ ہمیشہ رفع یدین نہ کرنا ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے رفع یدین کرتے تھے لیکن بعد رفع یدین کرنا چھوڑ دیا جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ رفع یدین کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔

چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

"الا اخبرکم بصلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : فقام فرفع یدیہ اول مرۃ ثم لم یعد”

خبردار! کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے خبر دوں؟
راوی فرماتے ہیں کہ پھر، آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، پس آپ رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ اپنے ہاتھوں کو اٹھایا پھر دوبارہ ہاتھ نہ اٹھائے۔
(سنن نسائی جلد 2 صفحہ 182 مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب، سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 199 المکتبۃ العصریہ بیروت)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

"الا اصلی بکم صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فصلی، فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ”

کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والی نماز نہ پڑھاؤں؟
تو آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی، پس آپ رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ کے سوا اپنے ہاتھوں کو نہ اٹھایا۔
(سنن ترمذی، ابواب الصلاة، باب ماجاء ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لم یرفع الا فی اول مرۃ، صفحہ 83 دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
اس حدیثِ مبارکہ کے تحت امام محدث ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"حدیث ابن مسعود حدیث حسن۔ وبہ یقول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و التابعین۔ و ھو قول سفیان الثوری و اھل الکوفۃ”

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث، حسن حدیث ہے اور اسی کے ساتھ متعدد صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنھم نے قول کیا ہے، اور یہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہلِ کوفہ کا قول ہے۔
(جامع ترمذی جلد 2 صفحہ 83 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :
"ان رسول  الله صلی  الله علیه وسلم کان اذا افتتح الصلاة رفع یدیہ الی قریب من أذنیه ثم لم لایعود”
بےشک رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کو شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے مبارک کانوں کے قریب اٹھاتے پھر (اس کے بعد اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں) کو نہ اٹھاتے۔

(سنن أبی داؤد، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، صفحہ 130، رقم الحدیث : 749 دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

حضرت جابر بن سمرہ رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
"خرج علینا رسول الله صلی  الله علیه وسلم. فقال : مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس ؟ اسکنوا في الصلاة”

حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری جانب تشریف لائے، پس فرمایا :
یہ کیا بات ہے کہ تمہیں ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں، جیسے چنچل (سرکش) گھوڑے کی دُمیں، نماز میں سکون کے ساتھ رہو۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ۔۔۔الخ، رقم الحدیث : 430، صفحہ 168 دارالکتب العلمیہ بیروت)

حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
"رأیت رسول الله صلی الله علیه و سلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه، ثم لم یرفعهما”
میں نے رسول  اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جب نماز شروع فرمائی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، پھر (اس کے بعد نماز کے آخر تک) دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔

(مسند أبی یعلی، مسند البراء بن عازب، جلد 3، صفحہ 249، دارالمامون للتراث دمشق)

حضرت اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
"رأیت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ یرفع یدیه في أول تکبیرة، ثم لایعود”
میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نماز میں صرف شروع کی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد کسی اور تکبیر میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔
(شرح معانی الآثار، باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود، جلد 1، صفحہ 227، مطبوعہ عالم الکتب)

حضرت عاصم بن کلیب جرمی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت کلیب جرمی رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
"رأیت علی بن أبي طالب رفع یدیه في التکبیرة الأولی من الصلاة المکتوبة و لم یرفعهما سوی ذلك”

میں نے حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کو دیکھا کہ فرض نماز کی تکبیرِ اولیٰ (یعنی تکبیرِ تحریمہ) میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، اور اس کے سوا (کسی اور تکبیر میں) ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے۔

(مؤطا إمام محمد صفحہ 84، 85 مکتبہ رحمانیہ لاہور)

حضرت عاصم بن کلیب جرمی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت کلیب جرمی رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ :
"ان علیا کان یرفع یدیه اذا افتتح الصلاة ثم لایعود”
بےشک حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم جب نماز کو شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے پھر (اس کے سوا کسی اور تکبیر میں) ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے۔
(شرح معانی الآثار، باب التکبیر للرکوع، جلد 1، صفحہ 225، مطبوعہ عالم الکتب)
اس کے تحت علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"وھو اثر صحیح”
اور یہ اثر صحیح ہے۔
(شرح سنن ابی داؤد، باب فی رفع الیدین، جلد 3، صفحہ 301، مکتبۃ الرشد الریاض)

حضرت مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متعلق دریافت کیا :
أنه رأی النبي صلی الله علیه  وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع؟ فقال : إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك، فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك”
کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے،
تو اس پر حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ :
اگر حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک اس طرح (رفع یدین) کرتے ہوئے دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پچاس بار دیکھا کہ انہوں نے رفع یدین نہیں کیا۔
(شرح معاني الآثار، للطحاوي، باب التکبیر عندالرکوع ،جلد 1، صفحہ 224، مطبوعہ عالم الکتب)

حضرت مجاهد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
"ما رایت ابن عمر، یرفع یدیه إلا في أول ما یفتتح”
میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی  اللہ عنھما کو دیکھا کہ وہ نماز کے شروع کے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"فهذا ابن عمر قد رأی النبي صلی  الله علیه وسلم یرفع، ثمَّ قد ترک هو الرفع بعد النبي صلی  الله علیه وسلم فلا یکون ذلك إلا وقد ثبت عنده نسخ ما قدرأی النبي صلی الله علیه و سلم فعله و قامت الحجة علیه بذلك”
پس یہ ابن عمر رضی اللہ عنھما ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہاتھ اٹھاتے دیکھا پھر اسی ہاتھ اٹھانے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ترک کر دیا، تو یہ نہیں ہوا ہوگا مگر اس وقت کہ ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے اس (رفع یدین) کا منسوخ ہونا ثانت ہوچکا ہوگا اور (ان کے نزدیک) رفع یدین کے منسوخ ہونے پر دلیل قائم ہوچکی ہوگی۔
(شرح معانی الآثار، باب التکبیر للرکوع و التکبیر للسجود، جلد 1، صفحہ 225، مطبوعہ عالم الکتب)

علامہ امام علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"واما رفع الیدین عند التکبیر، فلیس بسنۃ فی الفرائض عندنا الا فی تکبیرۃ الافتتاح”
اور بہرحال فرائض میں تکبیر کے وقت رفع الیدین (یعنی دونوں ہاتھوں کو اٹھانا) ہمارے نزدیک سنت نہیں ہے مگر صرف تکبیرِ افتتاح (یعنی تکبیرِ تحریمہ) میں۔
(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، جلد 1، صفحہ 484 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply