قبر میں چٹائی وغیرہ ڈالنا کیسا ہے؟
السلام علیکم ورحمةاللّہ و برکاتہ
السوال : کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قبر میں مردے کےبنگا(یعنی لکڑی,پٹرا وغیرہ) کے اوپر کھجور کی سوکھی چٹائی,پنّی,کپڑا بچھانا جائز ہے یا ناجائز؟
آپ حضور والا سے عرض ہے کہ دلائل سے اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔
السائل: محمد سہیل رضا کوشامبی
الجواب بعون الملک الوہاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
مسئلہ یہ ہے کہ مردے کو قبر میں رکھنے اور کچی اینٹیں یا تختے لگانے کے بعد اینٹوں یا تختوں کے بیچ اگر کچھ سوراخ اور دراڑ رہے تو اسے بند کردیا جائے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سوراخ یا دراڈ سے مردے کے اوپر مٹی نہ گرے۔
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
تختوں کے درمیان جھری رہ گئی تو اسے ڈھیلے وغیرہ سے بند کر دیں۔(بہار شریعت ح 4 ص 844)
لہذا صورت مسئولہ میں اگر اینٹیں یا لکڑی کا پٹرا وغیرہ لگانے کے بعد شگاف باقی رہیں جن سے میت کے اوپر مٹی گرے گی تو ان کو بند کرنے کے لئے سوال میں مذکور چیزیں یا ان کے علاوہ بھی کوئی دوسری چیز جو مٹی روک سکے ڈالنا جائز ہے ۔ البتہ افضل یہ ہے کہ پوردار لکڑی جیسے کہ بانس وغیرہ سے بند کریں کہ فقہائے کرام نے اس کے مستحب ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
قال في الحلية : وتسد الفرج التي بين اللبن بالمدر والقصب كي لا ينزل التراب منها على الميت ، ونصوا على استحباب القصب فيها كاللبن۔ (ج:3، ص: 142، كتاب الصلاة/باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، مطبوعہ: زکریا بکڈپو)
(حلیہ میں فرمایا: کچی اینٹوں کے درمیان کے شگافوں کو گیلی چکنی مٹی اور پوردار لکڑی سے بند کردیا جائے۔ تاکہ ان سے میت کے اوپر مٹی نہ گرے۔ اور ان میں فقہا نے پوردار لکڑی کے مستحب ہونے کی صراحت فرمائی ہے جیسے کہ کچی اینٹوں کے استحباب کی صراحت فرمائی ہے)۔
پس پوردار لکڑی کے دستیاب ہوتے ہوئے چٹائی وغیرہ کا ڈالنا زیادہ سے زیادہ خلاف اولی ہوگا اور پوردار لکڑی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں چٹائی وغیرہ کے ڈالنے میں کچھ مضائقہ نہ ہوگا۔
ہاں میت کے نیچے بلا وجہ چٹائی وغیرہ ڈالنے کی ممانعت ہے۔ در مختار میں ہے:
"(وَلَا) يَجُوزُ أَنْ (يُوضَعَ فِيهِ مُضْرِبَةٌ) وَمَا رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ فَغَيْرُ مَشْهُورٍ لَا يُؤْخَذُ بِهِ ظَهِيرِيَّةٌ”
(در مختار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة)
علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"(قَوْلُهُ: وَلَا يَجُوزُ إلَخْ) أَيْ يُكْرَهُ ذَلِكَ. قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: وَيُكْرَهُ أَنْ يُوضَعَ تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ مِضْرَبَةٌ أَوْ مِخَدَّةٌ أَوْ حَصِيرٌ أَوْ نَحْوُ ذَلِكَ اهـ وَلَعَلَّ وَجْهَهُ أَنَّهُ إتْلَافُ مَالٍ بِلَا ضَرُورَةٍ، فَالْكَرَاهَةُ تَحْرِيمِيَّةٌ، وَلِذَا عَبَّرَ بِلَا يَجُوزُ (قَوْلُهُ وَمَا رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ) يَعْنِي مِنْ فِعْلِ ذَلِكَ نَهْرٌ.
ثُمَّ إنَّ الشَّارِحَ تَبِعَ فِي ذَلِكَ الْمُصَنِّفَ فِي مِنَحِهِ. وَاَلَّذِي وَجَدْته فِي الظَّهِيرِيَّةِ عَنْ عَائِشَةَ، وَكَذَا عَزَاهُ إلَى الظَّهِيرِيَّةِ فِي الْبَحْرِ وَالنَّهْرِ قَالَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ: وَمَا رُوِيَ «أَنَّهُ جُعِلَ فِي قَبْرِهِ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – قَطِيفَةٌ» ، قِيلَ لِأَنَّ الْمَدِينَةَ سَبِخَةٌ، وَقِيلَ إنَّ الْعَبَّاسَ وَعَلِيًّا تَنَازَعَاهَا فَبَسَطَهَا شُقْرَانُ تَحْتَهُ لِقَطْعِ التَّنَازُعِ، وَقِيلَ «كَانَ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – يَلْبَسُهَا وَيَفْتَرِشُهَا، فَقَالَ شُقْرَانُ: وَاَللَّهِ لَا يَلْبَسُك أَحَدٌ بَعْدَهُ أَبَدًا فَأَلْقَاهَا فِي الْقَبْرِ» (قَوْلُهُ فَغَيْرُ مَشْهُورٍ) أَيْ غَيْرُ ثَابِتٍ عَنْهُ، أَوْ الْمُرَادُ أَنَّهُ لَمْ يَشْتَهِرْ عَنْهُ فِعْلُهُ بَيْنَ الصَّحَابَةِ لِيَكُونَ إجْمَاعًا مِنْهُمْ، بَلْ ثَبَتَ عَنْ غَيْرِهِ خِلَافُهُ. فَفِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ: وَكَرِهَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنْ يُلْقَى تَحْتَ الْمَيِّتِ شَيْءٌ، وَرَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَعَنْ أَبِي مُوسَى «لَا تَجْعَلُوا بَيْنِي وَبَيْنَ الْأَرْضِ شَيْئًا» . اهـ.(رد المحتار)
واللہ تعالی اعلم بالصواب .
کتبـــــــہ محمد طیب جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی انڈیا
19 جمادی الاولی 1443ھ
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری خادم درس و افتا جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی