دور حاضر میں قاضی کون ہوسکتا ہے؟ نیز قاضی مقرر کرنے کا کس کو حکم ہے ؟
الجوابـــــــــــــــــــــــــــ
قاضی مقرر کرنا بادشاہ اسلام کا کام ہے ، ہندوستان میں بادشاہ اسلام کوئی نہیں ، بھر قاضی کون اور قضا سے متعلق کام کیسے انجام پائیں ؟
اس سلسلے میں ہم فقیہ اسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک مبارک فتوے کا خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔
آپ نے تحریر فرمایا: امیر دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ (١) امیر قہری (٢) امیر اختیاری ۔
امیر اختیاری وہ لوگ ہیں جو کسی پر اپنے احکام جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتے مگر احکام بتادیتے ہیں ، ہاں لوگوں پر لازم ہے ان کے بتائے ہوئے
احکام کی پیروی کریں اور اسی کے مطابق عمل کریں ۔
قرآن پاک میں ہے:
يا ايها الذين آمنوآ اطيعوا الله واطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم:
یعنی: اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی، اطاعت کرو رسول کی، اور اطاعت کرو اولوا الامر کی۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: ” اولو الامر” سے مراد اصح اقوال پر علما ہیں ۔ اب اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوا کہ حکم مانو اللہ کا ،حکم مانو رسول کا،
حکم مانو علما کا ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علماء کو قاضی اور امیر کا درجہ دیا ہے ۔ اعلی حضرت فرماتے ہیں: جو اپنے علاقے کا سب سے بڑا فقہ
کا عالم ہو ،اور دینی مسائل میں لوگ اس کی طرف رجوع کرتے ہوں وہی عالم اپنے علاقے کا قاضی ہے ،وہ کسی کے قاضی بنانے کا محتاج نہیں،
بلکہ وہ منتخب بہ انتخاب الہی ہے یعنی اللہ نے اسے امیر شریعت کی حیثیت سے اور قاضی شریعت کی حیثیت سے وہاں کے لیے منتخب فرمایا ،
اب لوگوں کو چاہیے کہ اللہ کے انتخاب کے سامنے سر تسلیم خم کریں اور اس کو قبول کریں ۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں اگر فقہی بصیرت میں کئی ایک علماء اکٹھا ہوجائیں تو جو سب سے بڑا عالم ہو اس کی پیروی کی جائے، اس کے ثبوت میں
"الحدیقۃ الندیہ ” کی یہ عبارت پیش فرمائی:
اذا خلي الزمان عن سلطان ذي كتابة فالأمور مؤكلة الي العلماء فإن كثروا فالمتبع اعلمهم ۔
جب سلطان اسلام سے زمانہ خالی ہو جائے تو دینی امور علماء کی جانب منتقل ہو جائیں گے ( یعنی قضا اور امارت کی ذمہ داری علماء کی ہوگی)
اگر متعدد علماء جمع ہوجائیں تو جو سب سے بڑا فقیہ ہے وہ قاضی ہوگا ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبـــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور