قربانی کا ارادہ کرنے والے شخص کیلئے ناخن اور بال کاٹنے کا کیا حکم ہے؟
ذوالحجہ کے 10 دنوں میں بال ناخن وغیرہ کاٹنے کا حکم؟
سوال : جس شخص پر قربانی واجب ہو وہ اپنے زیرناف بال یکم ذوالحجہ سے یوم عیدالاضحی تک صاف کرسکتا ہے یا نہیں نیز ناخن و سر کے بال ترشوانے کے بارے میں بھی رہنمائی فراہم کریں؟
سائل: محمد کامران رضا، محمد عمران، شیخ قاسم مالیگاؤں
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
عشرۂ ذی الحجہ (ذی الحج کے ابتدائی دس دن) میں بال اور ناخن نہ کاٹنا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا تو ہو اور ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ قربانی کرنے تک اپنے ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا.
جب عشرہ ذی الحج داخل ہو جائے تو جس شخص کے پاس قربانی ہو اور وہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال کاٹے اور نہ ہی ناخن تراشے۔
(مسلم، الصحيح،3: 1565، رقم: 1977، بيروت: دار احياء التراث العربي)
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنے والا، ذی الحج کا چاند نظر آنے سے قربانی دینے تک نہ بال کاٹے اور نہ ناخن تراشے، لہٰذا قربانی کرنے والا شخص ذی الحج کا چاند نظر آنے سے ایک دو دن پہلے غیر ضروری بالوں کی صفائی کرے اور اپنے ناخن وسر کے بال ترشوا لے کیونکہ ذی الحج کے پہلے عشرہ میں ان کا کاٹنا اور ترشوانا رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ عمل مستحب ہے، کوئی اس پر عمل کرے گا تو ثواب ملے گا، نہ کرے گا تو گناہ نہیں ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ موئے زیرِ ناف و بغل اور ناخن، چالیس دن کے اندر کاٹنا ضروری ہیں، چالیس دن سے زائد بڑھانا مکروہ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے، لہذا اگر کسی نے کئی دن سے ناخن یا موئے زیرِ ناف و بغل نہ کاٹے ہوں اور قربانی تک نہ کاٹنے سے چالیس دن سے زائد کا عرصہ ہو جائے گا، تو اب وہ اس مستحب پر عمل نہیں کر سکتا۔
فتاوی رضویہ میں ہے: ’’یہ حکم صرف استحبابی ہے، کر ے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں، نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے ۳۱ (اکتیس) دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلا عذر ناخن نہ تراشے ہوں، نہ خط بنوایا ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہو گیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، اس مستحب پر عمل نہیں کر سکتا، اب دسویں تک رکھے گا، تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہو جائےگااور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کے لئے گناہ نہیں کر سکتا ۔‘‘
(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 353)
اور یہ بھی یاد رکھیں کہ.
جو شخص قربانی نہ کر سکے، اگر وہ بھی اس عشرہ مبارکہ ( یعنی ذو الحج کے پہلے دس ایام) میں بال اور ناخن کاٹنے سے رُکا رہے، پھر بعد نمازِ عید حجامت وغیرہ کروا لے، تو قربانی کا ثواب پائے گا۔
سنن ابو داؤد و نسائی میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’امرت بیوم الاضحی عیداً، جعلہ اللہ عزوجل لھذہ الامۃ، فقال الرجل: ارایت ان لم اجد الّا منیحۃ انثی، افاضحی بھا؟ قال: لا، لکن تاخذ من شعرک وتقلم اظفارک وتقص شاربک وتحلق عانتک، فذلک تمام اضحیک عند اللہ عزوجل‘‘
ترجمہ : مجھے یوم اضحیٰ کا حکم دیا گیا، اس دن کو اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے عید بنایا۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر میرے پاس منیحہ (یعنی ادھار لیے گئے جانور) کے سوا کوئی جانور نہ ہو، تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ فرمایا: نہیں۔ہاں! تم اپنے بال، ناخن اور مونچھیں تراشو اور موئے زیر ناف مونڈھ لو، اسی میں تمہاری قربانی اللہ عزوجل کے ہاں پوری ہو جائے گی ۔‘‘
(سنن نسائی، کتاب الضحایا، باب من لم یجد الاضحیۃ، جلد 2، صفحہ 201)
مراۃ المناجیح میں ہے: ’’جو قربانی نہ کر سکے، وہ بھی اس عشرہ میں حجامت نہ کرائے، بقر عید کے دن بعدِ نماز حجامت کرائے، تو ان شاء اللہ ثواب پائے گا، جیسا کہ بعض روایت میں ہے‘‘۔
(مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 370)
صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ مذکورہ حدیثِ پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’یعنی جس کو قربانی کی توفیق نہ ہو، اسے ان چیزوں کے کرنے سے قربانی کا ثواب حاصل ہو جائے گا‘‘۔
(بھار شریعت، حصہ 15، صفحہ 330)
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
كتبہ: مفتی محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں