فون کے ذریعہ بنائے گیے وکیل کے نکاح کا حکم از مفتی محمد نظام الدین قادری

فون کے ذریعہ بنائے گیے وکیل کے نکاح کا حکم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

عنوان : اگر کوئی مسلمان عاقل بالغ شخص مطلقہ عورت سے جس کی عدت گزر چکی ہے اس طرح نکاح کیا کہ مرد دوسرے شہر میں تھا اور عورت نے اس سے فون پر کہہ دیا کہ میرا نکاح اپنے ساتھ کرلو، اس کے چند مہینے بعد مرد نے دو گواہ جن کے اندر گواہ بننے کی شرطیں تھیں، ان کے سامنے ،یہ الفاظ کہے کہ میں نے فلانہ بنت فلاں بن فلاں سے 3000 ہندوستانی رقم کے بدلے نکاح کیا، اور سارے گواہوں نے سنا بھی ،تو کیا یہ نکاح ہوگیا، برائے مہربانی جواب ارشاد فرما کر اجر عظیم کمائیں۔

المستفتی سلمان قادری لکھورائی چار راستہ بھج گجرات۔ 9825692496

الجواب بعون الملک الوہاب:

صورتِ مسئولہ میں نکاح ہوجائے گا۔ اس لیے کہ جب عورت نےعدت گزر جانے کے بعد کسی شخص کو فون کے ذریعہ اس کام کا وکیل بنادیا کہ وہ شخص اس عورت کا نکاح اپنے ساتھ کرلے اور اس شخص نے نکاح کے لیے قابل قبول گواہوں کی موجودگی میں یہ کہا کہ :”میں نے فلانہ بنت فلاں بن فلاں سے تین ہزار انڈین روپیے کے بدلے نکاح کیا” تو یہ نکاح درست ہوگیا۔فقہ حنفی کی ممتاز کتاب ہدایہ میں ہے: واذا اذنت المراة للرجل ان یزوجہا من نفسہ فعقد بحضرة شاہدین جاز”

(ہدایہ اولین ص٣٠٢ نسخہ مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور)

یعنی: جب کسی عورت نے کسی مرد کو اس بات کا وکیل بنایا کہ وہ مرد اس عورت کا نکاح اپنے ساتھ کرلے اور اس مرد نے دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیا تو یہ نکاح صحیح ہے۔

صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:”(ویتولی طرفی النکاح واحد لیس بفضولی من جانب)ای: یتولی واحد الایجاب والقبول، ولایشترط ان یتکلم بہما؛ فان الواحد اذا کان وکیلا منہما، فقال: زوجتہا ایاہ کان کافیا۔ وھو علی اقسام: اما ان یکون اصیلا و ولیّا کابن العم یزوج بنت عمہ الصغیرة او اصیلا و وکیلا، کما اذا وکلت رجلا بان یزوجہا نفسہ، فزوجہا من نفسہ۔۔۔”(شرح وقایہ ج٢ص٣۴) فتاوی عالم گیری میں ہے: "امراة وکلت رجلا بان یزوجہا من نفسہ ، فقال: زوجت فلانة من نفسی یجوز وان لم تقل: قبلت، کذا فی الخلاصة” (فتاوی عالم گیری ج١ص٢٩۵)

ہاں! اگر عورت انکار کرے کہ میں نے بذریعہ فون اس کو اپنا نکاح خود سے کرلینے کا وکیل نہ بنایا تھا تو یہ نکاح درست نہ ہوگا، کیوں کہ اب یہاں وہ شخص ایک جانب سے اصیل اور ایک جانب سے فضولی ہوگا اور ایسا نکاح درست نہیں ہوتا ہے۔ شرح وقایہ میں ہے:” ولایجوز ان یکون الواحد فضولیا کما اذا کان اصیلا وفضولیا۔” (شرح وقایہ ج٢ص٣۵)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔٣٠/صفر المظفر١۴۴٣ھ//٨/اکتوبر٢٠٢١ء

Leave a Reply