قرآن کی بے حرمتی کرنے والے پر کیا حکم شرعی ہے ؟ از مفتی محمد ارشاد رضا علیمی

قرآن کی بے حرمتی کرنے والے پر کیا حکم شرعی ہے ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان ذوی الاحترام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص نے قرآن مقدس کو بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کیا اور اوراق کی بے حرمتی کی بعد ازاں یہ کہا کہ یہ سب مجھ سے نادانی اور غلطی سے ہوا ہے ۔ میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں اللہ مجھے معاف کرے۔یہ بےہودہ شخص اکثر و بیشتر اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کو برا بھلا کہتا رہتا ہے ۔ اور پچھلے دو تین سالوں سے کہتا آیا ہے کہ مجھ پر جنات وغیرہ کے دورے پڑتے ہیں ۔ اور میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہوں پھر مجھے پتہ نہیں رہتا کہ میں کیا کر رہا ہوں ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ ایسے شخص کے لئے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے۔

المستفتی م۔ا۔ ضیاء تھنہ منڈی راجوری۔

باسمه تعالى وتقدس الجواب بعون الملك الوهاب

اگر یہ بیان واقعی ہے کہ مسؤل عنه سے ہوش وحواس سلامت نہ رہنے کی حالت میں خلاف شرع کام صادر ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں شرعا اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔

مشکاة شریف میں ہے"رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتى يستيقظ وعن الصبى حتى يبلغ وعن المعتوه حتى يعقل”(ص ۲۸۴)

اور مراة المناجيح میں ہے”حدیث کا مقصد یہ ہے کہ نابالغ بچہ سوتا ہوا آدمی اور دیوانہ مرفوع القلم ہیں ۔ ان پر شرعی احکام جاری نہیں”(ج۵ ص ۱۱۷)

لیکن اگر ہوش وحواس سلامت رہنے کی حالت میں اس نے قرآن پاک کو بے دردی سے شہید کیا ۔ پھر اسکے اوراق کی بے حرمتی کی اگر بقصد توہین اس نے ایسا کیا تو وہ کافرومرتد ہوگیا ۔ کیونکہ قرآن پاک کی توہین وبے حرمتی کفر ہے ۔ وہ توبہ وتجدید ایمان کرے اگر بیوی رکھتا ہو تو تجدید نکاح بھی کرے ۔ اگر وہ شخص مذکورہ احکام شرعیہ پر عمل نہ کرے تو مسلمانوں کو اسکا بائیکاٹ کرنا چاہیے ۔

اور اگر بقصد توہین اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ محض نادانی کی وجہ سے کیا تب بھی وہ سخت گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے ۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سچےدل سے اپنے اس گناہ سے اعلانیہ توبہ کرے اور آئندہ ایسی حرکتوں سے باز رہنے کا سچے دل سے عہد کرے ۔

فتاوی امجدیہ میں ہے”قرآن مجید کو زمین پر پٹکنا اس کی توہین ہے اور یہ کفر ہے-اس کو تجدید اسلام وتجدید نکاح کرنی چاہئے ۔ بہرحال جب تک زید توبہ نہ کرے اس سے میل جول ترک کر دیا جائے”(ج۴ ص ۴۴۱)

اور رہی یہ بات کہ وہ اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کو برا بھلا کہتا ہے،کسی بھی مسلمان کو برا بھلا کہنا اسے تکلیف دیناہے اور مسلمان کو تکلیف دینا حرام ہے چہ جا ئے کہ والدین اور رشتہ داروں کو،ایسا شخص حقوق العباد میں بھی گرفتار ہے اسے چاہیے کہ والدین اور دیگر رشتہ داروں سے معافی مانگے اور ان کے ساتھ حسن سلوک و صلہ رحمی کرے ۔

والله تعالى اعلم بالصواب

کتبہ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ،

پلانگڑ،تھنہ منڈی،راجوری،جموں وکشمیر ۱۱ /محرم الحرام ۱۴۴۲ ھ۔

الجواب صحيح
محمد نظام الدین قادری خادم دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی۔ ۱۱ محرم الحرام ۱۴۴۲ ھ

Leave a Reply