قربانی کے بڑے جانور میں عقیقے کا حکم /قربانی کے مسائل

قربانی کے بڑے جانور میں عقیقے کا حکم از کتبہ کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک سوال ہے کہ کیا قربانی کے بڑے جانور میں عقیقہ ہو سکتا ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عطا فرمایں

سائل مولانا محمد اشرف پپرا کنک کشی نگر

جواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

قربانی کے بڑے جانور میں عقیقہ ہوسکتا ہے، افضل یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو حصے ہوں اور لڑکی کی طرف سے ایک:

فتاوی شامی میں ہے :

"وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد”. (فتاوی شامی 6/ 326، کتاب الاضحیة) حاشیۃ الطحطاوی میں ہے :

”و لو ارادوا القربۃ الاضحیۃ او غیرھا من القرب اجزأھم سواء کانت القربۃ واجبۃ او تطوعا او وجب علی البعض دون البعض و سواء اتفقت جھۃ القربۃ او اختلفت ۔۔۔ کذلک ان اراد بعضھم العقیقۃ عن ولد ولد لہ من قبل “ترجمہ : ( ایک جانور میں شریک ) لوگوں نے ( اس جانور میں )قربانی کی قربت کی نیت کی ہو یا قربانی کے علاوہ کسی اور قربت کی نیت ہو ، تو یہ نیت کرنا ان کو کافی ہوجائے گا ۔ چاہے وہ قربتِ واجبہ ہو یا نفلی قربت ہو یا بعض پر واجب ہو اور بعض پر واجب نہ ہو ، چاہے قربت کی جہت ایک ہی ہو یا مختلف ہو ۔۔۔۔ اسی طرح اگر ( ایک جانور میں شریک ) لوگوں میں سے بعض نے اِس سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کے عقیقے کی نیت کی ( تو بھی جائز ہے ۔ )( حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار ، کتاب الاضحیۃ ، جلد 4 ، صفحہ 166 ، مطبوعہ کوئٹہ )

فتاویٰ امجدیہ میں ہے : ”کتبِ فقہ میں مصرح کہ گائے یا اونٹ کی قربانی میں عقیقہ کی شرکت ہوسکتی ہے ۔۔۔۔ ( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 302 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی )

. واللہ اعلم بالصواب

کتبہ کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا بستی ٨ ذى الحجه ١٤٤٢ھ مطابق ١٩جولائی ٢٠٢١ء

الجواب صحیح : محمد نظام الدین قادری۔ خادم: درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی۔

Leave a Reply