فون پر دی گئی طلاق کی ایک صورت کا حکم
مسئلہ:۔ کیا فرماتے ہیں علماے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اپنی بی بی حلیمہ سے بذریعہ فون کہا تو ہمیشہ اپنے گھر میں رہے گی جا رہ ناٹک کر رہی ہے جا رہ طلاق لوگی لے حلی ایک طلاق حلی ایک طلاق حلی دو طلاق۔اس پر کونسی طلاق واقع ہوگی وضاحت فرما کر حکم شرع بیان فرمائیں ؟ کرم ہوگا۔ المستفتی۔ مولانا عبد الحکیم
علیمی۔ جھار کھنڈ
❄❄❄❄❄❄
الجواب: صورتِ مسئولہ میں زید کی بیوی حلیمہ پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں۔کیوں کہ زید نے اگر دو دفعہ "جا” کہنے سے یا کسی ایک دفعہ "جا” کہنےسے طلاق کی نیت کی ہو تو چوں کہ یہ لفظ ان الفاظِ کنایات سے ہے جن سے طلاق ہونے کے لیے بہر صورت نیت درکار ہے، لہذا ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی، (ووجہ وقوع الواحدة البائنة فیما اذا کرّر کلمة "جا” : ان البائن لا یلحقہ البائن، کما ھو مصرح فی عامة الکتب)۔
اب اس کے بعد جب اپنی بیوی کا نام لے کر "ایک طلاق” اور پھر "ایک طلاق” دی تو تین طلاقیں واقع ہوگئیں؛ کیوں کہ طلاق بائن کے بعد صریح لفظ سے طلاق ہوجاتی ہے۔
اور اگر کسی "جا” سے طلاق کی نیت نہ کی ہو تب بھی اس کے الفاظ "ایک طلاق”، "ایک طلاق” اور "دو طلاق” سے تین طلاقیں پڑگئیں۔اور ایک طلاق، محلِّ طلاق نہ رہ جانے کی وجہ سے لغو ہوگئی۔
نوٹ: سائل نے بعدِ استفسار بتایا کہ "حٙلِّی” کہہ کر وہ اپنی بیوی "حلیمہ” کو پکارتا تھا۔
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
” اگر(الفاظ کنایات میں) رد کا احتمال ہے تو مطلقاً ہر حال میں نیت کی حاجت ہے ۔بغیر نیتِ طلاق نہیں” (بہار شریعت باضافہ مابین الہلالین ح٨ص١٣١)
علامہ علاو الدین حصکفی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:
"(الصَّرِيحُ يَلْحَقُ الصَّرِيحَ وَ) يَلْحَقُ (الْبَائِنٙ) بِشَرْطِ الْعِدَّةِ (وَالْبَائِنُ يَلْحَقُ الصَّرِيحَ (لَا) يَلْحَقُ الْبَائِنُ (الْبَائِنٙ)”انتہی ملتقطا(در مختار مع شامی ج۴ ص ۵۴٠__ ۵۴٢)واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی۔ یوپی۔ ٦/ذی الحجہ ١۴۴٢ھ//١٦/جولائی ٢٠٢١ء