قرض دے کر فائدہ لینا اور سود سے بچنے کی شرعی صورت
سوال : بکر کے پاس زید سو روپے قرض مانگنے کے لیے گیا ۔ بکر نے کہا میں روپیہ قرض نہیں دوں گا البتہ سوا سو روپیہ کا غلہ ہم سے لے جاؤ اور کسی کے ہاتھ بیچ ڈالو ۔ تم کو کم سے کم سو روپے ضرور مل جائیں گے چنانچہ بکر نے سوا سو روپیہ کا غلہ دیا اس غلہ کو خالد نے زید سے سو روپے میں ادھار خرید کر اسے بکر کے پاس لے جا کر سو روپیہ میں نقد بیچا اور سو روپیہ بکر سے لے کر زید کو دیا اس طرح زید کو صرف سو روپے ملے مگر اس کو دینے پڑیں گے سوا سو روپے تو زید و بکر کا اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ بکر اکثر اس طرح کا معاملہ کیا کرتا ہے
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ صورت بیع عینہ کی ہے جس کو امام محمد رحمۃ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کیونکہ قرض کی خوبی اور حسن سلوک سے محض نفع کی خاطر بچنا چاہتا ہے ۔ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ اچھی نیت ہو تو اس میں حرج نہیں بلکہ بیع کرنے والا مستحق ثواب ہے کیونکہ وہ سود سے بچنا چاہتا ہے ۔ اور مشائخ بلخ نے فرمایا کہ بیع عینہ ہمارے زمانہ کی اکثر بیعوں سے بہتر ہے ۔ ھکذا فی بہار شریعت ۔
اور امام قاضی خاں اپنے فتاوی میں سود سے بچنے کی صورت لکھتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : حیلۃ اخری ان یبیع المقرض من المستقرض سلعۃ بثمن مؤجل ویدفع السلعۃ الی المستقرض ۔ ثم ان المستقرض یبیعھا من غیرہ با قل مما اشتری ثم ذلک الغیر یبیعھا من المقرض بما اشتری لتصل السلعۃ بعینہا ۔ ویاخذ الثمن ویدفعہ الی المستقرض فیصل المستقرض الی القرض ویحصل الربح للمقرض ۔ وھذہ الحیلۃ ھی العینۃ التی ذکرھا محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ وقال مشائخ بلخ بیع العینۃ فی زماننا خیر من البیوع التی تجری فی اسواقنا ۔ وعن ابی یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ انہ قال العینۃ جائزۃ ماجورۃ وقال اجرہ لمکان الفرار من الحرام –
وھو سبحانہ تعالی اعلم-
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ : مفتی جلال الدین احمد الامجدی