شرکت پر کام کرنے کے مسائل

شرکت پر کام کرنے کے مسائل

اگر دو بندے مل کر شرکت پر اس طرح کام کر رہے ہوں کہ دونوں کی رقم برابر ہو لیکن ایک زیادہ وقت دیتا ہو اور دوسرا کم وقت دیتا ہو تو کیا زیادہ وقت دینے والے شخص کا زیادہ نفع مقرر کیا جا سکتا ہے ؟

سائل : سلطان مدنی

بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب

اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

سوال میں ذکر کردہ شرکت، شرکتِ عنان ہے اور شریعت کے قوانین کے مطابق شرکتِ عنان میں دونوں شریکوں میں نفع برابر بھی ہو سکتا ہے، مال کے حساب سے بھی ہو سکتا ہے اور باہمی رضا مندی سے زیادہ کام کرنے والے کے لیے زیادہ نفع بھی مقرر کیا جا سکتا ہے ۔

البتہ جو فریق بالکل کام نہ کرے یا کم کام کرے تو اس کے لیے زیادہ نفع مقرر کرنا جائز نہیں ہے ۔

نوٹ :

نقصان کی صورت میں یہ شرعی قانون ہے کہ جس کا جتنا مال ہو اس اعتبار سے اس پر نقصان ڈالنا ضروری ہے.

تنویر الابصار و درمختار میں ہے:

’’(و) لذا (تصح) عاماً و خاصاً و مطلقاً و مؤقتاً و (مع التفاضل فی المال دون الربح وعکسہ)‘‘

اور اسی لئے شرکتِ عنان درست ہے عام، خاص، مطلق اور مؤقت اور مال میں کمی زیادتی کے ساتھ نہ کہ نفع میں کمی زیادتی کر کے اور اس کے برعکس (یعنی نفع میں کمی زیادتی نہ کہ مال میں دونوں طرح درست ہے )

اس کے تحت عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

’’قولہ : (و عکسہ) ای : بان یتساوی المالان و یتفاضلا فی الربح، لکن ھذا مقید بان یشترطا الاکثر للعامل منھما و لاکثرھما عملاً، اما لو شرطاہ للقاعد او لاقلھما عملاً فلایجوز کما فی البحر عن الزیلعی و الکمال”

شیخ شمس الدین تمرتاشی رحمۃ اللہ علیہ کا قول : (اور اس کے برعکس) یعنی : بایں طور کہ دونوں کے مال برابر ہوں اور نفع میں کمی زیادتی ہو، لیکن یہ اس کے ساتھ مقید ہے کہ دونوں شرط کریں کہ اکثر نفع ان میں سے کام کرنے والے کے لیے اور ان میں سے زیادہ کام کرنے والے کے لیے ہوگا، بہرحال اگر بیٹھنے والے یا ان میں سے کم کام کرنے والے کے لیے زیادہ نفع شرط کریں تو جائز نہیں ہے جیسا کہ زیلعی اور کمال کے حوالہ سے بحر میں ہے۔

(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الشرکۃ، مطلب : فی توقیت الشرکۃ روایتان، جلد 6، صفحہ 478، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

اور نقصان کے بارے میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ یوں تحریر فرماتے ہیں :

’’و ما کان من وضیعۃ او تبعۃ فکذلک، و لاخلاف ان اشتراط الوضیعۃ بخلاف قدر راس المال باطل‘‘

اور (شرکت میں) جو کچھ نقصان تا تاوان ہوگا تو وہ اسی طرح ہوگا (یعنی ان کے مالوں کی مقدار کے مطابق ہوگا) اور اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ راس المال کی مقدار کے خلاف نقصان کی شرط کرنا باطل ہے۔

(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الشرکۃ، مطلب : اشتراط الربح متفاوتا صحیح بخلاف اشتراط الخسران، جلد 6، صفحہ 469، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

’’اگر دونوں نے اس طرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا مگر کام فقط ایک ہی کرے گا اور نفع دونوں لیں گے اور نفع کی تقسیم مال کے حساب ہوگی یا برابر لیں گے یا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو جائز ہے اورا گر کام نہ کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو شرکت ناجائز ہے۔‘‘

(بہارِشریعت، جلد 2، صفحہ 499، مکتبۃ المدینہ کراچی)

مزید تحریر فرماتے ہیں :

’’نقصان جو کچھ ہوگا وہ راس المال کے حساب سے ہوگا، اس کے خلاف شرط کرنا باطل ہے، دونوں کے روپے برابر، برابر ہیں اور شرط یہ کی کہ جو کچھ نقصان ہوگا اس کی تہائی فلاں کے ذمہ اور دو تہائیاں فلاں کے ذمہ، یہ شرط باطل ہے اور اس صورت میں دونوں کے ذمہ نقصان برابر ہوگا۔‘‘

(بہارِشریعت، جلد 2، صفحہ 491، مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply