قبرستان کے گھاس کو کانٹنا کیسا ہے ؟ از مفتی محمد عمران القادری اشرفی جامعی
السلام علیکم و رحمتہ الله وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے اسلام مسئلہ ذیل کے بارےمیں کہ زید نے اپنی ملکی اراضی میں اپنے اباواجداد کی قبریں بنائ جن میں صرف اس کے خاندان ہی کے لوگوں کو دفنایا جاتا ہے وہ قبرستان وقف نہیں کیا ہے اس میں جو گھاس ہے اس پر زید قابض ہے وہ کہتا ہے کہ جب یہ جگہ میرے حصے کی ہے میں اس پر قابض ہوں تو یہ گھاس واشجار میرے لیے کاٹنے جائز ہیں۔ صورت مسؤلہ میں زید پر حکم شرعی کیا ہے ۔ مفصل جواب عنایتفرمائیں❓
*السائل؛محمد وسیم ۔
مہنڈر۔
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
الجواب بعون الملک الوہاب
قبرستان کی تر گھاس یا درخت کاٹنے کی ممانعت آٸی ہے اس کی وجہ یہ ہےکہ تر گھاس اللہ تعالی کی تسبیح و تحلیل کرتی ہے ۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ
اور کوئی بھی شئے ایسی نہیں جو اس کی حمد بیان کرنے کے ساتھ اس کی پاکی بیان نہ کرتی ہو
قبرستان کے تر گھاس یا لکڑی توڑنے کے متعلق” فتاوی عالمگیری” میں ہے کہ
"یکرہ قطع الحطاب و الحشیش من المقبرة”
یعنی قبرستان کے گھاس یا لکڑی توڑنا مکروہ ہے ۔
لہذاقبرستان میں جو گھاس اگتی ہے جب تک سوکھ نہ جاٸے کاٹنے کی اجازت نہیں ہے ۔
اس طرح سے بے شمار کتب فتاوی میں قبرستان کی تر گھاس یا درخت کاٹنے کی ممانعت آٸی ہے ۔
لیکن یہ بھی صحیح نہیں کہ قبرستان کو گھاس وغیرہ سے جنگل بنا دی جاٸے کہ موذی جانور کا مسکن بن جاٸے اور انسانوں کیلٸے باعث تکلیف ثابت ہو اور زائرین و دفن کیلٸے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے اور اصل مقصد میں رکاوٹيں پیدا ہونے لگے ۔
ایسی صورت میں قبرستان کے جنگلی اور خطرناک گھاس کاٹ کر قبرستان کو محفوظ کیا جاٸے تاکہ آنے جانے والے موذی جانور و کانٹے دار گھاس سے محفوظ رہیں ۔
لیکن بہتر طریقہ یہی ہیکہ قبرستان کے درخت کو جڑ سے نہ کاٹا جاٸے نہ مکمل صفایا جاٸے بلکہ جو راستے میں درخت کے پتے اور ٹہنیاں جو زاٸرین کے لٸے روکاوٹ بنتی ہے اسے صاف کیا جاٸے ۔۔۔
کتبہ؛مفتی محمد عمران القادری اشرفی جامعی۔
خادم جہانگیر اشرف دارالافتاء والقضاء۔ جامعہ معین السنہ ڈینگلہ پونچھ۔ جموں وکشمیر