قرآنِ پاک میں مور کے پر رکھنا کیسا ہے ؟
سائلہ : ام عمارہ عطاریہ عیسیٰ خیل
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
مور ایک حلال پرندہ ہے اور اس کے پر بہت خوبصورت ہوتے ہیں اور خوبصورتی کی نیت سے ہی قرآنِ پاک میں رکھے جاتے ہیں جس میں بے ادبی کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور چونکہ اَدب اور بے اَدَبی کا دارو مدار عُرف پر ہوتا ہے، اور ہمارے عُرف میں بھی اسے بے ادبی تصور نہیں کیا جاتا لہذا مور کے پر قرآنِ پاک میں رکھنا بالکل جائز ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے :
"و لابأس باکل الطاؤوس و عن الشعبی یکرہ اشد الکراھۃ و بالاول یفتی کذا فی الفتاویٰ الحامدیہ "
یعنی مور کھانے میں حرج نہیں ہے اور امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ وہ مور کھانے کو بہت سخت مکروہ قرار دیتے تھے اور پہلے قول پر (مور کے حلال ہونے پر) فتویٰ دیا جاتا ہے ایسے ہی فتاوی حامدیہ میں ہے.
(فتاویٰ عالمگیری، جلد 5، صفحہ 358، قدیمی کتب خانہ کراچی)
محدث اعظم پاکستان محمد سردار احمد چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"ادب کا دارومدار عرف میں ہے، لہٰذا عرفاً جو بات بےادبی کی ہو وہ بے ادبی میں شمار ہوگی۔”
(فتاویٰ محدث اعظم پاکستان، صفحہ 147، مکتبہ قادریہ فیصل آباد)
ملفوظات امیرِ اہلسنت قسط 24 میں ہے :
"قرآنِ پاک میں مور کا پَر رکھنے میں حرج نہیں کیونکہ اس میں بے ادبی کا تصور نہیں ہوتا ۔ ہم بھی بچپن میں مور کے چھوٹے چھوٹے پر قرآنِ کریم میں خوب صورتی کی نیت سے رکھتے تھے، البتہ اگر کوئی پورا بنڈل رکھے تو یہ الگ بات ہے۔”
(کتے کے متعلق شرعی احکام، صفحہ 13، مکتبۃ المدینہ کراچی)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی رئیس مرکزی دارالافتاء اہلسنّت عیسیٰ خیل ضلع میانوالی