قبر میں لکڑی استعمال کرنے کا حکم
السلام عليكم گزارش ہے کہ قبر میں لکڑی لگانا کیسا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ آم کی لکڑی نہیں لگا سکتے اس میں آگ کی تپش پائ جا تی ہے کیا یہ صحیح ہے ۔بینوا توجروا
المستفتی مولانا محمد حسین صاحب دیورا ضلع بستی
الجواب بعون الملک الوھاب
قبر کی زمین اگر نرم ہے تو میت کے اردگرد یا اس کے اوپر کسی بھی لکڑی کا استعمال بلا کراہت جائز ہے ، اوراگر زمین پختہ ہےتو میت کے ارد گرد کسی بھی قسم کی لکڑی کا استعمال مکروہ ہے ، ہاں میت کے ارد گرد یعنی ہر جہت سے میت کے ارد گرد کو بچا کر اوپر اوپر سےلکڑی کے تختے لگانے میں کوئی کراہت نہیں، جس طرح پکی اینٹ کا استعمال بلا ضرورت میت کے ارد گرد مکروہ ہے اور اوپر لگانے میں کوئی حرج نہیں اسی طرح لکڑی کا حکم بھی ہے.
ذیل میں امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ کے ایک تفصیلی فتویٰ کے چند اقتباسات پیش ہیں جن سے کافی حد تک مسئلہ واضح ہوجاتا ہے :
"اور قبر پختہ بنانے میں حاصل ارشاد علماے امجاد رحمہم ﷲ تعالٰی یہ ہے کہ اگر پکی اینٹ میّت کے متصل یعنی اس کے آس پاس کسی جہت میں نہیں کہ حقیقۃً قبر اسی کا نام ہے بلکہ گڑھا کچّا اور بالائے قبر پختہ ہے تو مطلقاً ممانعت نہیں، یہاں تک کہ امامِ اجل فقیہِ مجتہد اسمٰعیل زاہدی نے خاص لحد میں پکی اینٹ پر نص فرمایا جبکہ کچّے چوکے کی تَہ ہواور اپنی قبر مبارک میں یونہی کرنے کی وصیت فرمائی اورمتصل میّت ممنوع مکروہ ، مگر جبکہ بضرورت تری ونرمی زمین ہو تو اس میں بھی حرج نہیں۔
درمختا ر میں ہے:یسوی اللبن علیہ والقصب لا الاٰجر المطبوخ والخشب لوحولہ امافوقہ فلا یکرہ ابن ملک ،وجاز حولہ بارض رخوۃ کالتابوت.
اس پرکچی انیٹیں اوربانس چُن دے ، پکی اینٹیں اور لکڑی اس کے گرد نہ لگائے، اوپر ہو تومکروہ نہیں، ابن الملک۔ اورنرم زمین ہو تو ا س کے گرد بھی جائز ہے جیسے تابوت ۔
( درمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبع مجتبائی دہلی۱/ ۱۲۵)
حلیہ پھرردالمحتار میں ہے :کرھوا الآجرو الواح الخشب وقال الامام التمرتاشی ھذا ان کان حول المیّت وان کان فوقہ لایکرہ لانہ یکون عصمۃ من السبع وقال مشائخ بخارا لایکرہ الاٰجرفی بلد تنا لمساس الحاجۃ لضعف الاراضی ۔
علما نے پکی اینٹوں اور لکڑی کے تختوں کو مکروہ کہا ہےاورامام تمرتاشی نے فرمایا: یہ اس وقت ہے جب میّت کے گرد ہو، اور اگر اس کے اوپر ہو تو مکروہ نہیں اس لیے کہ یہ درندے سے حفاظت کا ذریعہ ہوگا، مشائخ بخارا نے فرمایا کہ ہمارے دیار میں پکی اینٹیں مکروہ نہیں کیوں کہ زمین کمزور ہونے کی وجہ سے اس کی ضرورت ہے ۔
(ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۰۰)
خانیہ و خلاصہ وہندیہ میں ہے :یکرہ الاٰجرفی اللحد اذاکان یلی المیّت اما فیما وراء ذلک لاباس بہ ویستحب ا للبن والقصب ۔
لحد میں پکّی اینٹ مکروہ ہے جب کہ میّت سے متصل ہو اس کے علاوہ میں کوئی حرج نہیں، اور مستحب کچی اینٹ اور بانس ہے ۔
(فتاوٰی قاضی خاں کتاب الصلٰوۃ منشی نولکشور لکھنؤ ۱/ ۹۲)
حسامی پھر امداد الفتاح پھر طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے :وقد نص اسمٰعیل الزاھد بالاٰجر خلف اللبن علی اللحد واوصٰی بہ ۔
اسمٰعیل زاہد نے لحد پر کچی اینٹ کے پیچھے پکّی اینٹ لگانے کی صراحت فرمائی اور اس کی وصیت کی.
( الطحطاوی علٰی مراقی الفلاح فصل فی حملہا ودفنہا نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۳۳۵)
منافع ومبسوط پھر غنیہ میں ہے :اختاروالشق فی دیارنالرخاوۃ الاراضی فیتعذر اللحد فیھا اجازواالاٰجر ورفوف الخشب والتابوت ولوکان من حدید ۔
ہمارے دیار میں شق اختیار کی گئی ہے اس لیے کہ زمین نرم ہے جس میں لحد متعذر ہے یہاں تک کہ علما نے پکّی اینٹ، لکڑی کے صندوق اورتابوت کی اجازت دی ہے اگر چہ لوہے کا ہو۔
( غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل فی الجنائز سہیل اکیڈمی لاہور ص ۵۹۵)
البحرالرائق میں ہے:قیدہ الامام السرخسی بان لایکون الغالب علی الاراضی النزووالرخاوۃ فان کان فلاباس بھما کاتخاذ تابوت من حدید لھذا ۔
امام سرخسی نے اس حکم کو اس سے مقید کیا ہے کہ زمین پر تری اورنرمی غالب نہ ہو۔ اگر ایسی ہو تو پکی اینٹ اور لکڑی لگانے میں کوئی حرج نہیں ، جیسے اس بنا پر لوہے کا تابوت لگانے میں حرج نہیں ۔
(البحرالرائق کتاب الجنائز فصل السلطان احق بصلٰوتہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/۱۹۴ )
نیز بحر وحاشیہ ابی السعود الازہری علی الکنز میں ہے :وقیدہ فی شرح المجمع بان یکون حولہ امالوکان فوقہ لایکرہ لانہ یکون عصمۃ من السبع ۔
شرح مجمع میں یہ قید لگائی ہے کہ اس کے گرد ہو لیکن اگر اوپر ہو تو مکروہ نہیں اس لیے کہ اس سے درندوں سے حفاظت رہے گی ۔
( فتح المعین علٰی شرح الکنز لملامسکین باب الجنائز فصل فی الصلٰوۃ علی المیّت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی۲ /۱۹۴)
کافی پھر غرر و درر میں ہے:یسوی اللبن والقصب لاالخشب والاٰجر وجوز فی ارض رخوۃ ۔
کچّی اینٹ اور بانس چُناجائے، لکڑی اور پکی اینٹ نہ ہو ، اور نرم زمین میں اس کی بھی اجازت ہے ۔
( دررالحکام فی شرح غرر الاحکام باب الجنائزمطبعۃ احمد کامل الکائنہ دارسعادت بیروت ۱/ ۱۶۷)
شرح نقایہ برجندی میں ہے :انما یکرہ الاجرفی اللحد ان کان یلی المیّت امافی وراء ذلک فلا باس بہ کذافی الخلاصۃ وقال الامام علی السغدی اتخاذ التابوت فی دیارنا افضل من ترکہ ۔
لحد میں پّکی اینٹ اسی صورت میں مکروہ ہے کہ میّت سے متصل ہو، اس کے علاوہ میں کوئی حرج نہیں، ایسا ہی خلاصہ میں ہے۔ امام علی سغدی نے فرمایا: ہمارے دیار میں تابوت لگانا نہ لگانے سے بہتر ہے ۔
( شرح نقایہ برجندی فصل فی صلٰوۃ الجنائزۃ منشی نولکشور لکھنؤ ۱ /۱۸۲)
مجمع الانہر میں ہے:یکرہ الاٰجروالخشب ای کرہ ستر اللحد بھما وبالحجارۃ والجص لکن لوکانت الارض رخوۃ جاز استعمال ماذکر ۔
پکی اینٹ اور لکڑی مکروہ ہے صرف لحد کو ان سے اور پتھروں سے اور گچ سے چھپانا مکروہ ہے لیکن اگرزمین نرم ہو تو ان سب کا استعمال جائز ہے ۔
(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر فصل فی الصلٰوۃ المیّت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۸۶)
کشف الغطاء میں ہے:
الآن دردیارنا نیز بسبب رخاوت زمین ہمیں متعارف است حتی کہ تجویز کردہ اندمشائخ درامثال ایں دیار بایں علت خشت پختہ وچوب وگرفتن تابوت راکہ ازآہن باشد ۔
اب ہمارے دیار میں بھی زمین کے ڈھیلے پن کی وجہ سے یہی متعارف ہے یہاں تک کہ مشائخ نے اس طرح کے دیار میں، اُسی علت کی وجہ سے پکی اینٹ اور لکڑی او رآہنی تابوت لگانے کو جائز کہا ہے۔
(کشف الغطاء )
اسی میں ہے:درتجنیس گفتہ رخصت دادہ است، امام اسمٰعیل زاہد کہ گردانیدہ شوند خشت ہائے پختہ خلف خشتہائے خام بہ لحد وتحقیق وصیت کردہ بود بوے ومشائخ بخارا گفتہ اند درزمین ماخشت پختہ اگر بنہند مکروہ ونباشد از برائے نرمی زمین پس بہر جاکہ زمین نرم باشد باک نیست بنہادن خشت پختہ ومانندآں از چوب ۔
تجنیس میں ہے کہ امام اسمٰعیل زاہد نے اس کی رخصت دی ہے کہ لحد میں کچی اینٹوں کے پیچھے پکی اینٹیں لگائی جائیں، اور اس کی وصیت بھی فرمائی تھی، مشائخ بخارا نے فرمایا ہے کہ اگر ہماری زمین میں پکی اینٹ لگائیں تو مکروہ نہ ہوگا اس لیے کہ زمین نرم ہے تو جہاں بھی زمین نرم ہو، پکی اینٹ او راسی طرح لکڑی کےتختے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔
(کشف الغطاء ۵۳ )
*نصوص سابقہ سے واضح ہوا کہ پکی اینٹ اورلکڑی کا ایک حکم ہے۔ اصل سنت کچی اینٹ اور نرکل سے چھپانا ہے۔اور زمین نرم نہ ہو تو میت کے متصل ہر طرف سے پکی ہوئی اینٹ اور لکڑی کے استعمال سے بچنا مطلوب ہے۔خاص آم ہی کی لکڑی کے تعلق سے ممانعت نہیں ہے۔یوں ہی اس کی وجہ اس میں آگ کی تپش ہونا سخت محل نظر اورناقابلِ فہم ہے .
واللہ اعلم بالصواب ۔
کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
٧جمادی الاخری ١٤٤٣/ ١١دسمبر ٢٠٢٢
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی