میں قرآن و حدیث کو نہیں مانتا کہنا کیسا ہے؟
سوال : زید کے اوپر بکرنے سرقہ کا الزام لگایا، تو زید نے بکر سے کہا کہ آپ مجھ پر غلط الزام لگا رہے ہیں میں مسجد میں قرآن پاک ہاتھ میں لے کر
قسم کھانے کو تیار ہوں کہ میں نے ایسی حرکت نہیں کی ہے، اس بات پر بکر نے برجستہ کہا کہ میں قرآن و حدیث کو نہیں مانتا” بکر کے اس قول
پر مسجد کے امام ونائب امام صاحبان اس وقت وہاں موجود تھے انہوں نے بکر سے کہا کہ یہ کفریہ الفاظ ہیں، آپ توبہ کریں، تو بکر نے توبہ کرنے سے
انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے کوئی غلط بات نہیں کی ہے میں توبہ نہیں کروں گا ۔
جواب طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا قول کے قائل کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ کیا بکر نے جو الفاظ کہے ہیں وہ واقعی کفر ہیں؟ نیز اس قسم کے قائل پر تجدید ایمان و نکاح لازم ہے یا نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں آسان لفظوں میں صراحت فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں؟
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــ
یہ کہنا کہ ” میں قرآن و حدیث کو نہیں مانتا ” کفر ہے، اس لئے بکر اس قول سے اعلانیہ رجوع و توبہ کرے، ساتھ ہی تجدیدِ ایمان بھی اور بیوی والا ہو تو تجدیدِ نکاح بھی کرے ۔
حدیث جبرئیل میں ہے : قال جبرئیل، فاخبرنی عن الایمان، قال ان تومن باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر وتؤمن بالقدر خیرہ وشرہ ۔
صحیح مسلم صفحہ 27 کتاب الایمان، مجلس برکات
واللہ تعالی اعلم
کتبـــــــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور