مرید کس سے ہونا چاہئیے ؟ کیا پیر صاحب عورتوں سے ہاتھ چوموا سکتے ہیں ؟

مرید کس سے ہونا چاہئیے ؟ کیا پیر صاحب عورتوں سے ہاتھ چوموا سکتے ہیں ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ ایسا پیر جو عالم نہ ہو اور عورتوں سے ہاتھ چومواتا ہو اور وہ تقریر وغیرہ میں عورتوں کو لالی، لپسٹک لگانے سے روکتا ہو ۔ اور خود اپنی عورت کو نہ روکتا ہو تو ایسے پیر کے بارے میں کیا حکم ہے ۔

المستفتی:محمد عابد رضا مقام گونڈا یوپی ۔

باسمه تعالی وتقدس

الجواب بعون الملک الوہابـــــــ

اجنبیہ جوان عورتوں سے مصافحہ کرنا اور ہاتھ چوموانا کسی کے لیے جائز نہیں خواہ پیر ہو یا غیر پیر ۔ ہاں بہت بوڑھی عورتوں اور محرمات سے مصافحہ کرنے میں حرج نہیں لیکن ہاتھ چوموانے سے احتراز اولی ہے ۔ جو پیر خلاف شرع کاموں کا مرتکب ہو وہ پیر بننے کے قابل نہیں کیونکہ پیر میں چار شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔

(۱) سنی صحیح العقیدہ ہو ۔

(۲) اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضرورت کے مسائل کتابوں سے خود نکال سکتا ہو ۔
(۳)فاسق معلن نہ ہو ۔
(۴) اس کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہو ۔

لہذا جس پیر میں مذکورہ شرطوں میں سے ایک شرط بھی کم ہو اس سے بیعت ہوناجائز نہیں۔

امام اہل سنت رحمه الله اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں "اجنبی جوان عورت کو جوان مرد کے ہاتھ پاؤں چھونا جائز نہیں اگرچہ پیر ہو” (فتاوی رضویہ ج ۹ ص ۱۶۹ نصف آخر)

اور بہار شریعت میں ہے ” ہاں اگر وہ بہت زیادہ بوڑھی ہو کہ محل شہوت نہ ہو تو اس سے مصافحہ میں حرج نہیں” (ج ۳ ح ۱۶ ص ۴۴۶)

اور فتاوی یورپ میں ہے” اپنے محرمات (ماں،دادی، نانی، ساس، بیٹی، پوتی وغیرھا) سے مصافحہ کرنے کی رخصت ہے لیکن اگر غیر محرمات ہیں جیسے ہسپتالوں اور دفتروں وغیرہ میں عام طریقہ سے ملازمت کرتی ہیں تو ان سے مصافحہ کرنا ناجائز و بد انجام ہے کہ یہ دونوں کے لیے فتنہ کا سبب ہے ۔ (ص۵۳۲)

اور فتاوی رضویہ میں ہے

” پیر میں چار شرطیں لازم ہیں اول سنی صحیح العقیدہ مطابق عقائد علمائے حرمین شریفین ہو- دوسرے اتنا علم رکھتا ہوں کہ اپنی ضرورت کے مسائل کتاب سے خود نکال سکے- تیسرے فاسق معلن نہ ہو- چوتھے اس کا سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو”(ج ۱۲ ص ۲۷۰)

اور رہا لپسٹک لگانے کا مسئلہ اگر اس میں نجس چیز کی آمیزش نہ ہو اور عورت اپنے شوہر کے واسطے زینت کے لیے لگاتی ہے تو جائز ہے ۔ ایسی صورت میں اپنی عورت کو منع نہ کرنے میں پیر صاحب پر کوئی الزام نہیں ۔ ہاں اگر لپسٹک لگا کر غیر محرموں کے سامنے جاتی ہے تو یہ ناجائز ہے ۔

لیکن اس صورت میں بھی سائل کا پیر صاحب کے متعلق یہ کہنا کہ وہ دوسری عورتوں کو لالی لپسٹک سے روکتے ہیں اور خود اپنی عورت کو نہیں روکتے ۔ اگر اس پر دلیل نہ ہو تو یہ سائل کی طرف سے بدگمانی ہے اور کسی مسلمان پر بدگمانی حرام ہے ۔ کیونکہ سائل ہمیشہ ان کے ساتھ نہیں رہتا کہ وہ جان سکے کہ اپنی عورت کو منع نہیں کرتے ۔ ہاں اگر واقعة ایسا ہے تو وہ پیر خطاکار ہے اس پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کو ایسے فعل سے منع کرے ۔ اگر منع نہ کرے تو اس سے بیعت ہونا جائز نہیں جو لوگ ایسے پیر سے بیعت ہو گئے ہوں تو وہ اب کسی پیر جامع شرائط سے بیعت ہوں ۔

چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے

"اصل یہ ہے کہ اصل اشیاء میں طہارت ہے جب تک نجاست یا حرمت معلوم نہ ہو حکم جواز ہے” نیز اسی میں ہے "مسی کسی رنگ کی ہو عورتوں کو علاج دنداں یا شوہر کے واسطے آرائش کے لیے مطلقا جائز بلکہ مستحب ہے”

(ج ۹ص ۱۷۷نصف اول)

اور امام اہلسنت ایک اور جگہ رقم طراز ہی "ان لوگوں کا کہنا کہ توبہ کوئی چیز نہیں اگر اس سے خاص گلزار کی یہ توبہ مقصود ہے یعنی اس نے دل سے توبہ نہیں کی تو مسلمان پر بدگمانی ہے اور وہ سخت حرام ہے”

(ج ۶ ص ۱۱۷)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت سے ایک استفتاء ہوا کہ "ایک شخص کو اس کے مریدین سجدہ کرتے ہیں اس سے دریافت کیا گیا کہ آپ مریدین کو سجدہ سے منع نہیں کرتے انہوں نے جواب دیا کہ میں مریدوں کو منع بھی نہیں کرتا اور حکم بھی نہیں کرتا،ان کا کیا حکم ہے؟ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں "یہ شخص بہت خطا پر ہے اس پر فرض ہے کہ مریدوں کو منع کرے اور مریدوں پر فرض ہے کہ اس فعل حرام سے باز آئیں”

(فتاوی رضویہ مترجم ج۲۲ ص ۵۴۳)

واللہ تعالی اعلم بالصواب

کتبہ محمدارشاد رضاعلیمی غفرلہ، المتخصص فى الفقه الاسلامى بدار العلوم العليميه
۱۶ رجب المرجب ۱۴۴۱ ھ مطابق
۱۲/ مارچ ۲۰۲۰ء

الجواب صحیح
محمد نظام الدین قادری خادم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

Leave a Reply