پرانی بائک پر لون لینے کا حکم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.. انشورنس کمپنی ہے ۔ پرانی بائک پر لون دیتی ہے.. جیسے کہ بائک پر0 6000 ہزار روپئے دیتی ہے اور 18مہینے کی میعاد پر 80000 روپئے کشتوار 4500روپئے جمع کراتی ہے…. جمع نہ کرنے کی صورت میں بائک کو کھینچ لیتی ہے ۔ تو کیا ایسا انشورنس کا پیسہ لینا جائز ہے ؟
(مولانا) مسرور احمد مصباحی پچپڑوا بلرام پور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الملک الوھاب
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
مذکورہ صورت میں بائک پر لون لینا ناجائز ہے کیوں کہ رقم قرض لے کر اس پر زائد رقم کی ادائیگی سود ہے اور سود شرعا ناجائز وحرام ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ(البقرۃ :٢٧٥)
تیسری جگہ ارشاد ہے:
وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ (۲۷۸)
چوتھی جگہ ہے:
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ(البقرۃ :275)
حدیث شریف میں ہے:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکل الربوا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال ھم سواء( مسلم، 2/ 27.حديث نمبر 4093)
فتاوی رضویہ میں ہندو کے پاس زیور گروی رکھ کر سودی قرض لینے کے تعلق سے سوال ہوا تو امام اہل سنت نے یہ جواب دیا :
"سود جس طرح سے لینا حرام ہے یوں ہی دینا بھی حرام ہے جب تک سچی حقیقی مجبوری نہ ہو، زیور اگر اپنا ہے تو اسے رہن رکھ کر سودی روپے نکلوانا حرام کہ یہ مجبوری نہ ہوئی، زیور بیچ کیوں نہیں ڈالتا اور اگر دوسرے سے رہن رکھنے کے لئے مانگ کر لیا ہے اور پاس کوئی ایسی چیز نہیں جسے بیچ کر کام نکال سکے، اور قرض لینے کی سچی ضرورت ومجبوری ہے تو جائز ہے "(فتاوی رضویہ قدیم ج 7 ص93)
دوسری جگہ امام اہل سنت فرماتے ہیں:
” سود جس طرح لینا حرام ہے دینا بھی حرام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربوا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ ( قدیم ج7 ص 83)
بہار شریعت میں ہے: شریعت مطہرہ نے جس طرح سود لینا حرام فرمایا سود دینا بھی حرام کیا ہے، حدیثوں میں دونوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ دونوں برابر ہیں، آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرض حسن جو بغیر سودی ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے، دولت والے کسی کو بغیر نفع روپیہ دینا نہیں چاہتے، اور اہل حاجت اپنی حاجت کے سامنے اس کا لحاظ بھی نہیں کرتے کہ سودی روپیہ لینے میں آخرت کا کتنا عظیم وبال ہے،اس سے بچنے کی کوشش کی جائے(بہار شریعت حصہ 11 ص 776)
فتاویٰ بحرالعلوم میں ہے:
مجبوری کی صورت میں سودی قرضہ لینے کی اجازت ہے، مگر عام طور سے لوگ جس کو مجبوری سمجھتے ہیں، وہ مجبوری نہیں ہے ،مجبوری یہ ہے کہ آدمی فاقہ سے مر رہا ہو تو جان بچانے کے لیے ایسا قرضہ لے سکتے ہیں، نہ یہ کہ تجارت اور مال داری میں کہ یہ شرعی ضرورت نہیں، (ج2ص393)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ بائک پر مذکورہ لون لینا ناجائز ہے.
واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
کتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــبہ
26ربیع النور 1443/ 2 نومبر 2021
الجواب صحیح
محمد نظام الدین قادری مصباحی
صدر شعبہ افتا جامعہ علیمیہ جمدا شاہی