جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہو کیا اس کے باپ کا نام ذکر کرنا ضروری ہے؟

جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہو کیا اس کے باپ کا نام ذکر کرنا ضروری ہے

Aap tmaami groop me jude huye doston se mera ik suaal hai Qurbaani ke talluq se

Ham agar kisi ke name se qurbani karte hai to uske walid ka name lete hai . Jaise fula bin fula

Agar ham kisi wali. Paigamber ke name se Qurbaani karte hai to unke bhi walid ka name liya jaayega .

Magar unke walid ka name nhi pta hai to kya kare.?????

To walid ki jagah par kiska name liya jaayega .

Braaye mehrbaani Qurbani se pahle Jawab enayat farmaaye .

اردو رسم الخط

آپ تمامی گروپ میں جڑے ہوئے دوستوں سے میرا ایک سوال ہے۔

قربانی کے تعلق سے ، ہم کسی کے نام سے قربانی کرتے ہیں تو اس کے والد کا نام لیتے ہیں جیسے کہ فلاں ابن فلاں،اگر کسی ولی، پیغمبر کے نام سے قربانی کرتے ہیں تو ان کے والد کا نام لیا جائے گا ؟ اگر نام معلوم نہ ہو تو والد کی جگہ کس کا نام لیا جائے گا برائے مہربانی جواب دیں ۔


الجواب:

نیت دل کے پکے ارادہ کا نام ہے، زبان سے نام ذکر کرنا کچھ ضروری نہیں ہے۔ بس دل میں یہ پکا ارادہ ہو کہ یہ قربانی فلاں ولی یا فلاں پیغمبر کو ثواب رسانی کے لیے کررہا ہوں۔ اگر والد کا نام معلوم نہیں ہے تو بھی نیت کافی ہے، اللہ اس سے بخوبی باخبر ہےکہ بندے کا ارادہ کیا ہے ۔

قربانی کے لیے بس یہ ضروری ہے کہ مسلمان ،عاقل دھار دار چیز سے اس طرح ذبح کردے کہ گلے کی کم از کم تین رگیں کٹ جائیں اور اگر بھولا نہ ہو تو ذبح کے وقت اللہ کا نام ضرور ذکر کرے ( کذا فی الکتب الفقہیة)

قربانی صحیح ہونے کے لیے ذبح سے پہلے یا بعد میں نام کے ساتھ وہ دعا پڑھنی بھی ضروری نہیں ہے ۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اے اللہ ! تو فلاں کی طرف سے قربانی قبول کرلے جس طرح تونے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ السلام اور اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی قربانی کو شرفِ قبول بخشا۔

بلکہ ذبح کے وقت ذکرِ خدا کے فوراً پہلے یا فوراً بعد نام ذکر کرنا مکروہ ہے۔ اس لیے دعا ذبح سے پہلے پڑھے یا ذبح کا عمل مکمل ہونے کے بعد پڑھے۔

فقہائے کرام صراحت فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان کی قربانی کا (معین )جانور دوسرے نے اس کی اجازت کے بغیر اپنی طرف سے قربانی کی نیت سے ذبح کرڈالا تو اگر اصل مالک ذبح شدہ جانور لینے پر راضی ہوجائے تو اصل مالک کی طرف سے قربانی ہوگی، حالاں کہ ظاہر ہے کہ یہاں دعا پڑھنے میں غیر مالک کا نام لیا گیا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ اصل مالک کی نیت کافی ہے، نام ذکر کرنا ضروری نہیں۔

صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

"دوسرے کی قربانی کی بکری بغیر اوس کی اجازت کے قصداً ذبح کر دی اس کی دو صورتیں ہیں مالک کی طرف سے اس نے قربانی کی یا اپنی طرف سے ،اگر مالک کی نیت سے قربانی کی تو اوس کی قربانی ہوگئی کہ وہ جانور قربانی کے لیے تھا اور قربان کر دیا گیا اس صورت میں مالک اوس سے تاوان نہیں لے سکتا اور اگر اوس نے اپنی طرف سے قربانی کی اور ذبح شدہ بکری کے لینے پر مالک راضی ہے تو قربانی مالک کی جانب سے ہوئی اور ذابح کی نیت کا اعتبار نہیں ۔ اور مالک اگر اس پر راضی نہیں بلکہ بکری کا تاوان لیتا ہے تو مالک کی قربانی نہیں ہوئی بلکہ ذابح کی ہوئی کہ تاوان دینے سے بکری کا مالک ہوگیا اور اوس کی اپنی قربانی ہوگئی” (بہارِ شریعت ح١۵ ص ٣۵٠)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔

٢٢/ذو القعدہ ١۴۴٢ھ//٣/جون ٢٠٢١ء

Leave a Reply