مالکِ نصاب لوگوں کا قربانی کی بجائے مدرسہ قائم کرنے کا حکم
ِالسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیانِ شرح مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید اور بکر اور گاؤں کے کُچھ نوجوان لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جِس طرح قربانی کے دنوں میں ہر مالک نصاب قربانی کرتے ہیں تو یہ حضرات چاہتے ہیں کہ جن پیسو سے ہم قربانی کرتے ہیں انہی پیسو سے ہم ایک اسکول جِس میں دینی اور دنیاوی تعلیم دے سکے اور اک لڑکیوں کے لئے اک مدرسہ اور اک اچھا اسکول جِس میں لڑکیوں کو پردے کے ساتھ تعلیم دے سکے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زید و بکر اور دیگر افراد کا ایسا کرنا شریعتِ اسلامیہ میں کیا حکم نافذ ھوگا ،قرآنِ و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
آپکا شکر گزار ۔ رحمت علی نظامی
ساکن مندسور (مدھیہ پردیش)
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دینی تعلیم کے لیے مدرسہ قائم کرنا یوں ہی شرعی پردہ کے التزام کے ساتھ بچیوں کی تعلیم کا انتظام کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔ یوں ہی اچھی نیت سے ایسی دنیاوی تعلیم کا بند و بست کرنا جو شرع کے مخالف نہ ہو نیک کام ہے۔ لیکن جن پر قربانی واجب ہے ان کو قربانی کے دنوں میں قربانی ہی کرنا ضروری ہے، قربانی کی بجائے دوسرے نیک کام کرنے سے ان کے ذمہ سے قربانی ساقط نہ ہوگی اور قربانی نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے۔ جس طرح کسی پر حج فرض ہوجائے تو اس کو حج کرنا ہی ضروری ہے ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ حج کرنے کی بجائے حج کے سلسلے میں ہونے والے اخراجات کو دوسرے دینی کام میں صرف کرکے حج فرض سے بری الذمہ ہوجائے ۔ ہاں ! جن پر قربانی واجب نہ ہو یا جو واجب قربانی کے بعد مزید نفلی قربانی کرنا چاہتے ہوں ان کے لیے شرع کی طرف سے اجازت ہے کہ وہ نفلی قربانی کی بجائے دوسرے مفید نیک کاموں میں اپنا پیسہ صرف کرسکتے ہیں۔فتاوی عالم گیری میں قربانی کے بیان میں ہے:
"وَمِنْهَا أَنَّهُ لَا يَقُومُ غَيْرُهَا مَقَامَهَا فِي الْوَقْتِ، حَتَّى لَوْ تَصَدَّقَ بِعَيْنِ الشَّاةِ أَوْ قِيمَتِهَا فِي الْوَقْتِ لَا يُجْزِئُهُ عَنْ الْأُضْحِيَّةِ۔”
حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مثلاً بجائے قربانی اوس نے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کر دی یہ ناکافی ہے ۔”
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبـــہ: مفتی محمد نظام الدین قادری
خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی
٣/ربیع الآخر ١۴۴٣ھ//٩/نومبر ٢٠٢١ء